• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر خارجہ کی خدمت میں ,,,,ملک الطاف حسین

میں دل سے آپ کا احترام کرتا ہوں اور پاکستان کے حالیہ دورے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ دنیا کے واحد سپر پاور کی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد کوئی معمولی بات نہیں تھی آج کے دور میں کامیابی اور خوشحالی آپ کی دوستی کے ساتھ مشروط تصور کی جاتی ہے جو آپ کو ناراض کرے گا وہ یقینا ایک برے وقت کا سامنا کرے گا۔
آپ جانتی تھیں کہ جب آپ پاکستان تشریف لا رہی تھیں تو اس وقت پاکستان کی داخلی صورتحال اور پاک امریکہ تعلقات میں کس قدر تناؤ تھا خاص طور پر کیری لوگر بل نے جلتی پر تیل کا کام کردیا تھا پاکستان کے عوام جو پہلے ہی امریکہ پر ناراض تھے، اس بل کو دیکھتے ہی مزید سیخ پا ہوگئے تاہم اس بل کی وجہ سے ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ پوری قوم متحد ہوگئی البتہ حکمرانوں میں اختلاف پڑ گئے ڈالرز پر جھگڑا ہوگیا یہ بات آپ کو بھی معلوم ہے تب ہی تو آپ نے فرمایا کہ ”حکومتی اور فوجی سطح پر پاک امریکہ بداعتمادی مل کر ختم کریں گے“ مگر محترمہ وزیر خارجہ مجھے آپ کا یہ جملہ سمجھ میں نہیں آیا لال مسجد سے لے کر سوات، وزیرستان سے لے کر افغانستان تک سیکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں انسان قتل کرنے میں تو کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ بڑھ چڑھ کر تعاون کیا گیا جو اب بھی جاری ہے مگر ڈالرز کون کتنے لے اور کس کس کو دیئے جائیں، پر اختلاف اور بداعتمادی پیدا ہوجانا کوئی اچھی بات نہیں ویسے بھی یہ تو آپ جانتی ہی تھیں کہ دولت جھگڑے اور فساد کی جڑ ہوا کرتی ہے خاص طور پر امریکی امداد تو دنیا میں اس قدر بدنام ہوچکی ہے کہ جو ملک بھی یہ امداد قبول کرتا ہے وہ اپنے عوام کی نظروں میں رسوا ہوجاتا ہے جبکہ خود امریکہ جو یہ امداد دیتا ہے وہ بھی لاکھوں، کروڑوں ڈالر دینے کے باوجود عزت اور اعتماد حاصل نہیں کر پاتا ایسا کیوں ہے محترمہ وزیر خارجہ…؟ اس پر اگر آپ کے تھنک ٹینک ذرا غور کرلیں تو بہتر ہوگا میرے اندازے کے مطابق ایسا شاید اس لئے ہے کہ آپ امداد ایک دوست کی حیثیت سے نہیں بلکہ آقا بن کر دینے کی کوشش کرتے ہیں امداد جن شرائط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے وہ اس قدر توہین آمیز ہوتی تھیں کہ کوئی بھی آزاد، عزت دار اور خوددار قوم آپ کی امداد قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ کیری لوگر بل کے حوالے سے پاکستانی عوام کو جو شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے جس پر کوئی بھی آزاد اور خوددار قوم سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔
ہم پاک امریکہ تعلقات کے ان پہلوؤں پر بات کرنا چاہیں گے کہ جن کا آپ کے حالیہ دورہٴ پاکستان سے کوئی تعلق بنتا ہے، آپ نے حضرت امام بری کے مزار پر حاضری دی وہاں آپ اور آپ کی سفیر این پیٹرسن نے جس طرح سے سرتاپا خود کو چادروں سے ڈھانپ رکھا تھا، آپ کا یہ روپ بہت اچھا لگا۔ اہل مغرب کو اس تصویر سے سبق حاصل کرنا چاہئے وہ وہاں مسلمان خواتین کو ایک میٹر کا حجاب پہننے کی اجازت نہیں دیتے لیکن ہمارے ہاں ان کی سابقہ خاتون اول اور موجودہ وزیر خارجہ پانچ میٹر کی چادریں اوڑھے کھڑی تھیں۔ بات یہ نہیں کہ ہمارے پاس کپڑا زیادہ ہے بات یہ ہے کہ ہمارے پاس عورت کیلئے عزت زیادہ ہے ہم حجاب کے ذریعے عورت کے سر کو ڈھانپ دینا چاہتے ہیں۔ اسلام دشمن کی عورت کیلئے بھی احترام کا درس دیتا ہے جیسا کہ افغانستان میں طالبان دور حکومت میں گرفتار ہونے والی انگریز صحافی خاتون کے ساتھ حسن سلوک کیا گیا اور جو آزاد ہونے کے بعد اسی سلوک کو یاد کرکے مسلمان ہوگئی مگر مغربی تہذیب میں عورت کا مقام اور مغربی حکومتوں میں عورت کے حقوق کے بلند بانگ دعوؤں کی اس وقت قلعی کھل جاتی ہے جب ہم ایک عورت صرف ایک عورت ڈاکٹر عافیہ کے کیس کا جائزہ لیتے ہیں۔ 2004ء سے جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار اس عورت کے ساتھ دوران قید کیا کچھ نہیں کیا گیا، وہ اس قدر شرمناک ہے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا مگر آپ ضرور جانتی تھیں کہ افغانستان اور عراق کے اندر امریکی فوجیوں اور سی آئی اے کے ایجنٹوں نے عورتوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا میں آپ کو یہاں ایک خبر بھی سناتا چلوں کہ جو آپ کے پاکستان سے روانگی کے دوسرے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی طرف سے جاری ہوئی جس میں کہا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ میں دوران قید قرآن پاک پر چلانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ آخری الہامی کتاب قرآن پاک کی بے حرمتی اور خاتم النبیین سید المرسلین جناب محمدﷺ کی شان اقدس میں گستاخی جیسے افسوسناک واقعات امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں ایک معمول بنتے جارہے ہیں تو کیا محترم وزیر خارجہ ان تکلیف دہ واقعات کو دیکھنے اور سننے کے بعد مغربی اقوام کو مہذب اور تعلیم یافتہ کہا جاسکتا ہے یا یہ کہ ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس، ویٹکن اور لندن کی جانب سے مذہبی آزادیوں کے احترام کے دعوے تسلیم کئے جاسکتے ہیں؟
محترم وزیر خارجہ آپ نے دورہٴ پاکستان کے دوران ایک بہت اہم بات یہ بھی کہی ہے کہ ”میں کیسے مان لوں کہ پاکستانی حکومت میں کسی کو القاعدہ رہنماؤں کے ٹھکانوں کا علم نہیں“ ڈیئر وزیر خارجہ! آپ نے یہ بہت بڑا الزام لگایا ہے جبکہ دنیا بھر کا قانون یہ کہتا ہے کہ الزام لگانے والے کو ہی الزام ثابت کرنا ہوتا ہے تو سوال یہ ہے کہ 2001ء میں افغانستان پر پہلا بم گرانے کے وقت سے لے کر آج 2009ء تک ہم مکمل طور پر آپ کے ساتھ چل رہے ہیں آپ کو مکمل انٹیلی جنس معلومات دی جارہی ہیں ہماری ایجنسیوں کے علاوہ آپ کی اپنی ایجنسیاں بھی پاکستان کے اندر بلاروک ٹوک کام کر رہی ہیں پاکستان اور افغانستان میں آپ نے ڈالروں کے زور پر ایک علیحدہ سے جاسوسی کا نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے علاوہ ازیں جدید ترین ٹیکنالوجی اور دیگر دستیاب معلومات سے بھی آپ کام لے رہی ہیں تو کیا اس قدر وسیع ذرائع معلومات حاصل ہونے کے بعد بھی آپ پاکستان پر الزام لگا رہی ہیں بلکہ اب تو آپ کو خود نشاندہی کرنی چاہئے کہ یہ ہے القاعدہ اور وہ ہیں طالبان…؟ مگر اس قدر بھرپور وسائل اور معلومات رکھنے کے باوجود آپ القاعدہ کے ٹھکانوں اور طالبان کی قیادت کو پاکستان میں ثابت کرنے میں ناکام رہے اور کیوں نہ ناکام ہوں جھوٹ تو بہرحال جھوٹ ہے پروپیگنڈہ حقائق کو بدل نہیں سکتا عراق پر حملہ کرتے وقت صدر بش اور ان کے ساتھیوں نے بڑے زورشور سے کہا تھا کہ عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں آخر تک یہ ہتھیار برآمد نہ ہوسکے البتہ خود امریکی ہتھیاروں سے اس قدر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی گئی کہ 2003ء سے آج 2009ء تک امریکی فوج نے عراق میں 16لاکھ مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا یہاں تک کہ صدر صدام حسین اور ان کے کئی ساتھی وزراء کو بھی پھانسی دے دی گئی اسی طرح سے 2001ء میں افغانستان پر بھی حملہ ایک من گھڑت الزام کے تحت کیا گیا کہ جنہیں آج 8برس بعد بھی ثابت نہ کیا جاسکا۔ 9/11 کے واقعے میں القاعدہ یا طالبان کیونکر اور کیسے ملوث تھے، اس الزام کو کونسی عدالت یا کسی غیر جانبدار اور آزاد کمیشن میں ثابت کیا جاسکا…؟ امریکہ کی قیادت، نیٹو کی طاقت، اقوام متحدہ کی حمایت اور مغربی میڈیا کی خیانت سے افغانستان پر کئے جانے والے حملے کے تمام جواز نہ صرف جھوٹ پر مبنی ہیں بلکہ ان میں بدنیتی بھی شامل ہے اور وہ یہ کہ افغانستان کے بعد اگلا ہدف پاکستان کو بنایا جائے گا مذکورہ الزام کہ پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کی قیادت روپوش ہے یا یہ کہ ان کے ٹھکانے ہیں اور حکومت کے اندر کچھ لوگ یہ بات جانتے ہیں، درحقیقت وہ مفروضہ ہے کہ جس پر امریکہ کی جارحانہ پالیسی کا دارومدار ہے۔ یہی وہ حربہ ہے کہ جس کو باربار استعمال کرکے پاکستان کو دباؤ میں رکھا جارہا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس الزام کی تکرار میں پوشیدہ بدنیتی اور ناپاک عزائم کو اب ہر پاکستانی جان چکا ہے لہٰذا اگر آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ میں کیسے مان لوں کہ پاکستانی حکومت میں کسی کو القاعدہ رہنماؤں اور ٹھکانوں کے بارے میں معلوم نہیں تو پھر ہمارا جواب یہ ہے کہ ”ہم کیسے مان لیں کہ آپ جو کچھ کہہ رہی تھیں، وہ سچ ہے“ جبکہ وائٹ ہاؤس، افغانستان، عراق اور پاکستان کے حوالے سے سیکڑوں مرتبہ جھوٹ بول چکا ہے۔
ہلیری صاحبہ! آپ نے پاکستان سے واپسی پر برطانوی ریڈیو اور ایک امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے دو باتیں بہت اہم کی ہیں آپ نے کہا کہ پاک فوج پرعزم ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کو انجام تک پہنچائے گی۔(جاری ہے)
تازہ ترین