• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر خارجہ کی خدمت میں,,,,ملک الطاف حسین,,,, (گزشتہ سے پیوستہ)

دوسری بات آپ نے فرمائی کہ اگر کیری لوگر بل پر پاکستانی عوام اپنے جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں تو امریکہ کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ پاکستان میں موجود القاعدہ اور طالبان کے حامیوں اور ہمدردوں کے بارے میں اپنی تشویش کا ببانگ دہل اظہار کرے“۔ بلاشبہ پاک فوج دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جنگ کرنے میں پرعزم ہے مگر اس کے ساتھ ہی پاک فوج سرحدوں کی حفاظت کیلئے بھی چوکس ہے تاہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پاکستانی فوج ہی انجام تک کیوں پہنچائے اس جنگ کو انجام تک پہنچانا تو امریکی کمانڈ میں نیٹو افواج کی ذمہ داری ہے کہ جنہوں نے بغیر سوچے سمجھے یہ جنگ شروع کی تھی ہاں اگر آپ جنگ ہار رہے ہیں تو بہتر ہوگا کہ اپنی ہار کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان سے انخلاء کرجائیں آپ کی شکست کو پاکستان فتح میں تبدیل نہیں کرسکتا آپ کی جنگ پاکستانی فوج نہیں لڑے گی یہ پاکستان کے عوام کا فیصلہ ہے اب تک پاکستانی فوج کو جس طرح کے ملٹری آپریشنز میں الجھا دیا گیا ہے، یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں اس پر عوام کا شدید ردعمل ہے۔ امکان ہے کہ بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے پیش نظر سرحد اور بلوچستان میں جاری ”ملٹری آپریشنز“ کو وائنڈاپ کردیا جائے گا اس سلسلے میں ہم اپنی فوج کی پوری پوری مدد اور رہنمائی کررہے ہیں تاکہ وہ اپنی پالیسی اور فیصلوں پر قوم کے وسیع تر مفاد میں نظرثانی کرسکے ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی جو تازہ لہر آئی ہوئی ہے، اس کو روکنے کیلئے پاک فوج اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
حقیقت تو یہ ہے محترم وزیر خارجہ کہ انسداد دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں پاکستان کو گھسیٹ کر جو دھوکا دیا گیا اور جس طرح کے خطرات اور مسائل میں پاکستان کو الجھا دیا گیا ہے، اس کی براہ راست ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے پاکستان نے امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر جو نقصان اٹھایا ہے اور مزید نہ جانے کب تک اٹھاتا رہے گا، اس کے ازالے کیلئے پانچ سال میں ساڑھے سات ارب ڈالر کی امداد کوئی معنی نہیں رکھتی پاکستان کا قومی اتحاد، جغرافیائی سلامتی اور داخلی امن داؤ پر لگا ہوا ہے امریکہ ان نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے پاکستان کی کیا مدد کر پائے گا جبکہ امریکہ ہی کی دوستی اور مدد کی وجہ سے یہ نقصانات ہوئے…؟ وزیر خارجہ! پلیز ایک طرف تو آپ پاکستانی فوج کو وزیرستان میں مزید سخت اور جنوبی پنجاب میں مزید آگے تک آپریشن کرنے پر اکسا رہی ہیں اور دوسری طرف آپ کی حالت یہ ہے کہ وزیرستان آپریشن شروع ہونے کے ساتھ ہی وزیرستان اور افغانستان کے درمیان امریکی فوج کی موجود 8چوکیوں کو خالی کردیا گیا جس کا مطلب کیا ہوا، کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی حدود میں کوئی ملٹری آپریشن کامیاب نہ ہو جائے تاکہ جنگ جاری رہے اور امریکہ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے اور جواز بناتے ہوئے پاکستانی حکام سے ”ڈومور“ کا مطالبہ جاری رکھے۔
میں آخری بات جو آپ سے گزارش کرنا چاہوں گا، وہ یہ کہ آپ کے پاکستان آمد پر ہمیں یہ امید تھی کہ موجودہ حالات اور خطے کی صورتحال کا درست تجزیہ کرتے ہوئے آپ پاکستانی قیادت کے ساتھ مشورے کے بعد کوئی ایسی حکمت عملی ترتیب دیں گی کہ جس کے نتیجے میں نہ صرف امن قائم ہوجائے گا بلکہ امریکہ اور نیٹو افواج کو بھی وطن واپسی کا باعزت راستہ مل جائے گا مگر آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا پاکستان کیلئے مزید کھڈے کھودے اور اپنی کرسی بھی انہی کھڈوں کے بیچ میں رکھ دی لہٰذا میں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا دورہٴ پاکستان کسی بھی حوالے سے کامیاب نہیں رہا البتہ صدر زرداری کے اقتدار اور سیاسی مستقبل کے حوالے سے آپ نے جن قوتوں کے ساتھ جو ”خفیہ ڈیل“ کی ہے وہ اپنی جگہ ضرور اہم ہے تاہم اس میں بھی ہمارے لئے کوئی تشویش یا اچانک بات نہیں کیونکہ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ امریکہ اپنے مفاد کا دوست ہے وہ کسی کا دوست نہیں یہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی غلطی ہے کہ وہ امریکہ کو اپنا دوست سمجھتے اور اس پر تکیہ کرتے ہیں امریکی دوستی کا نتیجہ جنرل مشرف دیکھ چکے ہیں اور اب جناب زرداری اور جناب نواز شریف اپنے اپنے وقت پر دیکھ لیں گے۔بہرحال ایسا لگتا ہے کہ سپر پاور ہونے کا دعویدار امریکہ اب اس قابل نہیں رہا کہ وہ عالمی امن کیلئے کوئی بڑی خدمت انجام دے سکے امریکہ کی ڈیموکریٹک قیادت کے پاس ”تنازعات“ کے حل کیلئے بس جنگ ہی واحد آپشن رہ گیا ہے، مذاکرات کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے اور جنگوں کو روکنے کے آپشن کو غالباً یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے تاہم تاریخ بتاتی ہے کہ جس قوم نے بھی طاقت اور جنگ ہی کو کامیابی کی ضمانت سمجھا بالآخر وہ خود بھی طاقت اور جنگ ہی کی نظر ہوگئی۔ مادی ترقی، ترقی نہیں جب تک کہ اخلاقی پستی دور نہ ہو فوجی طاقت کوئی طاقت نہیں جب تک کہ وہ بے گناہ اور مظلوم لوگوں کو تحفظ نہ دے، شرافت کا دعویٰ کوئی دعویٰ نہیں کہ جب تک انسانیت کے احترام کو یقینی نہ بنایا جائے۔ قانون پر عملداری کے دعوے بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے جب تک کہ انصاف پر مبنی فیصلے نہ کئے جائیں۔ عالمی برادری کوئی برادری نہیں کہ جب تک وہ مظلوم و محکوم اقوام کے مقابلے میں ظالم قوتوں کے ساتھ کھڑی رہے گی۔ کوئی سپر پاور نہیں سوائے اللہ کے ۔
تازہ ترین