• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر اوباما کی خدمت میں چند گزارشات,,,,ملک الطاف حسین…(دوسری قسط )

عالمی برادری دیکھ رہی ہے کہ دنیا کو بدلنے کا دعویٰ سچا ثابت ہوتا نظر نہیں آرہا بلکہ آپ کی کابینہ اور پالیسیوں میں سابق صدر کے جنگی جنونی ساتھی اور جارحیت پر مبنی فیصلے جوں کے توں نظر آتے ہیں۔
آپ اور آپ کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے ایسے بیانات جاری کرتے رہتے ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک آپ انسداد دہشت گردی کی جنگ ، افغانستان پر قبضے اور پاکستان کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات کا صحیح تجزیہ نہیں کر پائے۔
سروے کی رو سے پہلی بار52 فیصد امریکی عوام نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے لائق نہیں ان 52 میں سے 51 فیصد عوام نے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کے حصہ لینے کی سخت مذمت کی ہے۔ نیشنل ریڈیو نے مذکورہ سروے سے اپنا نتیجہ خود ان الفاظ میں بیان کیا امریکی عوام کو ہوا کا رخ معلوم کرنے کے لئے پاکستان کے حوالے سے بھی چند تازہ ترین خبریں ملاحظہ کر لیجئے۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے 22/اکتوبر 2008ء کو ایک متفقہ قرار داد میں خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کی حکمت عملی اور امریکی مداخلت کو روکنے کے لئے بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک معروف قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی توسیع کے بعد کل رقبہ 56 ایکڑ ہو جائے گا جو فوجی اڈہ بن سکتا ہے جس سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور قومی سلامتی کو خطرہ ہوگا۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ پاکستان کو مستحکم بنانے کے لئے اقتصادی امداد کی ضرورت ہے محض طاقت سے نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ فوج فی الحال جنوبی وزیرستان میں آپریشن کا امریکی مطالبہ پورا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ صدر آصف علی زرداری نے برطانیہ کے اخبار فنانشل ٹائمز کو ایک حالیہ انٹرویو میں کہا امریکہ کی پاک افغان پالیسی درست نہیں جس کو ہم مسترد کرتے ہیں سیکورٹی کے سنگین مسائل کا سامنا ہے سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں امداد نہ ملی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ پر ہولناک اثرات مرتب ہوں گے۔
ملاعمر نے عیدالفطر کے موقع پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو فورسز کو افغانستان کی طویل تاریخی جنگ کا مطالعہ کرنا چاہئے انہوں نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ہم نے برطانوی راج کے خلاف بھی 80 سال تک جنگ لڑی اور بالآخر برطانیہ کو شکست دیکر آزادی حاصل کی۔ جناب صدر افغانستان صحیح معنوں میں حریت پسندوں اور مجاہدین کا وطن ہے جس نے کبھی کسی غیر ملکی طاقت کی غلامی برداشت نہیں کی بلکہ وہ شمال میں زاد روس اور جنوب میں برطانوی استعمار کے بیچ میں رہنے کے باوجود سرخرو اور سربلند رہا برطانوی استعمار 1839-41، 1878، 1919ء جبکہ روس 1979-88ء تک اس ملک پر یلغار کرتے رہے اور عارضی طور پر اپنا تسلط بھی قائم کر لیا مگر بالآخر افغانستان جارح قوتوں کا قبرستان ثابت ہوا۔
جناب صدر میں اپنی بات ختم کرنے سے پہلے ایک بار پھر آپ کو اپنے انتخابی وعدوں سمیت ریاض، قاہرہ اور انقرہ میں کئے جانے والے اعلانات اور ارادے یاد دلانا چاہتا ہوں۔ دنیا امن کے انتظار میں آپ کی طرف دیکھ رہی ہے تاہم صورتحال اگر جوں کی توں رہی تو اس سے عالمی برادری اور اقوام عالم میں نہ صرف مایوسی پھیلے گی بلکہ یہ خیال بھی پختہ ہو جا ئے گا کہ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ملک 70 سال بعد بھی تبدیل نہیں ہوا۔ مہذب اور ایک واحد طاقتور ملک کہلانے کے دعوے کھوکھلے کہلائیں گے ۔
جبکہ دنیا بھر میں نفرت آپ کا تعاقب اور شکست آپ کے ساتھ ساتھ چلے گی۔ جناب صدر اگر آپ نے بالادستی، جارحیت اورقبضہ کی پالیسی ترک کردی اور آپ اور آپ کے اتحادی دوسروں کی زمین چھوڑ کراپنی سر زمین پر لوٹ گئے تو مجھے یقین ہے کہ دنیا میں نہ صرف پائیدار امن قائم ہو جائے گا بلکہ آپ اور آپ کے رفقاء 2012ء کا صدارتی انتخاب بھی جیت جائیں گے۔ آپ کے درست اقدامات غیر جانبدارانہ فیصلوں اور انصاف پر مبنی اعلانات کا انتظار رہے گا۔
تازہ ترین