بلاول ہاؤس کے ترجمان کا ایک بیان گزشتہ دنوں اخبار میں نظر سے گزرا جس میں کہا گیا تھا کہ ”ملک دشمن عناصر صدر زرداری کو ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگانے کی سزا دینا چاہتے ہیں۔“ ہم اس بات سے واقف ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نوڈیرو کے سوگوار اور جذباتی ماحول میں کارکنوں کے جذبات کو قابو رکھنے کیلئے جناب زرداری نے ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگایا تھا جو یقیناً ان کے حوصلے، معاملہ فہمی اور حب الوطنی کا بہترین اور بر وقت اظہار تھا، لیکن اس سے یہ تاثر لینا درست نہیں کہ صدر زرداری کو یہی نعرہ لگانے کی سزا دی جا رہی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ پاکستان کھپے (پاکستان چاہئے) کا نعرہ لگا کر جناب زرداری نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ پیپلز پارٹی ایک محب وطن جماعت ہے اور دوسری محب وطن جماعتوں کی طرح اسے بھی پاکستان چاہئے لیکن اس سے یہ تاثر لینا درست نہیں کہ زرداری صاحب نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک کو ٹوٹنے سے بچا لیا۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ پاکستان کون توڑ رہا تھا…؟ سیدھی بات ہے کہ جس وقت اور جس جگہ یہ نعرہ لگایا گیا تھا اس وقت تمام لوگ وہاں پی پی پی سے تعلق رکھنے والے ہی تھے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ محترمہ کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے اندر پاکستان سے گریز یا بیزار ہونے کی سوچ پیدا ہوئی ہے تو پھر یہاں بھی سوال پیدا ہوگا کہ محترمہ کا امکانی قاتل کون تھا۔ حالات اور واقعات کی کڑیاں کس کا پتہ بتارہی تھیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد محترمہ کے قتل کا ذمہ دار جنرل مشرف کو قرار دیتی تھی اور دیتی ہے مگر مشرف کو فرار کا محفوظ راستہ کس نے دیا؟ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ محترمہ کے قتل کی ایف آئی آر پاکستان میں درج ہونا چاہئے تھی۔ ہماری پولیس کیس کی تفتیش کرتی اور ہماری ہی عدالتوں میں مقدمہ چلتا تو قاتل ضرور کیفر کردار تک پہنچتے مگر محترمہ کے قتل کے مقدمے کی فائل بھی پاکستان سے نکال کر یو این او کی میز پر ڈال دی گئی۔ کیا اس سے کسی خاص انکشاف کی توقع ہے یا یہ کہ امریکا اس کمیشن کے ذریعے ان خاص لوگوں کو قاتل قرار دلوانا چاہتا ہے کہ جو امریکا کو اپنے حوالے سے مطلوب ہیں حالانکہ ہمیں تو محترمہ کے قاتل مطلوب ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جناب زرداری کو ”پاکستان کھپے“ کی سزا نہیں دی جا رہی بلکہ یہ ان کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ جو اب سامنے آ رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جس طرح سے آج پیپلز پارٹی سے اپنا دامن چھڑانا چاہتی ہے اس کی وجہ جناب زرداری کی وہ مسلسل وعدہ خلافیاں تھیں جو وہ میاں نواز شریف کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ محترمہ شہید کی خواہش اور اعلان کے مطابق چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال نہ کیا گیا بلکہ عوام کے زبردست دباؤ اور لانگ مارچ کے بعد انتہائی مجبوری میں عدلیہ بحالی کا فیصلہ سنایا گیا جس سے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کوئی کریڈٹ نہیں ملا۔ سوات، وزیرستان اور بلوچستان میں ملٹری آپریشنز کو زیادہ شدت کے ساتھ جاری رکھنا بھی پی پی حکومت کے فائدے میں نہیں گیا بلکہ اس کے خلاف ردعمل اور بیزاری میں اضافہ ہوا، لاپتہ افراد اور ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں کوئی ٹھوس اور اطمینان بخش اقدامات نہ اٹھانا، قومی اسمبلی کی اس متفقہ قرارداد پر عملدرآمد نہ کرنا کہ جس میں ڈرون حملوں کو روکنے کیلئے فوری کارروائی کرنے اور آزاد خارجہ پالیسی اپنانے کی سفارش کی گئی تھی۔ پاکستان کے بڑے شہروں اور بالخصوص دارالحکومت اسلام آباد میں بلیک واٹر، ایف بی آئی اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کی غیر قانونی اور مشکوک سرگرمیوں پر معنی خیز خاموشی اختیار کیے رکھنا، پاکستان کے داخلی امن اور سرحدوں پر موجود خطرات کے حوالے سے قومی اسمبلی، قومی رہنماؤں، حزب اختلاف اور مذہبی قیادت کے ساتھ مشاورت کرنے کے بجائے امریکی سفیر اور سفارتکاروں کے ساتھ مذاکرات میں فیصلے کرنا، توہین رسالت کے قانون کو تبدیل کرنے اور دینی مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن جیسے فیصلے کرنے کے ارادے ظاہر کر کے امریکا اور دیگر اسلام دشمن قوتوں کو خوش کرنا، بھارت کی آبی جارحیت اور پاکستان کے اندر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت ہونے کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی موٴثر احتجاج یا ردعمل نہ دکھانا بلکہ بھارت کو مذاکرات کی بار بار پیشکش کر کے اس کے جارحانہ عزائم کو تقویت پہنچانا، مسئلہ کشمیر جو پاک بھارت کشیدگی کا بنیادی سبب ہے اور کشمیر جو ہماری شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اس حوالے سے بھی کوئی پیشرفت نہ کرنا، آئی ایس آئی کو بدنام کرنے والے امریکی پروپیگنڈے پر خاموشی اختیار کیے رکھنا، ناکام خارجہ پالیسی سمیت ناکام معاشی و اقتصادی پالیسی کے ساتھ ساتھ ناکام داخلہ پالیسی میں کسی مثبت تبدیلی کیلئے کوئی قابل ذکر کوشش نہ کرنا، مزید برآں عوام کی مشکلات اور دیگر مسائل کو حل کرنے کیلئے کسی بہتر منصوبہ بندی کا مظاہرہ نہ کرنا بلکہ مسلسل نا اہلی اور ناکامی کا مظاہرہ کیے جاتے رہنا، آٹے سے لے کر چینی اور لوڈ شیڈنگ سے لے کر تیل اور گیس کی قیمتوں تک کے بحران، پھیلتی ہوئی بیروزگاری اور سکڑتے ہوئے وسائل، قومی اثاثوں کی فروخت اور قومی سرمائے کا ضیاع، بلیک منی، کرپشن اور دولت حاصل کرنے کے ناجائز ہتھکنڈے، این آر او جیسے بدنام زمانہ قانون کی مدد سے کرپشن الزامات اور مقدمات سے بچ نکلنے کی مذموم کوشش کرنا جیسے واقعات اور معاملات نے نہ صرف جناب زرداری کی صدارت کو خطرے میں ڈال دیا ہے بلکہ وزیراعظم جناب سید یوسف رضا گیلانی اور ان کا پورا حکومتی اتحاد ہی ناکام نظر آتا ہے۔ جمہوریت کیلئے باکردار حکمرانوں کی ضرورت ہوتی ہے، اگر یہ میسر نہ ہو تو ”جمہوریت“ اتنی کمزور اور بے بس نہیں کہ وہ اپنے کندھوں پر نا اہل اور کرپٹ حکمرانوں کا بوجھ اٹھائے پھرے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ملک میں کوئی مارشل لاء لگ رہا ہے اور نہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت میں اب کوئی ایسی خوبی یا صلاحیت باقی رہ گئی ہے کہ جس سے یہ امید کی جا سکے کہ آگے چل کر وہ ان تمام بحرانوں پر قابو پا لے گی کہ جنہوں نے اس وقت ملک اور قوم کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔