ملک اس وقت جن اندرونی، بیرونی خطرات سے دوچار ہے دہشت گردی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہر طرف ایسی خبریں اور افواہیں ہیں کہ عوام شدید اضطراب سے دوچارہیں۔ ایسی فضا میں بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کی پیپلزپارٹی میں واپسی بلاشبہ ایک اچھی خبرہے۔ پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیربدر کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ جناب اعتزاز احسن پیپلزپارٹی کا قیمتی سرمایہ تھے اور اب بھی ایسا ہی ہے۔کاش انہیں اس کا ادراک پہلے ہی ہو جاتا اور ”آمد ورفت“ کے اس تکلیف دہ سفر سے اعتزاز صاحب بھی بچ جاتے اور واپسی کے لئے انہیں منانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس وقت بہت سے ایسے تھے جو اس کے خلاف تھے۔
گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کو چودھری صاحب کی عاملہ کی رکنیت بحال کرنے کا اختیار دیا گیااور یہی خبریں آ رہی تھیں کہ کسی لمحے ان کی عاملہ کی رکنیت بحال ہو جائے گی۔ لیکن ”چند نادان دوستوں“ کے بیانات سے اس ”اچھی خبر“ میں تاخیر ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ جمعرات کی رات جناب زرداری نے سنیٹر اسلام الدین شیخ کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ چودھری اعتزاز احسن کو راضی کریں کہ ان کے ان سے ”اچھے تعلقات“ ہیں۔ اسلام الدین شیخ پرانے سیاسی کارکن ہیں۔ جونیجو دور میں وفاقی وزیر تھے جبکہ جناب آصف علی زداری کے جیل کے ساتھی بھی اور ان کے قریبی معتمد سمجھے جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ایسے مخلص ساتھی ہیں جو منہ پر”سچی بات“ کہنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اسلام الدین شیخ بھی پارٹی کے ان سرکردہ افراد میں شامل تھے جو چودھری اعتزاز احسن کی واپسی کے ”بڑے وکیل“ تھے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی اس بارے میں پارٹی حلقوں میں بات کی تھی اور کچھ عرصہ قبل جناب اعتزاز احسن کی صدرزرداری اور وزیراعظم گیلانی سے ملاقات ہوئی تو اس سے ”بڑی خبریں“ بھی آتی رہیں۔ دبے الفاظ میں جناب اعتزاز احسن نے بھی اعتراف کیا تھاکہ انہیں ”کچھ پیشکش“ ہوئی ہے۔
اعتزاز احسن ایک بااصول اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ماضی میں بھٹو دورمیں صوبہ پنجاب میں وزیر، بینظیر دور میں وفاقی وزیر تھے تاہم وکلاء تحریک میں ”بڑا نام“کمایا۔ اس وقت پیپلزپارٹی نے انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا اور یہ ملک کے واحد سیاستدان ہیں جنہیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں کی جانب سے ٹکٹ کی آفر تھی لیکن وکلاء تحریک کے ساتھ کمٹ منٹ کی وجہ سے انہوں نے الیکشن کے ائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور یہی ان کا جذبہ تھا جس پر پارٹی نے برہمی کا اظہارکیا اور بات یہاں تک آگئی کہ مجلس عاملہ کی رکنیت سے ہٹا دیا گیا۔ اعتزاز احسن نے گلہ تو کیا لیکن نہ ہی احتجاج کیا اور نہ ہی ”موسمی پرندوں“ کی طرح دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی ۔
ان کا کہنا تھا کہ ”میں پیپلزپارٹی کا نظریاتی کارکن ہوں اور ہمیشہ رہوں گا“ میرے خیال میں ”وفاداری“ کا یہ رویہ اس لئے ہے کہ وہ صرف سیاستدان اور کامیاب بیرسٹر ہی نہیں ایک بہت اچھے شاعر اور دانشور بھی ہیں جبکہ سیاست انہیں گھٹی میں ملی ہے۔ ان کے جدِ محترم کو قائداعظم کی میزبانی کاشرف حاصل ہوا اور والد محترم چودھری احسن علیگ تحریک ِ پاکستان کے پرجوش کارکن تھے۔
کہتے ہیں کہ جمعرات کی رات پارٹی کے شریک چیئرمین نے ان کی رکنیت کی بحالی کا فیصلہ کیا جس کا جمعہ کوباضابطہ اعلان کردیا گیا اور یہ کہ آصف زرداری سے ان کی ٹیلیفون پر ”ہیلوہائے“ بھی ہوئی۔ کہتے ہیں کہ چودھری اعتزاز احسن نے پارٹی کو مضبوط او ر مستحکم کرنے کے لئے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ ایوان ِ صدر کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ چودھری صاحب کی خدمات سے استفادہ کیا جائے گا اور ”اہم عہدہ“ ملنے کی بھی امید ہے۔
اس وقت پیپلزپارٹی خصوصاً شریک چیئرمین جس طرح خبروں اور افواہوں کی زد میں ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دن گن رہے ہیں چند ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ”کاؤنٹ ڈاؤن“ شروع ہوگیا ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے ابھی تک عوام کو کوئی بڑا ریلیف نہیں دیاہے۔ عوام کے مصائب ومسائل کم ہونا تو دور کی بات ہے اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جمہوری نظام میں اگر عوام کو ریلیف نہ ملے تو حکمرا ن پارٹی کی مقبولیت متاثر ہوتی ہے اور پارٹی قیادت پر انگلیاں ہی اٹھتی ہیں۔
اس وقت پیپلزپارٹی ایسی ہی صورتحال سے دوچارہے۔ ان حالات میں چودھری اعتزاز احسن کی واپسی ”ٹارزن کی واپسی“ سے کم نہیں اور پارٹی کے لئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوسکتی ہے اور سیاسی افق پر یہ ایک ”اچھی خبر“ بھی ہے کہ اس طرح اور بھی ”ناراض ساتھیوں“ کی واپسی کے دروازے کھل گئے ہیں۔ سیاسی پارٹی کوئی بھی ہو ”اچھے، مخلص“ کارکن اس کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ جناب اعتزاز احسن تو ”قیمتی سرمایہ“ ہیں… اور اس ”سیاسی سرمایہ کاری“ سے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو استحکام حاصل ہوگا۔