• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی جو ہمیشہ سے روشنیوں کا شہر رہا ہے گزشتہ کچھ عرصے سے اس شہر کو اہل سیاست کی نظر کھاگئی ہے‘ سیاسی کشمکش اور رسہ کشی کے سبب یہ شہر خونم خون رہا ہے اس کی روشنیاں ماند پڑگئیں خوف کے سائے اس قدر بڑھے کہ بڑھتے بڑھتے اندھیروں نے گھر کرلیا۔ کراچی میں امن و امان کیلئے مجبوراً حکومت کو رینجرز کو بلانا پڑا جسے محدود اختیارات کے ساتھ کراچی آپریشن کی ذمہ داری سونپی گئی لیکن حکمراں جماعت نے اس آپریشن کی آڑ میںاپنے مخالفین کو نشانہ بنایا۔ لیکن آرمی چیف کی مداخلت سے کراچی آپریشن کامیابی سے آگے بڑھتا رہا۔ اب جبکہ اہل سیاست ہی نہیں بلکہ اہل کراچی بھی یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ کراچی آپریشن سے جرائم پیشہ افراد کا بڑی حد تک قلع قمع ہوا ہے اور کراچی میں امن و امان کی صورت حال بہت بہتر ہوئی ہے اور خوف کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ اللہ کرے کہ واقعی کراچی ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن جائے،روشنیاں پھر سے بحال ہوجائیں۔ لیکن اس پر امن ماحول کا احوال پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق کچھ اور ہی ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی انتظامیہ کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی یہ رپورٹ جنوری 2016ء سے جون 2017ء تک کی کیفیت بیان کررہی ہے جس رپورٹ کے مطابق پرامن کراچی میں گزشتہ چھ ماہ میں صرف ایک سو پچاسی افراد کا قتل ہوا، پانچ سو بیاسی رہزنی اور ڈکیتی کے واقعات ہوئے، چوری کے صرف ایک سو ستّر واقعات، سات سو تیس گاڑیوں کو چھینا یا چرایا گیا ہے، چودہ ہزار موبائل فون چھینے گئے،گیارہ ہزار نو سو موٹر سائیکلیں چھینی اور چوری کی گئیں۔ اس کے علاوہ چھ ماہ کے عرصے میں چار سو افراد کو اغوا برائے تاوان کی مد میں اغوا کیا گیا جبکہ آٹھ بچے اغوا کئے گئے۔ تینتیس کیس زنا کے بھی رپورٹ کئے گئے، یہ تو صرف ابتدائی چھ ماہ کی رپورٹ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلحہ آرڈیننس کے بھی چودہ سو چونتیس واقعات رپورٹ ہوئے۔ ابھی تو جولائی تا دسمبر کے چھ ماہ باقی ہیں اللہ خیر کرے آنے والے چھ ماہ میں تو کئی طرح کے حالات سامنے آنے والے ہیں۔نئے انتخابات کی تیاریاں ابھی سے زور و شور سے شروع کردی گئی ہیں ایسے حالات میں جبکہ شہر میں ہر طرف پولیس اور رینجرز کی نفری تعینات ہے، پرامن پرسکون کراچی میں صرف چھ ماہ میں جرائم کا یہ حال ہے تو پھر الیکشن کی گہما گہمی میں کیا حال ہوگا۔کہنے والے اور بیشتر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کا شہر جس کی آبادی امارات اور یورپ کے کئی ممالک سے کہیں زیادہ ہے اس میں اتنے جرائم کا ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں، ایک اور بات بھی کہی جارہی ہے کہ ہمارے ملک کے اخبارات اور برقی ذرائع ابلاغ ضرورت سے کچھ زیادہ آزاد ہیں۔ امریکہ و یورپ میں کہیں کسی جرم کی خبر کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس طرح ہمارے ملک میں کیا جاتا ہے،تمام ہی ذرائع ابلاغ چاہے وہ برقی ہوں کہ اشاعتی چھوٹی چھوٹی اور غیر اہم خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرتے ہیں‘ اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ کہ مسابقت میں اپنے حریف سے آگے نکلنے کے لئےاصل خبر کو کچھ سے کچھ بنادیا جاتاہے۔ امریکہ اور یورپ میں جرم کی کوئی خبر ہوم ڈیپارٹمنٹ یا پولیس کی رضا مندی اور اجازت کے بغیر شائع نہیں کی جاسکتی یہی سبب ہے کہ وہاں ہونے والے جرائم کی اکثر خبریں نہ شائع کی جاتی ہیں نہ دکھائی جاتی ہیں جس سے ان ممالک سےمتعلق یہ تاثر بنتا ہے کہ وہاں جرائم نہیں ہوتے یا بہت کم ہوتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یورپ اور امریکہ میں تو اگر سیاست دان اپنا بیان یا اپنی خبر اپنی مرضی سے چلوانا یا شائع کرنا چاہے تو اسے اسپیس خریدنا پڑتی ہے بطور اشتہاریا لیڈر کا بیان شائع کیا جاتا ہے۔ہمارے ملک کی طرح نہیں کہ بعض بیشتر چھوٹے اخبارات تو پریس ریلیز کے بغیر چلتے ہی نہیں ان کا گزر بسر تو پریس ریلیز پر ہی ہے، تصاویر الگ مفت میں اخبار کی جگہ بھرنے کے کام آتی ہیں۔ صرف چند بڑے اور اہم اخبارات ہیں جہاں خبر ان کے رپورٹر فراہم کرتے ہیں، تصاویر ان کے اپنے فوٹو گرافر مہیا کرتے ہیں یا عوامی مفاد کے طور پر کچھ پریس ریلیز بھی شائع کردیتے ہیں۔ اب تو پھر کچھ غنیمت ہے ورنہ کچھ برسوں پہلے تو عجب حال تھا اگر کسی سیاسی جماعت یا لیڈر کی خبر نہیں لگائی یا کہیں آگے پیچھے کی جگہ اندرونی صفحات پر لگادی گئی تو ایک آفت مچادی جاتی تھی، اپنے حمایتوں کے ساتھ اخبار کے دفتر پر حملہ کردیا جاتا تھا۔ اس میں قصور بڑی حد تک اپنی خبر اور تصویر چھپوانے والا کاہوتا تھا۔ عام قاری اور ناظر کا کہنا ہے کہ انہیں ہر جرم کی بروقت خبر مل جاتی ہے جو بڑی اچھی بات ہے،کسی طرح کی بے خبری میں نہیں مارے جاتے۔ کراچی شہر جو واقعی کئی شہروں کا شہر ہے بلکہ منی پاکستان ہے اس میں چھ ڈسٹرکٹ ہیں یعنی چھ شہروں کا ایک شہر ہے اس کے انتظامات کے لئے بڑے حوصلے اور ذہین افراد کے ساتھ ساتھ حکومت کا دیانت داری سے کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لینا بھی ضروری ہے ۔موجودہ حکمرانوں کے مطابق تو کراچی ہی ان کے زیر انتظام نہیں انہیں پورا سندھ کا خیال رکھنا ہے کراچی صرف ایک شہر ہے اور حکومت پورے صوبہ سندھ کو دیکھتی ہے اگر دیکھا جائے تو پورے سندھ کی آبادی کراچی شہر کی آبادی کا نصف بھی مشکل سے ہوگی بہرحال اللہ تعالیٰ ہمیں، ہمارے وطن اور ہمارے شہر کراچی کی روشنیاں پھر سے بحال کرے اور پر امن کراچی ایک بار پھر وجود میں آجائے، آمین۔

تازہ ترین