• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر اوباما کی خدمت میں چند گزارشات ,,,,ملک الطاف حسین

جناب صدر جب آپ نے 20 جنوری 2009 کو صدارت کا حلف اٹھایا تو لاکھوں لوگوں نے روبرو اور کروڑوں عوام نے ٹیلی ویژن پر آپ کو خوش آمدید کہا آپ نے حلف صدارت کے فوراً بعد العربیہ ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اقتدار کے پہلے 100 دنوں میں مسلم دنیا سے تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز کریں گے، 100 دنوں کے دوران ہی مئی 2009 میں ترک پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے اعلان کیا کہ ”امریکہ اسلام سے برسر جنگ نہیں“ 4 جون 2009 کو جامعہ الازہر (قاہرہ) کے پلیٹ فارم سے امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہاکہ ”ہم نے آج اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کے نئے باب کا آغاز کردیا ہے“ مشرق وسطیٰ کے مذکورہ دورے کی ابتدا آپ نے سعودی عرب کے دورے سے کی جہاں خادم الحرمین شریفین نے نہ صرف آپ کا پرتپاک استقبال کیا بلکہ سونے کا میڈل آپ کے گلے میں ڈال کر یہ پیغام دیا کہ گویا مسلم دنیا آپ کا استقبال کر رہی ہے۔ اسلامی برادری کے قائد عزت مآب شاہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات اور مذاکرات میں جہاں شاہ نے آپ کے لئے نیک خواہشات اور تعاون کا اظہار کیا وہیں پر آپ نے بھی اسلامی دنیا کے ساتھ موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے اور باہمی اعتماد کو فروغ دینے کی بات کی۔
جناب صدر آپ کے مذکورہ وعدے اور ارادے جہاں امریکی عوام کے لئے باعث اطمینان تھے وہیں پر اسلامی دنیا کے لئے بھی نیک شگون اور حوصلہ افزا تھے بالخصوص پاکستان جو 9/11 کے واقعے کے بعد انسداد دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں گھسیٹ لیا گیا تھا اس کی قیادت اور عوام کو یہ امید تھی کہ نو منتخب امریکی صدر افغان مسئلہ کا کوئی ایسا پرامن حل تجویز کریں گے کہ جس میں ایک طرف نہ صرف افغانستان کی آزادی اور خود مختاری بحال ہو جائے گی بلکہ پاکستان سمیت پورا خطہ جو افغانستان میں نیٹو افواج کی وجہ سے غیر مستحکم ہے محفوظ اور پرامن ہو جائے گا… جناب صدر آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 9/11 کے واقعہ میں کوئی بھی پاکستانی ملوث نہیں تھا اور نہ ہی کسی بھی حوالے سے پاکستان کی یہ ذمہ داری بنتی تھی مگر پھر بھی جنرل مشرف حکومت کو خوفزدہ کر کے انسداد دہشت گردی کی نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن پر کھڑا کر دیا گیا۔
جناب صدر آپ کو یہ بھی یاد ہوگاکہ صدر بش نے افغانستان پرحملے کے آغاز میں بڑے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ ”یہ ایک صلیبی جنگ ہے “ جبکہ یہ بات بھی آپ کے سامنے ہے کہ عراق پر حملہ کرتے وقت جن کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا واویلا کیا گیا تھا وہ آخر تک برآمد نہ ہوئے یہاں تک کہ صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی اور 11 لاکھ عراقی مسلمانوں کو آپ کی سفاک اور بے رحم فوج نے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ امریکی اخبارات نے ہی یہ انکشاف کیا کہ عراق پر حملے کے دوران صدر بش نے 5 سو سے زائد مر تبہ جھوٹ بولا۔ بش نے وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے پہلے اپنے غلطیوں اور غلط بیانیوں کا اعتراف کیا۔ یہ تمام صورت حال جناب صدر آپ کی خدمت میں پیش کی گئی کہ آپ کو اندازہ ہونا چاہیئے کہ افغانستان پر بھی حملے کئے جوالزامات لگائے اور جواز بتائے گئے وہ محض یکطرفہ پروپیگنڈہ اور من گھڑت تھے۔جناب صدر امریکہ نے صرف افغانستان کی جنگ ہار رہا ہے بلکہ مزید بہت کچھ ہار رہا ہے جس میں ایک ہار یہ بھی ہو گی کہ بالآخر امریکہ پاکستان جیسے دیرینہ دوست اور قابل اعتماد اتحادی سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جائے گا۔ 10 ستمبر کو ایڈمرل مائیک مولن نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ ہم پاکستان کی فوجی اور سول قیادت کو بار بار آگاہ کر چکے ہیں کہ امریکی شہریوں پر حملے کرنے والے پاکستان میں ہوئے تو امریکہ جوابی کارروائی کرے گا اس کے ساتھ ہی وزیر دفاع رابٹ گیٹس نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ کو درپیش چیلنجوں میں سے پاکستان سب سے بڑا چیلنج ہے“ 8 برس سے پاکستان نے امریکہ کی بندوق اپنے کندھے پر اٹھا رکھی ہے نیٹو افواج کی سپلائی کا 80 فیصد پاکستان کے راستے سے گزرتا ہے حکومت پاکستان نہ صرف پاکستان کے اندر امریکی مفادات کی حفاظت کیلئے سر توڑ کوشش کر رہی ہے بلکہ افغانستان میں موجود اتحادی افواج کو مدد دینے کے لئے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ”ملٹری آپریشنز“ کئے جا رہے ہیں جو پاکستان کے مفاد کے خلاف ہیں۔
جناب صدر اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کیلئے جو زمین خریدی گئی ہے اور جس طرح کی تعمیر کی خبریں سامنے آرہی ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سفارت خانے کی توسیع نہیں بلکہ جاسوسی کا کوئی اڈہ یا فوجی چھاؤنی قائم کی جا رہی ہے کراچی کے قونصل خانے کے لئے نئی قلعہ نما عمارت کی تعمیر، پشاور سمیت کئی دوسرے بڑے شہروں میں ہوٹلز کے فلورز کا بک ہونا، اسلام آباد میں دو سو مکانات کرائے پر لینا۔ سیاسی شعور ، معاملات اور خطرات کو سمجھنے کی صلاحیت اور احساس میں اضافہ ہوا ہے پاکستان کے عوام وہ سب کچھ جان چکے ہیں جو امریکی اور پاکستانی حکام خفیہ مذاکرات اور ڈیلز کے ذریعے کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی عوام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کے ہزاروں لاپتہ افراد جنہیں جنرل مشرف نے امریکہ کو فروخت کیا تھا وہ امریکہ کی خفیہ جیلوں اور بحری بیڑوں کے تہہ خانوں میں ہیں ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ امریکی فوجیوں کا سلوک بھی پاکستانی عوام کو یاد ہوگا گوانتا ناموبے کے قید خانے میں مسلمان قیدیوں کی جس طرح تذلیل کی گئی اور قرآن پاک کی امریکی فوجیوں نے جو بے حرمتی کی ۔ آپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ اگر میں صدر امریکہ بنا تو دنیا کو بدل کر رکھ دوں گا۔(جاری ہے)
تازہ ترین