نشتر پارک کے سالانہ اجتماع سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا ” بم دھماکے بلیک واٹر اور امریکی و بھارتی ایجنٹوں کا کام ہے، حکمران ڈومور کا مطالبہ مسترد اور آپریشن بند کر کے مذاکرات کریں۔ ملک میں انارکی پیدا کر کے ایٹمی اثاثوں کو تحویل میں لینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ توہین رسالت کے قانون کو آئین سے ختم کرنے کے خلاف مزاحمت کریں گے “… جبکہ وزیر داخلہ کا بیان یہ ہے کہ دہشت گردی میں القاعدہ، طالبان اور کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں۔ طالبان کو طالب کہنا گناہ ہے۔ وہ کرائے کے قاتل ہیں ۔ ملک میں بلیک واٹر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وزیر موصوف نے یہاں گوجرانوالہ میں ایک تقریب سے خطاب کے بعد صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں دیا۔
جماعت اسلامی جماعت کے سربراہ اور وزیر داخلہ دونوں کی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ شک کرنا مناسب نہیں کہ انکی معلومات ناقص ہیں۔ حکومت کے راز اور عالمی سازشوں کے تمام کردار مذکورہ دونوں رہنماؤں کے علم میں ہیں لہٰذا ان کے بیانات کو سرسری نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ پاکستان کے مستقبل اور وسیع تر مفاد میں ان بیانات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے بیانات میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی جو وجوہات بتائی ہیں وہ مشرق اور مغرب کی طرح مختلف سمت کو جا رہی ہیں۔ دونوں صاحبان کسی ایک نکتہ پر بھی متفق نہیں۔ ایک جو حل بتا رہا ہے دوسرا اسے حل کو فتنہ قرار دے رہا ہے۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں ہم یقینی حقائق کو تلاش کریں درست اور سچا قرار دینے کیلئے دونوں رہنماؤں کے نظریاتی اور سیاسی کردار کو سامنے رکھنا ہو گا ۔
سید منور حسن نے جو کچھ کہا اس پر اعتبار نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ موجود نہیں بلکہ واقعات اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ تاہم وزیر داخلہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اسکی تصدیق کرنے کیلئے حکومت کے پاس بھی لمبی زبان تو موجود ہے۔مگر ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ وہ بلیک واٹر کی پاکستان میں موجودگی کی جس طرح تردید کر رہے ہیں ایسی تردید تو امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران بھی نہیں کی۔ بلو واٹر کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کچھ نجی سکیورٹی ایجنسیاں موجود تھیں۔” کسی امریکی سفارت کار یا ذمہ دار نے آج تک اس قدر دو ٹوک الفاظ میں بیک واٹر کی موجودگی سے انکار نہیں کیا کہ جس طرح ہمارے وزیر داخلہ کر رہے ہیں۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ معلوم کرنا چاہیں گے کہ پاکستان میں امریکی سفارت خانے اور قونصل خانوں میں سفارتی عملہ کی کل کتنی تعداد ہے اور اس سفارتی عملہ کے علاوہ جو اضافی عملہ موجود ہے اسکا تعارف کیا ہے…؟ شہباز ائر بیس، شمسی ایئر فیلڈ، تربیلا اور سہالہ ریسٹ ہاؤس کے اندر امریکیوں کو دیئے گئے اختیارات کی تفصیلات کیا ہیں…؟ کراچی، پشاور، کوئٹہ، لاہور اور اسلام آباد میں موجود امریکیوں کا فائیو اسٹار ہوٹلوں اور کرائے کے مکانات میں ٹھہرنے کی وجوہات کیا ہیں…؟ امریکی اور دیگر مغربی سفارت کاروں سے غیر قانونی اسلحہ برآمد ہونا، جعلی نمبر پلیٹس کے ساتھ گاڑیوں کا سفر کرنا، مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پانا،بغیر اجازت کے پاکستان کے مختلف شہروں کا سفر کرنا اور حساس علاقوں کے نزدیک پہنچنا، روکنے کے باوجود انکا نہ رکنا، اور حراست میں لئے جانے کے باوجود چند گھنٹوں میں رہا ہو جانے کا مطلب کیا ہے؟ وزیر داخلہ ان لاپتہ افراد کا پتہ بتا سکتے ہیں کہ جو اس وقت امریکہ کی خفیہ جیلوں اور سمندر میں تیرتے ہوئے بحری جہازوں میں غوطے کھا رہے ہیں۔ ڈرون حملے جن کو وزیر داخلہ ایک لعنت قرار دے چکے ہیں۔ وزیر اعظم گیلانی ان حملوں کو دہشت گردی قرار دے چکے ہیں۔ صدر زرداری ان حملوں کو روکنے کا مطالبہ کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود یہ حملے نہیں رکتے۔ اور حکومت پاکستان احتجاج کے باوجود ان حملوں کو برداشت کر رہی ہے۔ آخر کیوں…؟ ڈرون حملوں کا مقابلہ کیوں نہیں کیا جاتا، خود کش تو اچانک آتا ہے اس لئے حکومت ایک حد تک بے بس ہے مگر ڈرون حملے تو دن کے اجالے میں ہو رہے ہیں۔ کیا دنیا میں کوئی دوسرا بھی ایسا آزاد ملک ہے کہ جس کے دوست اور اتحادی اسکی سرحدوں کی ہر روز خلاف وزی کرتے ہوں، اسکے شہریوں کو قتل کرتے ہوں مگر پھر بھی اس ملک کا صدر، وزیر اعظم ،وزیر داخلہ اس حملہ آور جرنیلوں، سفارت کاروں، کا ہر ہفتے استقبال کرتے ہوں…؟ کیا ملک کی قیادت کرنے والوں کو ایسا ہی ہونا چاہئے جیسا کہ موجودہ قیادت ہے، کیا پاکستان کے دفاع کے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر اور دعویٰ اسطرح سے پورا ہو گا۔ جس طرح سے وزیر داخلہ کر رہے ہیں۔ GHQکو جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دینے والوں نے پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے کون سا کارنامہ انجام دیا۔
موجودہ بحران کا واحد حل یہی ہے کہ عوام کو ازسر نو اپنی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ قیادت کے ناکام ہو جانے کی صورت میں نئے انتخابات سے آئین ہرگز نہیں روکتا… تاہم جماعت اسلامی کا اگر یہی خیال ہے کہ ریلیوں اور قراردادوں کے ذریعے موجودہ حکمرانوں کو پالیسیاں بدلنے پر محبور کیا جا سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔
یہ ہرگز مناسب نہیں بلکہ تاریخی غلطی ہے۔ صرف ”گو امریکہ گو“ کی تحریک ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں کہ امریکہ کے وفادار اور تابعدار سٹ اپ کو تو جوں کا توں برداشت کیا جاتا رہے ۔ امریکہ کے میزبان جب تک بااختیار ہو کر اپنی کرسیوں پر بیٹھے رہیں گے تب تک امریکی بھی پاکستان کے شہروں اور شاہراہوں پر دندناتے پھریں گے۔