• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مافیازبمقابلہ دہشتگردی…قومی سلامتی کیلئےخطرہ تحریر…سینیٹر رحمان ملک

ظلم،بددیانتی اور دہشتگردی آج ہمارے معاشرے میں سرائیت کرچکی ہے۔کوئی عام شخص ممکن ہے ناانصافی،بددیانتی اوردہشتگردی میں باہمی تعلق محسوس کرتا ہو تاہم ایک دانشمندآدمی اسے محسوس کرسکتاہے۔آج میں اپنےتجربےبنیاد پر مافیا کے دہشتگردی سےگہرےتعلق کو رقم کر رہا ہوں جونا قابل تردید طور پر ہماری قومی سلامتی کیلئےخطرہ بنتاجا رہا ہے۔مجھےکئی بارایسے حالات سے دور چارہونا پڑاجسکی بناپرمیں مختلف قسم کے طاقتور مافیاگروپس اورانکے اثر ورسوخ سےروشناس ہواجن کی جڑیں ہمارےسماج میں بہت گہری ہیں اورجوہرگزرتے دن کیساتھ خودکومضبوط کر رہےہیں۔ یہ مافیاز جن کی میں بات کر رہا ہوں بہت منظم اوربے لگام جرائم پیشہ تنظیمیں ہیں جو بے خوف و خطر آپریٹ کر رہی ہیں،یہ کسی سےکوئی بھی چیز چھین سکتی ہیں اورکسی کو کوئی بھی چیز دے سکتی ہیں۔وہ نہ صرف خود کوملک کے تمام اداروں سےبالا تر سمجھتی ہیں بلکہ خود کو ریاستی قانون سےبھی بالا تصور کرتی ہیں اور یہ بات بلا شک و شبہ کہی جاسکتی ہےکہ یہ مافیا گروپس بڑےسماجی بحران پیدا کرنے کے بھی ذمہ دار ہیں اورانکاخفیہ اورناجائزذرائع بروئے کارلا کر گورننس کو تباہ کرنے میں بڑا ہاتھ ہے۔یہ ابھرتےسنڈیکیٹ ہر شعبہ زندگی اورخاص طور پر ہماری انتظامیہ میں مختلف سطح پراپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان کے خلاف بنائے گئے قوانین کاان پر کوئی اثر نہیں اورانہوں نے دیدہ دلیری سےاپنے جرائم جاری رکھتے ہوئے خود کو استثنیٰ دےرکھاہے۔لگتا ہے کہ ان کا یہ خود ساختہ استثنیٰ انکےلئےکارگررہا ہےاوریہ مافیاگروپس ملک کو بتدریج تباہی کے راستے پر لے جا رہے ہیں۔ ان مافیاز کالائحہ عمل ظاہری بھی ہےاور باطنی بھی اور یہ مقتدر حلقوں اور ملک میں طاقت کے ستونوں سے ایک قیمت اداکرکےقوت حاصل کرتےہیں۔ہم نےدنیا کے مکروہ ترین منظم جرائم پیشہ گروہ مثلاًسسلین مافیا ،سولنٹیوسکایا بڑا ٹو ،یاماگوچی گومی ،سینا لو واکارٹل وغیرہ کودیکھا ہے جو دنیا بھر میں سر گرم ہیں اور منشیات ، اسلحے کی تجارت ، جوئے، اغوا برائے تاوان ، فراڈ ، منی لانڈرنگ اور قتل جیسے جرائم سے اربوں ڈالر کی غیرقانونی تجارت کررہےہیں۔آپ کا کیا خیال ہے کہ کون انہیں ان سب کاموں میں اول تا آخرسہولت فراہم کرتا ہے،یقیناًحکومت اور معاشرے کے طاقتور افراد میں سےکچھ لوگ ایساکرتےہیں۔ مافیا مائنڈ سیٹ کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جبکہ ہر طبقہ نا انصافی ، غربت اور دولت کی ہوس کےباعث ہی جنم لیتاہے۔مافیا کےسرغنہ غریب نوجوانوں کو کسی خطیر رقم نہیں بلکہ بہت تھوڑے سے پیسے کا لالچ دے کر اپنا آلہ کار بناتے ہیں۔ عموماً مافیا کے سرغنوں کے ساتھی نچلے اورغریب پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں باآسانی لالچ دیاجاسکتاہے۔پاکستان میں ایسےسنڈیکیٹس کے سرغنوں کو ’’دادا‘‘ یا ’’ پہلوان جی ‘‘ کہا جاتا تھا۔ پرانےدور میں یہ مافیا اپنے ڈیل ڈول اور طاقتور جثے کے ذریعے چاقو جیسا معمولی ہتھیار اٹھائے معاشرے میں دہشت پھیلایا کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان مافیا گروپس نے دہشت پھیلانے کے طور طریقےدورکےمطابق جدیدبنالئےاوران ہتھیاروں اور حربوں کو بھی تبدیل کر دیا جن سے وہ معاشرے میں دہشت پھیلاتےتھے۔ کلاشنکوف اورمنشیات کاکلچر مافیاز کانیاکاروباربن گیا اوراب کسی کیلئے بھی بندوق اٹھا کر کسی سے رقم یا زمین ہتھیانا آسان ہے۔ اس طرح ’’چھوٹے دادا ‘‘ کی طرح یہ جدید طرز کے مافیا گروپس اپنے شکار کو دہشت زدہ کرنے کیلئے دہشتگردوں کی قوت استعمال کرتےہیں اورانکاکام کرنے کا طریقہ مہلک اور موثرہے۔کراچی اور ملک کے دیگر بڑے شہروں میں یہ مافیاز اپنے قدم جما رہے ہیں کیونکہ ایسے شہر پہلے ہی جرائم پیشہ گروہوں ، سیاسی اور مذہبی رجحان رکھنے والے عسکریت پسندوں کے امتزاج کابدقسمت مرکب ہوتےہیں۔ ایسے گروپس معصوم شہریوں کودہشت زدہ کرکے اپنے اہداف حاصل کرتے اور نموپاتےہیں۔ بھتہ خوری ،غیر قانونی تجاوزات اور جائیدادوں یا اراضی پر قبضے کرنا ان کا روز مرہ کاکام ہے۔اس سےبھی براحکام کی ان مافیا گروپس کی جانب سےروا ظلم کیخلاف آواز اٹھانے کی جرات کرنے والے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں عدم دلچسپی ہے۔ اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو مارچ 2013ء میں اس بنا پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا کہ انہوں نے کراچی میں مافیازکیخلاف آواز اٹھانے کی جرات کی تھی۔پروین رحمان ان کئی لوگوں میں سے ایک ہیں جنہیں ایسے مجرموں کیخلاف آواز اٹھانے پر ہمیشہ کیلئےخاموش کردیا گیا۔ اور کتنی ایسی پروین رحمان ہیں جنہیں اپنی جان خطرے میں ڈالنا پڑے گی۔ خوف کی وجہ سے کوئی گواہ عدالت میں شہادت دینے پر تیار نہیں ہوتااور اس طرح نہ مظلوم کو انصاف ملتاہےاور نہ کسی مجرم کوسزا۔ ریاست کو بالآخر خواب غفلت سے جاگ کر دیگر مہذب ممالک کی طرح گواہوں کے تحفظ کا پروگرام شروع کرنا چاہئے۔ عام طورپر پورے ملک میں کام کرنے والے مافیا گروپس ایک بنیادی فارمولے پرچلتے ہیں،یہ مافیا گروپس کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری افسران ، عسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر ، پراپرٹی ڈیلرز اور طاقتور کاروباری شخصیات اور قومی و بین الاقوامی مفاداتی گروہوں پر مشتمل گٹھ جوڑ ہوتے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1970ء کے بعد سے یہ مافیا ان اداروں سے بھی مضبوط کیسے ہو گئے جن کا کام انہیں اور ان کی غیر قانونی سرگرمیوں کوکچلنا ہے۔مثال کے طور پر ڈرگ اورلینڈمافیااب جتنے مضبوط ہیں پہلےکبھی نہیں تھےاورکسی نہ کسی طرح انکی سرگرمیاں اور منظم جرائم کے پیٹر نز باہم منسلک ہیں۔ملک بھر میں قبضہ گروپس فنڈز حاصل کرنے کیلئے منشیات کی تجارت کااستعمال کرتے ہیں جو بعد ازاں غیر قانونی اسلحہ رکھنے اور بڑےشہروں کے اہم علاقوں میں دہشت پھیلانے کیلئے جرائم پیشہ افراد کے لشکر بنانے کیلئے استعمال ہوتےہیں۔ملک کے تقریباً ہر بڑے شہر میں بھرپور طریقے سے منظم قبضہ گروپ منشیات کی تجارت ، ڈکیتیوں ، غیر قانونی ہتھیار رکھنے اور استعمال کرنے ، تاوان کیلئے معصوم شہریوں کے اغوا،قتل اور دیگر جرائم میں براہ راست ملوث ہیں۔ لینڈ مافیا کے کئی شہروں میں چھوٹے اوربڑے پیمانے پر بھتہ مافیاسے رابطے ہیں۔اس طرح لاہور اور اسلام آباد جیسے شہربھی ان دہشت پھیلانے والوں اور اداروں پران کے اثر و رسوخ سے محفوظ نہیں رہے۔ جرائم کے پیٹرن ایک جیسے ہیں،ہائی پروفائل علاقوں میں خالی پلاٹس ، بلڈنگز، اراضی ،جعلی دستاویزات تیار کرکے مقامی پولیس اور انتٖظامیہ کی مدد سے ہتھیائی جاتی ہے حتیٰ کہ عدالتی طریقہ کار کے ذریعے بھی بندوبست کرلیاجاتا ہے ۔ مافیاز وفاداریاں بڑے پیمانے پر رشوتوں یا ڈرانے دھمکانے کی ہتھکنڈوں سے حاصل کرتے ہیں۔ ان تمام مافیاز میں نظر آنے والی قدرمشترک جو کہ خطرے کی علامت ہے وہ جعلی شناختی کاغذات اورہر قسم کے دستاویزات کی تیاری ہےجن سے جائیداد یا اراضی کے اصل مالکان سالوں کیلئے مقدمات بھگتنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ سی ڈی اے نے پہلے بھی اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ صرف اسلام آباد میں 54,442کنال سرکاری اراضی پر مقامی لینڈ مافیا کے جرائم پیشہ افرادقبضہ کر چکے ہیں ۔ ماضی میں سپریم کورٹ کی جانب سے سی ڈی اے کو 2ہزار ایکڑ سرکاری اراضی واگزار کرانے کے احکام کے باوجودشہری انتظامیہ مافیا کےخلاف کارروئی پرہچکچاہٹ کا شکار نظر آئی،کیو نکہ ان جرائم پیشہ عناصرکوبااثراشرافیہ کی پشت پناہی حاصل تھی۔علاقہ مکینوں کی مرضی کے خلاف زمین کاکافی بڑاحصہ تجاوزات کی مدمیں ہتھیالینا اوروہاں ہائوسنگ سوسائٹیز بنالیناایک تیزی سے پھلتاپھولتاہواکاروبارہے۔ جب زمین کے موجودہ مالکان اِن ارادوں کاپتہ لگااورانھوں نے اپنے پلاٹس فروخت کرنے سےانکارکردیاتولینڈ مافیا لوگوں کو دھمکانےکے لیے آگے بڑھا تاکہ لوگوں کے پاس زمین بیچنے کےسواکوئی چارہ نہ رہے۔ نتیجتاََ انھوں نے ہائوسنگ سوسائٹی کمپنیز سےاپنی خدمت عوض قیمت وصول کرناشروع کردی ۔ لہٰذا صحیح مالکان سے زمین ہتھیا کرہائوسنگ سوسائٹیز کوفروخت کی گئی اور یوں اس قبضہ مافیا نے مختلف علاقوں میں 5لاکھ اسکوائر یارڈزمین فروخت کرکےدوسو ملین روپے سے زائد کمائی کی ۔ لاہور میں تیزی سے ترقی کرتاہوا مافیامنشیات کامافیاہےاوراس سے بھی زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ طاقت ور ہورہاہے۔ کیایہ خطرے کی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں نشے کے عادی کل 89لاکھ افرادمیں سے تقریباََ سات سوافراد روزانہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اِن اعدادوشمار سے واضح ہوتاہےکہ تیزی سے پھیلتا ہوا ڈرگ مافیا ملک میں دہشتگردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ منشیات کے باعث ہلاکتوں کی تعداد دہشتگردی کے باعث مرنے والوں سے بھی زیادہ ہے۔ 1980ءمیں خطے میں عدم استحکام کے باعث پاکستان میں ڈرگ مافیا مضبوط ہوا۔ افغانستان میں سوویت افواج کی آمد کے بعدملک میںصورتحال مزید بگڑگئی جب آیت اللہ خمینی کی جانب سے ایران میں پابندی کے باعث افغان علاقے ہلمندمیں منشیات کادھندہ زورپکڑگیا۔ لہٰذا افغانستان جہاں دنیا کی75فیصد ہیروئن کی کاشت ہوتی ہے وہ ہی پاکستان میں بلاواسطہ طور پر پاکستان میں ہیروئن کی سپلائی کاذمہ دار ہے جس کے باعث 16سے 65سال کے عمر کے 30لاکھ لوگ نشے کے عادی بن چکے ہیں ۔ ڈرگ مافیا کی جانب سےا سمگل ہونے والی ایک اورچیز بھنگ بھی ہے جس کے باعث 50 لاکھ افراد اس نشے کے عادی بن چکے ہیں ۔منظم ڈرگ مافیا نے پاک افغان تجارتی معاہدے کاغلط استعمال کرتے ہوئے ملک میں سب سے زیادہ ہیروئن اسمگلنگ کی۔40سے 42 فیصد ہیروئن پاکستان کے ذریعے ہی دنیا بھر میں اسمگل کی جاتی ہے ۔ منشیات کے عادی افراد کی تعداد اتنی خطرناک حد تک بڑھنے کی کیاوجوہات ہیں ؟ بے شک یہ وجوہات بھی واضح ہیں لیکن ماضی میں ان سے سختی سے نمٹانہیں گیا۔ ان میں زیادہ ترڈرگ مافیاجو آدھے سے زیادہ ملک پر گرفت بناچکے ہیں ان کی فنڈنگ زیادہ تر ملک کے امیراورطاقتور دھڑے کرتے ہیں ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ منشیات فروش آسانی کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر تعلقات بنالیتے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ اس ڈرگ مافیا کاراستہ روکا جائے جس کے باعث اربوں ڈالردہشتگرد تنظیموں کوبھی ملتے ہیں جو ملک میں خوف اوربے چینی کاباعث بنتے ہیں۔ مزید برآں کچھ سیاسی جماعتیں کراچی جیسے شہروں میں وسائل کے حصول کے لیے اپنے مسلح گروہ استعمال کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوتاہے اور لینڈ مافیا غریب لوگوں سے زمین ہتھیالیتاہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کرپشن مافیا اورقبضہ مافیا کی ملی بھگت سے ہوتاہے۔ حکومت میں بیٹھے افرادکرپشن سے کمایاگیاپیسہ جائیداد کی خریدو فروخت میں لگاتے ہیں جس کے باعث لینڈ مافیامزیدطاقتور ہوتاہے اور وہ کمزور لوگوں کی زمین پر قبضہ کرتے ہیں اور یوں وہ اپنے اختیارات کاغلط استعمال بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث یہ خفیہ ہاتھ اپنے تحفظ کے لیے کچھ سیاستدانوں کوبھی فنڈنگ کرتے ہیں۔ سیاست میں ان مافیا گروہوں کی براہِ راست شمولیت کے باعث پاکستان کوسیاسی اور معاشی طور پر نقصان اٹھانا پڑرہاہے۔ دہشت گردی ، کرپشن اور منظم جرائم کے درمیان گہراتعلق موجود ہے۔ اس طرح کے جرائم کے لیے موجود حالات دہشت گردوں کو مالی طورپرمزید مضبوط کرنے میں ساز گار کردار اداکرتے ہیں ۔ منی لانڈرنگ کا اس طرح کا مشہور مقدمہ الطاف خانانی کا ہے جس کا شمار پاکستان کے سب سے بڑے کرنسی ڈیلروں میں ہوتاتھا۔ اس نے امریکی عدالت میں اس بات کا اعتراف کیاکہ وہ ہرسال اربوں ڈالر ادھر سے ادھر کرنے کے جرم میں ملوث تھا ۔یہ رقم منظم جرائم اور دہشت گرد عناصر پر خرچ ہوتی تھی۔ اس گروپ کی طالبان گروہوں قبضہ مافیااور حوالہ مافیا کے ساتھ تعلقات کے حوالےسے بھی شناخت موجود ہے ۔ حالات نے ثابت کیاہے کہ جب تک ہم دہشت گردوں کوجڑسے اکھاڑ نہیں پھینکتے منشیات فروشوں کاخاتمہ نہیں ہوجاتااور منی لانڈررز کاقلعہ قمع نہیں ہوجاتاہم پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ اہل وطن ان خطرناک لوگوں کی زد سے محفوظ ہیں ۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ان تمام مافیاز سے نجات کے لیے ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ یہ مافیااور جرائم پیشہ عناصراپنے مذموم مقاصدکیلئے پیسے او رطاقت کے بل بوتے پر احتساب سے بچنے کے لیے ہر ہربہ استعمال کرتے ہیں ۔ یہ مافیانام نہاد خیراتی کاموں کے پیچھے چھپ کر اپنا دھندہ جاری رکھتے ہیں ۔لہٰذا جرائم پیشہ عناصر کے خلاف لڑنا بہت مشکل ہورہاہے ان کے باعث ہماری نئی نسل تباہ ہورہی ہے ۔ حکومت کو معاشرتی اور سرکاری سطح پر ان عناصر کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ لڑنا ہوگا۔ پہلے ان عناصر کی شناخت کرنی ہوگی ، پھرایک ایک کرکے انھیں ختم کرناہوگاکیونکہ قومی سالمیت کے لیے دوسرا بڑاخطرہ ہے جسے ختم کرناہوگا۔

تازہ ترین