وزیرستان میں ”ملٹری آپریشن “پوری طاقت کے ساتھ شروع ہو چکا ہے۔ 30ہزار فوجی جوان اس جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔ آئی ایس پی آرکے مطابق دو ماہ تک آپریشن جاری رہنے کا امکان ہے جبکہ زمینی آپریشن شروع کرنے سے10روز پہلے سے جیٹ جہازوں کے ذریعے مبینہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بمباری جاری تھی، علاوہ ازیں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر فضل کریم کنڈی کے مطابق جنوبی وزیرستان آپریشن میں90 ہزار خاندان نقل مکانی کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے 7مئی2009ء کو وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قوم سے ایک مختصر خطاب کے دوران سوات، مالاکنڈ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں”ملٹری آپریشن“ کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے”آپریشن راہ راست“ شروع کرنے کا حکم جاری کیا تھا جس پر جنرل کیانی نے مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لانے کا آپریشن ہے۔ مذکورہ آپریشن میں تقریباً25لاکھ لوگ بے گھر ہوئے تھے۔ جن میں زیادہ تر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں کہ جہاں گھر کم اورکھنڈرات زیادہ ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں تعمیرنوکے وعدے ہوا میں کھڑے ہیں، اس آپریشن میں مرنے والوں کی تعداد صحیح نہیں بتائی گئی۔ کسی کا کوئی جنازہ نہیں دکھایا گیا اور نہ ہی کسی دہشت گرد یا بے گناہ کی لاش اس کے لواحقین کے حوالے کی گئی۔ بہرحال ”آپریشن راہ راست “ کتنے لوگوں کو راہ راست پر لانے میں کامیاب ہو سکا اورکتنوں کو مزیدگمراہ کرگیا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا بلکہ کافی حد تک وقت بتا بھی چکا ہے کہ طاقت کا اندھا استعمال کبھی بھی مثبت نتائج سامنے نہیں لاتا۔ شانگلہ، پشاور، لاہور، اسلام آباد اور جی ایچ کیو پر حملے شاید انہی گمراہ لوگوں کا کام ہیں جنہیں آپریشن راہ راست کے ذریعے سیدھا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
آپریشن راہ راست ابھی جاری تھا کہ7 جون2009ء کو جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہِ نجات“ شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا، تاہم اس پر عملدرآمد اب17اکتوبر2009ء کو شروع کیا گیا … آپریشن راہ راست کے بعد”راہِ نجات“ کا فیصلہ کیوں ہوا اورکس نے کیا، اس کے بارے میں بہت سے سوالات اور خدشات ہیں کہ جن کے بارے میں فی الحال معلوم کرنا یا کوئی انکشاف کرنا ممکن نہیں مگر اس دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا وہ انٹرویو بہت اہم ہے جو انہوں نے برطانوی اخبار ”انڈیپنڈنٹ“ کو دیا اور20ستمبرکے ”جنگ“ میں شہ سرخی کے ساتھ شائع ہوا ” فوج فی الحال جنوبی وزیرستان میں آپریشن کا امریکی مطالبہ پورا کرنے کیلئے تیار نہیں“۔ سوال یہ ہے کہ وزیر خارجہ نے یہاں ”حکومت فی الحال آپریشن نہیں چاہتی“ کی بجائے ” فوج فی الحال آپریشن کرنا نہیں چاہتی “کا جملہ کیوں استعمال کیا جبکہ فوج تو حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔ فوج کا علیحدہ سے ذکرکرکے کس کوکیا پیغام دیا گیا… ؟ مزید برآں وزیر خارجہ کے اس بیان سے اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی کہ وزیرستان کا آپریشن امریکی مطالبے پر ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام الزامات بھی درست معلوم ہوتے ہیں کہ جن میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جاری ملٹری آپریشنز امریکی دباؤ اور مطالبے پرکیے جا رہے ہیں۔ وزیر خارجہ کے مذکورہ بیان کے بعد ”پاکستان اپنی جنگ لڑ رہا ہے“ کا موقف اور دعویٰ بھی بے بنیاد ثابت ہوتا ہے علاوہ ازیں اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب بقول وزیر خارجہ کے ”فوج فی الحال امریکی مطالبے پر وزیرستان میں آپریشن نہیں کرنا چاہتی تو اب آپریشن کرنے کیلئے کیوں تیار ہوگئی۔ آپریشن نہ کرنے اورکرنے کی وجوہات کیا ہیں…؟ 20 ستمبرکے بیان سے لے کر17 اکتوبر تک یعنی27 دن میں کون سی تبدیلی واقع ہوئی۔کس نے کس کو راضی کیا اورکیسے کیا،کوئی دباؤ پڑا یا کوئی ضرورت پوری ہوئی…؟ ان تمام سوالات کے جوابات معلوم کرنا عوام کا حق ہے۔
وزیرستان آپریشن شروع کرنے کیلئے16 اکتوبرکو وزیراعظم گیلانی کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف جنرل کیانی نے بریفنگ دی اور پھر اجلاس کے اختتام پر جو بیان جاری ہوا اس میں کہا گیا کہ ”فوجی و سیاسی قیادت نے وزیرستان آپریشن کی منظوری دے دی “ سوال یہ ہے کہ ایک منتخب حکومت، منتخب پارلیمنٹ کی موجودگی میں ”ملٹری آپریشن “کا انتہائی اہم فیصلہ کہ جن کے ابھی تک کے نتائج اطمینان بخش نہیں رہے بلکہ بلوچستان اور صوبہ سرحدکے جن علاقوں میں جو بھی ملٹری آپریشن کیے گئے وہ تمام کے تمام اپنے بھیانک نتائج کے ساتھ قومی اتحاد اور قومی سلامتی کو متاثرکرنے کے ساتھ ساتھ داخلی امن و سکون کو بھی تہہ و بالا کیے ہوئے ہیں تو ایسی صورت میں جنوبی وزیرستان آپریشن کیلئے محض بریفنگ ہی کوکیوں کافی سمجھا گیا،کیا اس کے لیے ضروری نہیں تھا کہ اسے قومی اسمبلی میں زیر بحث لایا جاتا…؟ بریفنگ تبادلہ خیال نہیں بلکہ ایک خیال کو دوسروں پر مسلط کرنے کا نام ہے۔ مسئلے کے تمام پہلوؤں پر غور تو پارلیمنٹ کے اندر ہی آزادانہ بحث کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، شاید آپریشن جن کی ضرورت ہے وہ قوم کی آنکھیں کھولنے کیلئے تیار نہیں اس لیے” ملٹری آپریشنز“ کو بھی سیاست دانوں کے ساتھ دیگر ایشوز کی طرح خفیہ ڈیل کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
بہرحال آپریشن راہِ نجات شروع ہو چکا۔ خبروں کے مطابق فورسزکو زبردست کامیابی مل رہی ہے۔ مبینہ دہشت گرد مارے جا چکے ہیں یا پھر فرارکا راستہ اختیارکر رہے ہیں۔ لال مسجد، ڈیرہ بگٹی اور سوات آپریشنز کی طرح بیانات کے مطابق کامیاب رہے گا لیکن کیا وقت ثابت کر رہا ہے کہ لال مسجد، ڈیرہ بگٹی اور سوات آپریشن کامیاب رہے…؟
اگر مذکورہ آپریشن کامیاب تھے تو پھر مزید آپریشن کرنے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے اور مزید یہ کہ یہ آپریشن کب تک اورکہاں تک جاری رہیں گے۔کیا جنوبی وزیرستان کے بعد آپریشن راہِ نجات کا اگلا ہدف جنوبی پنجاب ہوگا …؟ سوال یہ ہے کہ کون کس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے عوام تو امریکہ سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ سوات کے عوام غیر شرعی قوانین سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وزیرستان کے بہادر عوام افغانستان پر قابض نیٹو افواج سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جنوبی پنجاب، لاہور اور اسلام آباد سمیت پاکستان بھر میں موجود اسلامی اور جہادی قوتیں امریکی مداخلت سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اسلامی اور جہادی قوتوں کی پاکستان کے اندر توکسی کے ساتھ کوئی جنگ نہیں وہ توکسی غیر ملکی کو مہمان بنا کر نہیں لائے اگر جہاد افغانستان کے دوران آیا ہوا کوئی مجاہد تھا تو وہ اب ان کا رشتہ دار بن چکا ہے لیکن جنہوں نے افغانستان پر امریکی حملے اور نیٹو افواج کے داخلے کیلئے پاکستان میں ہوائی اڈے اور راستے دیئے، جنہوں نے ڈرون جہازوں کو پاکستان پر حملے کرنے کا موقع فراہم کر رکھا ہے جن کی میزبانی میں سی آئی اے، ایف بی آئی اور بلیک واٹرکے ایجنٹ پاکستانی شہریوں کو قتل اور اغوا کر رہے ہیں اور مزید یہ کہ جنہوں نے کابل اور اسلام آباد میں حملہ آور سامراجی قوتوں کو ”دوست“ کا درجہ دے رکھا ہے۔ ایسے لوگوں کی ہی ترتیب دی ہوئی ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے خطے کے امن اور استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
حکمران جو بھی فیصلہ کرنا چاہیں وہ کر سکتے ہیں کیونکہ ان سے جواب طلب کرنے والا کوئی نہیں، پارلیمنٹ بے بس ہے اورکابینہ نااہل جبکہ صدر اور وزیر اعظم اپنے
اپنے اقتدارکی حفاظت کی ضمانتیں مانگتے پھر رہے ہیں۔ امریکہ کی پوری پوری کوشش ہے کہ وہ پاکستان کو عوام سے چھین کر اپنے دوستوں اور وفاداروں کے ذریعے بالواسطہ قبضے میں لے لے اور پھرکابل اور بغداد کی طرح اس کا بھی ایسا آپریشن کرے کہ وہ ایک عرصے تک صحت یاب نہ ہونے پائے۔
القاعدہ اور طالبان کے حوالے سے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات اور یکطرفہ پروپیگنڈے کو جواز بنا کر افغانستان کو تباہ و بربادکر دیا گیا، اب جب دیکھا کہ وہاں مزید تباہ کرنے کیلئے کچھ نہیں بچا تو جنگ کے شعلوں کو پھونک مارتے مارتے پاکستان کے اندر تک لے آیا گیا جوکچھ افغانستان اور عراق کے ساتھ کیا گیا، امریکہ اس سے بھی کچھ زیادہ پاکستان اور ایران کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔ ایران کی باری شاید دیر سے آئے اور شاید نہ بھی آئے، تاہم ایران کے مقابلے میں پاکستان کے اندرکی صورتحال زیادہ مایوس کن اورگمبھیر ہے کیونکہ یہاں جرأت مند، باصلاحیت اور بابصیرت قیادت کا فقدان ہے۔ امریکی ایما پر شروع کیے جانے والے” ملٹری آپریشنز“کو حکمران سیاست دان اور اپوزیشن رہنما دونوں ہی روکنے میں ناکام ہوگئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی مرتبہ طالبان قیادت نے بھی”آپریشن راہِ نجات “ کا مقابلہ کرنے کے لئے ”معرکہٴ خیرو شر“ شروع کردینے کا اعلان کر دیا ہے۔ (جاری ہے)