اسلام آباد(تجزیہ:مظہرعباس)اس ملک میں ہونے والی سازشوں کے بارے میں خود وزیراعظم نواز شریف سے بہتر کون جان سکتاہے جواپنے 35سالہ سیاسی دور میں تین بار وزیراعظم رہے اور دو بار وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔لیکن موجودہ سیاسی بحران پاناما لیکس کے نتیجے میں پیدا ہواہے اور اس کی وجہ سےناصرف وزیراعظم بلکہ اُن کے خاندان کا سیاسی کیرئیربھی خطرے میں ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج صرف اس بحران سے نکلنا نہیں بلکہ اپنے گھر کو بچانا بھی ہے جو اس وقت خطرے میں ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان کے قابل اعتماد ساتھی اوروفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثاراس وقت ناراض ہیں۔مسلم لیگ ن بھی کافی عرصے سےبدنظمی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ یہ بدنظمی اس سےبھی ظاہر ہوتی ہے کہ کابینہ کے اراکین اوروزیراعظم کے قریبی مشیرمفاہمت نہیں چاہتے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری نثار اس لیے ناخوش ہیں کہ وزیراعظم نے صورتحال سے نمٹنے کیلئےغلط طریقے اپنائے خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ۔اور اب پارٹی کے کچھ جارح مزاج مشیر انھیں ڈٹ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں جو ان کے لیے سیاسی طور پر خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔پارٹی کو متحد رکھنے کیلئےگزشتہ چند دنوں میں وزیراعظم نے قریبی ساتھیوں کے ساتھ کئی میٹنگز کیں جن میں وفاقی وزراء اور اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوئے۔ اگرسپریم کورٹ میں وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ آیا توصورتحا ل مزید بگڑ سکتی ہے۔وزیراعظم نے چوہدری نثار کو منانے اوراُن کے تحفظات دورکرنےکا کام شہباز شریف کو سونپاہے۔ جو وزیراعظم سے اس لیے ناراض ہیں کہ انھوں نے ڈان لیکس سے پانامالیکس تک کی صورتحال کو صحیح طرح نہیں سنبھالااوران کے مشوروں کونظرانداز کیا۔ وزیراعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ چار سال کےدوران پاکستان مسلم لیگ ن کےاعلیٰ رہنماوں میں پائی جانےوالی کشیدگی کم کرنےکےلیےنہ انھوں نے اور نہ شہباز شریف نے کچھ کیا۔ جبکہ چوہدری نثار کے مخالفین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نےکراچی آپریشن کے دوران آصف علی زرداری کے ساتھیوں کو ٹارگٹ کرکےپیپلز پارٹی کے ساتھ دوستانہ تعلقات خراب کیے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری نثار علی خان کراچی آپریشن کودوسیاسی جماعتوں کے خلاف بنانے پر اپنی پوزیشن کا دفاع کرتے ہیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے تعلقات ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد سے خراب ہوگئے تھےاور آصف علی زرداری کئی بار اِن ایکشنز کا ذمہ دار چوہدری نثار کوٹھہراچکے ہیں ۔ اگر چوہدری نثارکے بارے میں رپورٹس درست ہیں تو یہ بات نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری نثار پاناما کے بحران سے پہلے اور بعدکی بگڑتی صورتحال کا ذمہ دار وزیراعظم کے مشیروں کو سمجھتےہیں۔چوہدری نثار کےتبصرے پروزیراعظم کو شرمندگی محسوس ہوئی اور انھوں نے کہاکہ وہ علیحدہ ملاقات میں بھی اُن سے بات کرسکتے تھے۔ ان کا شمار شریف برادران کے قریبی ساتھیوں میں ہوتاہے، وہ جانتے ہیں کہ گزشتہ چار سال کے دوارن جنرل ریٹارئرڈ پرویز مشرف سے ٹرائل سمیت دیگر بحرانوں سے مسلم لیگ ن نے کس طرح مقابلہ کیا۔ ناقابل ِ تردید ذرائع کے مطابق موجودہ بحران میں وزیرداخلہ وزیراعظم کوان چند لوگوں سے محتاط رہنے کےلیےخبردار کرچکے ہیں جو انھیں مشکل میں پھنسا رہے ہیں ۔ چوہدری نثار نے وزیراعظم کی ایمانداری کے بارے میں کبھی شک نہیں کیالیکن وہ وزیراعظم کے کچھ ساتھیوں سے خوش نہیں ہیںاور وہ وزیراعظم کو بھی خبردار کرچکےہیں۔ فوج کے ساتھ تعلقات کے معاملات پر چوہدری نثار اور وزیراعلیٰ شہباز شریف ہمیشہ وزیراعظم کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جب آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف پر مقدمہ درج کرنے کا معاملہ زیر بحث تھا تب بھی انھوں نے یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی تھی کہ فیصلہ کرنے میں جلد بازی ہورہی ہے۔ 2014 میںطاہر القادری اور عمران خان کی زیر قیادت لانگ مارچ اور 126 دن جاری رہنے والے دھرنے کے دوران بھی چوہدری نثار نےاہم کردار اداکیاتھا۔ ذرائع کے مطابق انھوں نے وزیراعظم اس بات پر قائل کیاتھاکہ دھرنے کو جاری رہنے دیا جائے اور طاقت کااستعمال غیر آئینی ہوگا۔ انھوں نےاپنے پرانے کالج دور کے ساتھی عمران خان کو بھی مشورہ دیا کہ تصادم سے گریز کیاجائے۔چونکہ وہ ان اطلاعات سے بھی آگاہ تھے کہ کچھ لوگ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں اور عمران خان اور طاہر القادری کو اکسا رہے ہیں ، تاہم وزیراعظم اور سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی ملاقات کے بعد صورتحال ٹھیک ہوئی۔ سابق آرمی چیف نے عمران خان اور طاہر القادری کو بتایا کہ فوج جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات پرعملدرآمد یقینی بنائےگی، لیکن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ سےپہلے وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے کی حمایت نہیں کرگی۔ وزیراعظم نوازشریف کوایک بار پھر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی جامع رپورٹ کےبعد دباو کاسامناہے۔اس پر وزیراعظم اور مسلم لیگ ن نے سال اٹھائے ہیں اور سوموار کو اِسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیاجائےگا۔2014اور2017 کے درمیان فرق صرف پارلیمنٹ اور اپوزیشن کے کردار کا ہے ۔ 2014کے دوران ساری اپوزیشن سوائے تحریک انصاف اور عمران خان کے، وزیراعظم کے پیچھے کھڑی تھی اوروزیراعظم کے استعفیٰ کے خلاف تھی ۔ 2014 میں پیپلز پارٹی اوردیگر جماعتوں کا موقف تھاکہ انھوں نے نواز شریف کو نہیں بلکہ نظام کو بچایاہے۔ آج صورتحال بالکل مختلف ہے ۔ اپوزیشن یک آوازہوکروزیراعظم سےاستعفیٰ طلب کررہی ہے ۔اپوزیشن کے درمیان اب فرق صرف ٹائمنگ کا ہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی اور قومی وطن پارٹی جوابھی کہتی ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں گی ،وہ بھی پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف کے ساتھ مل سکتی ہیںاگر سپریم کورٹ وزیراعظم کو نااہل قراردیتی ہے۔ سابق صدرآصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے اعلیٰ رہنماوں کایقین ہےکہ یہ چوہدری نثارہی تھے جن کی وجہ سے پیپلز پارٹی اورن لیگ کے تعلقات خراب ہوئے۔ یہ سب غلط بھی نہیں ہے کیونکہ کراچی میں آرمی آپریشن کے بعد چوہدری نثارنے پیپلز پارٹی کے رہنماوں کے خلاف زیرالتواکیسسز کودوبارہ کھولنے کافیصلہ کیا۔ یہ بات نواز شریف اور زرداری میں دوری کا باعث بنی۔ چوہدری نثار ڈان لیکس پر بھی خوش نہیں تھےلہذاانھوں نے مکمل انکوائری کی حمایت کی ۔ انھوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ بھی تعلقات خراب کی اورڈان لیکس پر ان کی پریس کانفرنس پر سوال اٹھادیے۔ وہ اس مسئلے پراپنی پارٹی کے چند ساتھیوں کے ساتھ بھی ناخوش تھے، اس کے باعث سول ملٹری تعلقات بے حد خراب ہوئے۔ دو ماہ قبل جب وزیراعظم نےخود چند قریبی ساتھیوں سے استعفیٰ سے متعلق رائے طلب کی تھی تو وہ اس کے خلاف تھے ، ان کاجواب تھاکہـ’’نہیں ، ابھی نہیں۔‘‘چوہدری نثار پیدائشی مسلم لیگی ہیںاور یہ بات خلاف توقع ہےکہ وہ مسلم لیگ ن چھوڑدیں گےیا نواز شریف سے دوری اختیار کریں گے، لیکن یقیناوہ تاریخ میں جگہ ضروربنالیں گے۔