• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک ہفتہ ترکی گزار کے آیا ہوں اور ابھی تک اس کے حسن اور حکمرانوں کے حسن انتظام کے کرشمے کے سحر میںمبتلا ہوں۔ لیکن آتے ہی جو خبریں ڈپریشن میں مبتلا کررہی ہیں وہ وطن عزیزکے حوالے سےہیں۔ میں اس وقت پاناما کیس میں شریف خاندان کے جھوٹ کے پلندے کی بات نہیں کر رہا اس لئے کہ اس سے تو سارا ملک واقف ہو چکا ہے اور لگتا یہی ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ اس حوالے سے شریف خاندان کو ایک اچھا سبق سکھانے کے موڈ میں ہے۔ میں اس وقت خادم اعلیٰ کے لاہور کےحوالے سے انتظامی معاملات کی بات کر رہا ہوں۔ اس حوالے سے ایک رپورٹ ہمارے سامنے ہے۔ اس کے مطابق لاہور شہر جو کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا، اس کا حسن بدانتظامی کے باعث ماند پڑ گیا اور کس قیمت پر۔ یہ قیمت ہم نے شہر کو ماڈرن بنانے کی خاطر ادا کی ہے۔ یہ شہر ثقافتی ورثہ کا مرکز کہلاتا رہا ہے لیکن وقت گزرنے کےساتھ ساتھ یہ ابتری کا شکار ہو رہا ہے۔ جدت پسندی اور ترقیاتی منصوبوں جن میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین بھی شامل ہیں، نے اس شہر کو بری طرح متاثر کیاہے۔ میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبوں نے جو حال اس شہر کا کیا ہے یہ ایک تلخ کہانی ہے۔ یہاں کا کلچر، طرز تمدن اپنی مثال آپ تھا۔ ماڈرن علاقے تھے اور وہ بھی درختوں اور پرندوں کی وجہ سےاپنی پہچان آپ تھے۔ گلبرگ جیسے علاقے میں اب ماسوا چند بڑی سڑکوں کے ٹوٹی ہوئی گلیوں اور سڑکوں کابےہنگم جال ہے۔ جابجا گندگی کے ڈھیر جو شہر کے دیگر علاقوں میں نظر آتے ہیں وہی گلبرگ جیسے علاقے میںبھی نظرآتے ہیں۔ناقص سیوریج سسٹم نے شہریوں کو عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔ اس ناقص نظام کی وجہ سے برسات کے موسم میں عذاب اور بڑھ جاتا ہے۔ تاریخی عمارتوں کے گرد بغیر اس بات کا خیال کئے کہ یہاں اورنج ٹرین کی وجہ سے کھدائی کےکیا اثرات پڑیں گے، ماحولیاتی تنظیموں کی درخواستوں کے باوجود کام جاری ہے۔ یہ ہے اس شہر کی کہانی جسے اس کے خادم اعلیٰ پیرس بنانے کا عزم کئے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔
اس سب کا مقابلہ اگر میں ترکی کے ان دوشہروں سے کروں جن کا دورہ میں ابھی کرکے آیا ہوں یعنی انقرہ اور استنبول تو اپنے حکمرانوں کے دعوئوں پر سوائے رونے کے اور کچھ نہیں کیاجاسکتا۔ انقرہ تو چلئے دارالحکومت ہے اس لئے اس کی خوبصورتی کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے لیکن استنبول جیسے علاقے جہاں خانقاہیں، مسجدیں، تاریخی عمارتیں، قلعے اوراس کے ساتھ ساتھ جدید عمارتوں کے سلسلے سبھی محیرالقول ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار کے اردگردکے علاقے جو کبھی غریب علاقوں میں شمار ہونے کی وجہ سے خاصے گندے تھے، وہاں اب دو ر دور تک گندگی کا نشان نظر نہیں آتا۔ بلکہ اس کے اردگرد کی گلیاں ایسی ہیں کہ یورپ کےکسی بھی حسین علاقے کامقابلہ کرسکتی ہیں۔ توپ کاپی ہو یا آیا صبوفیہ یا بلیو مسجد ان سب علاقوں کو شاندار طریقے پر صاف کرکے باغات بسا کر ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ٹورسٹ خود بخود وہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ توپ کاپی تو اس لحاظ سے بھی یادگار ہے کہ یہاں انبیا ء کرامؑ اور خاص طور پر رسول اکرمﷺ کی ذات کے حوالےسے ایسے ایسے نوادرات ہیں کہ صرف انہیں دیکھنےکے لئے ہی عاشقان رسولﷺ کھنچے چلےآتے ہیں یعنی رسول اکرمﷺ کی کالی کملی، دندان شریف، موئے مبارک اور پھر ان کو رکھنے کے اعلیٰ ترین انتظامات واقعی قابل تحسین ہیں۔
استنبول کی یہ صفائی بنیادی طور پر طیب اردوان کا ایسا کارنامہ ہے جس کی بدولت ترک عوام ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ طیب اردوان جن کی قرآن کی قرأت سن کر دل والہانہ طور پر ان کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے، 15جولائی کو ناکام بغاوت کاایک سال مکمل ہونے پر جشن منارہے تھے۔ انہو ںنے اس موقع پر بھی اپنے 260کے قریب ان ساتھیوں کا ذکر کیا جنہیں 15جولائی 2016کو شہید کردیا گیا تھا۔ تقریب میں تلاوت قرآن چھائی رہی۔ میں نے پہلے بھی کہا کہ ترک عوام جنہوں نے ٹینکوں اور توپوں کے آگے لیٹ کر اپنے محبوب قائد کے خلاف اٹھنے والی بغاوت کو ناکام کیا، ان سے محبت کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے مقبول قائد کے اثاثے ملک سے باہر نہیں ہیں۔ نہ ہی ان کی اولادوں نے کاروبار باہر رکھا ہوا ہے۔ ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیںہے۔ ملک میں ترقی کی رفتار تیزہے۔ امپورٹ ایکسپورٹ میں توازن ہے۔ پچھلے برس کی ناکام بغاوت میں معیشت میں کچھ کمی کے باوجود ملک میں یورپ میں سب سے بہتر شرح ہے۔ لوگوں کی تعلیم پر توجہ ہے۔ عمارات بنانے کے نام پر غریبوںکو بھلا نہیں دیا گیا بلکہ ان کے غریب ترین علاقوں میں بھی فلاح کےکام جاری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے قائد سے ایسی والہانہ محبت کرتے ہیں۔2016کی فوجی بغاوت کی ناکامی میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ترکی کی اپوزیشن پارٹیوں نے بھی حکومت کا ساتھ دیا۔ یہ ساتھ انہوں نے اسی بنیاد پر دیا کہ انہیں طیب اردوان کے ایجنڈے سے تو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اس بات پر وہ بھی ان کے ساتھ ہیں کہ وہ ایماندار ہیں۔ وطن سے محبت کرتے ہیں اور اسلام سے محبت ان کی نس نس میں بسی ہے۔
کاش ایسی حکومت اور ایسے لیڈر ہمیں بھی میسر آئیں۔

تازہ ترین