• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان کے ساتھ تجارتی فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، سارک چیمبر

لاہور(اے پی پی) سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے پاک افغان کشیدگی میں کمی کیلئے چین کی مصالحتی کوششوں کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ چین ، پاکستان اور افغانستان کے مابین سہ فریقی تعاون سے خطہ بھر میں امن اور خوشحالی آئیگی۔ سارک ایوان صنعت و تجارت کے نائب صدر افتخار علی ملک نے جمعرات کو یہاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ تجارت کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور اس ملک کے تاجروں کی سہولت کیلئے  اسپیشل افغان ڈیسک قائم کر دیئے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ چین افغانستان میں قیام امن اور مصالحت اور پاکستان و افغانستان میں انسداد دہشتگردی میں رابطہ کاری کیلئے سہ فریقی مکنیزم تجویز کر رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چین، پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کی سرد مہری کے خاتمہ میں سود مند کردار ادا کرسکتا ہے اور چین اپنا یہ کردار اس وقت ادا کرسکتا ہے جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی خطہ میں پاک افغان بارے کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چین اس اہم کردار کے علاوہ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کو بھی محدود کرسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ چین افغانستان اور پاکستان کے مابین باہمی تقابل کی ایک طویل روایت رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان افغانستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے ایک ہے کیونکہ پاکستان سالانہ 3ارب ڈالر کی تجارتی اشیااور خدمات افغانستان کو برآمد کرتا ہے اور کراچی بندرگاہ کے ذریعے دنیا بھر سے افغان درآمدات کا بڑا مرکز بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے آئندہ فیز میں ایک پٹی ایک شاہراہ کو افغانستان کے راستے ہی وسطی ایشیاءتک وسعت دی جائیگی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کی ایک پٹی ایک شاہراہ ، سی پیک اور افغانستان علاقائی، اقتصادی تعاون کی کانفرنسز(آر ای سی سی اے) کے کئی منصوبوں کی تین پالیسیاں موجود ہیں جن میں سکیورٹی اور سیاسی معاملات سے قطع نظر کئی جہتی تعاون کو فروغ دینے کی صلاحیت پائی جاتی ہے ۔ان میں سے اگر ہم صرف سی پیک کا ہی جائزہ لیں تو اس میں گزرگاہ اور تجارت ، انفرانسٹرکچر ، توانائی شعبہ میں تعاون اور اقتصادی یکجہتی جیسے 4 بڑے اجزا ہیں اور افغانستان ان چاروں اجزاءکو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ افغانستان قدرتی گزر گاہ والی راہداری ہے اور اس کے انفرااسٹرکچر کے پروجیکٹ کو ایک پٹی ایک شاہراہ کے عین مطابق بنایا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین عوام سے عوام اور کاروبار سے کاروبار کی سطح پر تعلقات ہیں تاہم ان دوطرفہ تعلقات سے قطع نظر تینوں کے مابین قدیم شاہراہ ریشم کے باوجود زیادہ تعاون نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ 1950ءسے لیکر اب تک پاکستان اور چین کے مابین مفاہمت کی 350سے زائد یاداشتوں پر دستخط ہوئے جبکہ افغانستان اور چین نے 150سے زائد مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط کئے ہیں۔اسی طرح پاکستان اور افغانستان نے بھی 150سے زائد مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کر رکھے ہیں تاہم چین افغانستان اور پاکستان کے مابین مفاہمت کی بہت کم یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارتی تعلقات میں بہتری کیلئے تجاویز بھی دیں جن میں ضروری اشیاءکے تجارتی محصولات کی شرح میں کمی ، نان ٹیرف بیریئرز میں کمی اور افغان کاروباری افراد کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرنا شامل ہے اسی طرح پاکستانی برآمد کنندگان کی ری فنانسنگ کی سہولت بھی دی جانی چاہئے۔

تازہ ترین