سعودی وزیر اطلاعات و نشریات جناب ایادامین مدنی نے گزشتہ دنوں جدہ میں اسلامی تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں القدس کے حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”اسرائیل یہودی بستیاں بسانے کی جن نئی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور فلسطینیوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس کے بہت بھیانک نتائج ہوں گے اور اگر امت مسلمہ متحد ہوکر اپنی کوئی پالیسی اور حکمت عملی نہ بنا سکی تو القدس ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہمارے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ باقی نہیں رہے گا۔“
ہم سعودی وزیر اطلاعات کے خدشات سے پوری طرح متفق ہیں تاہم اس بات سے اتفاق نہیں کہ قبلہ اول کی آزادی و بازیابی اور فلسطینیوں کے آزاد وطن کے قیام کی جدوجہد میں امت مسلمہ متحد نہیں یا یہ کہ اسے متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ تو مذکورہ حوالے سے متحد اور سوفیصد متحد ہے مگر امت مسلمہ کی قیادت کرنے والے حکمران متحد نہیں۔ اسلامی ممالک کے پاس موجود مسلح افواج کی کل تعداد تقریباً 40/لاکھ ہے۔ ایک ملک (پاکستان) ایٹمی طاقت بھی ہے علاوہ ازیں دیگر کئی طرح کے وسائل اور ایسے مواقع موجود ہیں کہ جن کی وجہ سے عالمی برادری مسلمانوں کو نظرانداز نہیں کرسکتی مگر کیا یہ سچ نہیں کہ طاقت اور وسائل کے یہ تمام مواقع موجود رہنے کے باوجود اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا کردار توقع کے مطابق اطمینان بخش نہیں مگر کبھی عرب لیگ اور او آئی سی کا کوئی ایک اجلاس فلسطین، کشمیر، چیچنیا، عراق اور افغانستان پر سے غیر ملکی افواج کا قبضہ ختم کرانے کیلئے کوئی موثر اور قابل ذکر فیصلہ نہیں کر پایا۔ عرب لیگ اور اوآئی سی کی پیش قدمی محض قراردادوں اور مشترکہ اعلامیوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ اگر اسلامی ممالک کی ان نمائندہ تنظیموں میں کوئی دم خم ہوتا تو بیت المقدس 1967ء سے اب تک اسرائیل کے قبضے میں نہ ہوتا، فلسطین اور کشمیر 62/برس سے اسرائیل اور بھارت کے قبضے میں نہ ہوتے، چیچنیا کب کا آزاد ہوچکا ہوتا، افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے کیلئے امریکا اور نیٹو افواج کو ہزار بار سوچنا پڑتا۔ یہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں ہی کی کمزوری ہے کہ فلسطین، کشمیر، چیچنا کی آزادی تو رہی دور کی بات، ان کے ناک کے سامنے عراق اور افغانستان بھی مقبوضہ ملک بن گئے ہیں، مسجد اقصیٰ کی کھدائی اور فلسطینیوں کی پٹائی پھر سے شروع کردی گئی ہے۔ یہ تمام مناظر سامنے ہونے کے باوجود ہم امریکا کے صدر کا استقبال کرتے ہیں اس کے گلے میں سونے کے میڈل ڈالتے ہیں، وہ جامعہ الازہر اور انقرہ کی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر خطاب کرتا ہے اور کسی اسلامی ملک کے سربراہ نے یہ نہیں کہا کہ جناب جب تک آپ اپنے ان الفاظ پر امت مسلمہ سے معافی نہیں مانگ لیتے کہ جو آپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہے تھے اور وہ یہ کہ ”نائن الیون جیسا واقعہ اگر دوبارہ ہوا تو مکہ اور مدینہ پر بمباری کردینی چاہئے۔“ مزیدبرآں جب تک بیت المقدس مسلمانوں کو واپس کرنے کیلئے آپ کا واضح اور دوٹوک اعلان سامنے نہیں آتا، اس وقت تک کسی بھی اسلامی ملک کے دارالحکومت میں آپ کا استقبال کرنا ممکن نہیں۔ پاپائے روم بینی ڈیکٹ کا 2006ء میں پیغمبر اسلام کی شان اقدس میں گستاخی کرنا اور دین اسلام کو تشدد کی تعلیم دینے والا مذہب قرار دینا مگر اس کے باوجود پوپ ڈیکٹ کے مڈل ایسٹ کے دورے کے دوران اردن میں اس کا شاندار استقبال ہونا۔ 2006ء میں ہی ڈنمارک کے اخبارات میں خاتم النبین سید المرسلین کے بارے میں گستاخانہ خاکوں کو شائع کیا جانا اور عالم اسلام کے احتجاج پر مغربی حکومتوں کا اس ناقابل برداشت اور انتہائی گھٹیا جرم کو آزادی صحافت قرار دے دینا جبکہ یہود و نصاریٰ کی طرف سے مسلمانوں کے دل و دماغ کو چیر دینے والے اس حملے کے ردعمل میں حسب معمول عرب لیگ اور اوآئی سی کا محض قراردادوں تک ہی محدود رہنا، اسرائیل کے ساتھ بعض اسلامی ممالک کے سفارتی تعلقات کا قائم رہنا، تمام اسلامی ممالک سمیت خاص طور پر عرب ممالک کا بھارت کے ساتھ بھرپور تجارتی تعلقات کا موجود ہونا، افغانستان اور عراق سے نیٹو افواج کے انخلاء کا کوئی مطالبہ نہ کرنا، چیچن مسلمانوں کی آزادی کیلئے کوئی قرارداد پاس نہ کرنا، بھارت اور اسرائیل کی قید میں موجود کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کی رہائی کیلئے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھانا، پانچ برس سے امریکا کی قید میں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے او آئی سی اور عرب لیگ کا دو بول تک نہ بولنا…؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ جس بھی اسلامی ملک پر طاغوتی اور سامراجی قوتیں حملہ آور ہوئیں، اسے عرب لیگ اور او آئی سی نے تنہا چھوڑ دیا۔ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ وہ تمام تنازعات کہ جن کا تعلق اسلامی دنیا سے ہے، ان کے حل کیلئے عرب لیگ اور او آئی سی نے کبھی کوئی ایسے موثر اور کامیاب سفارتی چینل استعمال نہیں کئے کہ جس کے بعد امریکا، برطانیہ، روس، نیٹو، اسرائیل اور بھارت کی ”قبضہ پالیسی“ کو کوئی دھچکا لگتا۔
یاد رہے کہ بیت المقدس کی بازیابی اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت سیاہی سے لکھی جانے والی قراردادوں کے ذریعے نہیں، خون سے لکھی جانے والی قراردادوں کے ذریعے ممکن ہوگی۔ بیت المقدس معذرت خواہانہ رویئے اور رونے دھونے سے آزاد نہیں ہوگا، اس کیلئے ناقابل یقین قربانیوں اور جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔