(آخری قسط)
ٹیپو سلطان کی شہادت اور جنرل اے اے کے نیازی کی زندگی میں بہت بڑا سبق ہے۔ گیدڑ کی سو سالہ سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔ کس نے کہا اور کیوں کہا شاید رحمٰن ملک کو یاد ہو…؟؟
کنگ فیصل ریسرچ اینڈ اسلامک اسٹڈیز کے چیئرمین جناب شہزادہ ترکی الفیصل کا ایک مضمون گزشتہ دنوں امریکہ کے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے صدر اوباما کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ابلاغی حکمت عملی تبدیل کی جائے۔ طالبان کو دہشت گرد کہنے سے گریز کیا جائے۔ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کیلئے ہندوستان اور پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے جبکہ افغانستان کے مسئلہ کے حل کیلئے امریکہ ، سعودی عرب، افغانستان ، پاکستان ، چین اور روس سے تعاون حاصل کرے۔ دنیا کے اس اہم علاقے کے مسائل سے نمٹنے کے لئے خصوصی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ایک سے زیادہ نقطہ ہائے نظر پر مبنی پالیسی مفید ثابت ہوگی۔ہمارے خیال کے مطابق سعودی شہزادے نے بہت حد تک درست مشورہ دیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کے مسئلہ کو محض امریکہ اور نیٹو ممالک کے ذریعے حل کرنا ممکن نہیں کیونکہ جارح صلح بھی کرائے، تخریب کار تعمیر نو بھی کرے، دہشت گردی کا مرتکب امن کا داعی بھی ہو، ایسا نہیں ہوسکتا، امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر یہ تمام الزامات ہیں۔ افغان کبھی بھی اپنے قاتلوں کو محسن قرار نہیں دیں گے۔ لہٰذا سب سے بہتر اور مناسب طریقہ کار یہ ہوگا کہ افغانستان کے مسئلہ کے حل کیلے علاقائی قیادت اور ان ممالک سے رابطہ کیا جائے جو افغانستان کی سرحد کے قریب ہیں جن میں اسلامی جمہوریہ ایران کو بھی لازمی طور پر شامل کیا جانا چاہئے جبکہ صدر اوباما کو سعودی شہزادے کی مذکورہ تجویز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے۔ حکومت پاکستان کو بھی ترکی الفیصل کی تجویز کو مزید بہتر اور قابل عمل بنانے کیلئے وسیع مشاورت شروع کردینی چاہئے کیونکہ اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا افغانستان پر اپنا غیرقانونی قبضہ مزید برقرار رکھنا کافی مشکل ہوتا جارہا ہے اس سے پہلے کہ شکست امریکیوں کے ماتھے سے چپک جائے اور واپسی پر بحرالکاہل کے پانی سے بھی نہ دھل پائے۔ بہتر ہوگا کہ سعودی عرب ، پاکستان، ا یران ، چین اور روس کے ساتھ گول میز کانفرنس کی جائے تاکہ خطہ میں امن و استحکام کیلئے کوئی راستہ نکالا جاسکے۔ہم یہاں آخر میں اپنے دیرینہ دوست عوامی جمہوریہ چین کے صدر جناب خوچن تھاؤ کے اس بیان کا بھی حوالہ دینا چاہیں گے کہ جو انہوں نے چین کی 60ویں سالگرہ کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”آزاد خارجہ پالیسی پر سختی سے کاربند رہیں گے، ملکی ترقی کے ثمرات دنیا بھر کو پہنچانے کیلئے پرعزم ہیں، پڑوسی ممالک کے ساتھ مفاہمتی پالیسی جاری رہے گی۔“اس سال چین نے 60واں اور ہم نے 62واں یوم آزادی منایا۔ چین 60 برسوں میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن گیا جبکہ 2050ء تک دنیا کی سب سے یڑی معاشی اور عسکری قوت ہوگا ، اس کا جی ڈی پی 40کھرب اور 40 ارب ڈالر ، اس کے پاس 20 کھرب 13ارب ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ ہے جو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
ہم سے دو برس بعد آزاد ہونے والا چین آج ہم سے کئی برس آگے نکل گیا حالانکہ یہ قوم تو افیون کے نشہ میں مدہوش اور آبادی کے دباؤ کی وجہ سے ترقی اور خوشحالی کا خواب تک دیکھنے کی پوزیشن میں نہیں تھی مگر چینی قیادت کی جرأت ، تدبر ، حوصلے اور معاملہ فہمی نے مدہوش قوم کی آنکھیں کھول دیں۔ ان کے اندر محنت کا جذبہ اور حب الوطنی کا جذبہ اسٹیم کی طرح بھردیا گیا۔ناکارہ لوگ دنیا کے کامیاب لوگ ثابت ہونے لگے۔ آج چین نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑا ہے بلکہ ان قدموں کو روکنے کی طاقت بھی رکھتا ہے کہ جو ناپاک عزائم کے ساتھ چین کی طرف بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ چینی قیادت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی یا الہ دین کا چراغ نہیں تھا۔ اس قیادت نے بس دو ہی کام کئے اور 60 برس گزر جانے کے باوجود وہ آج بھی انہی دو باتوں کا اعادہ کررہے ہیں ”آزاد خارجہ پالیسی اور خود انحصاری۔“پاکستانی قیادت کیلئے بھی اس میں یہی سبق ہے کہ وہ دباؤ قبول کرنے والی خارجہ پالیسی اور کشکول کے ذریعے معیشت کو مضبوط کرنے والی شرمناک پالیسی کو ترک کردے ، جب تک حکومت پاکستان ایسا نہیں کرے گی پاکستان کی معاشی و اقتصادی پالیسیاں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے کنٹرول میں رہیں گی اور یوں پاکستان دنیا کے کرپٹ، غریب اور بھکاری ملکوں میں شامل رہے گا۔ اسی طرح سے خارجہ پالیسی کو بھی جب تک امریکی چنگل سے آزاد کرکے اپنے مفاد اور حالات کے مطابق فیصلے نہیں کئے جائیں گے اس وقت تک یہ پالیسی ملک کے اندر ناکام اور عالمی سطح پر غیر اہم تصور کی جاتی رہے گی … امید ہے کہ حکومت پاکستان کے وہ دماغ کہ جنہیں پالیسی میکر کا درجہ حاصل ہے وہ جنرل مشرف ، شاہ محمود قریشی، رحمٰن ملک ، ترکی الفیصل اور خوچن تھاؤ کے بیانات کا پاکستان کے قومی مفادات اور خطہ کے حالات کے تناظر میں کوئی سنجیدہ تجزیہ کرتے ہوئے خارجہ پالیسی اور معاشی و اقتصادی منصوبہ بندی کیلئے ازسرنو سفارشات مرتب کریں گے تاکہ پاکستان کے امیج کو بہتر اور حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ اللہ رب العزت ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے آمین۔