• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشکل وقت وہ پیمانہ ہے جو دوستوں اور دشمنوں کے اصل رویوں کا تعین کرتا ہے۔ اچھے خاندانی پس منظر اور اخلاقی روایات کے حامل مخالفین اپنے مدِّ مقابل کے بُرے وقت میں وار کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ان کی اعلیٰ ظرفی حرفِ تشکر میں ڈھل جاتی ہے جبکہ کچھ بہت اپنے اور بہت قریبی ساتھیوں کی اوقات کُھل کر سامنے آتی ہے تو افسوس اور شرمندگی ہوتی ہے۔ مخالفین سے تو پھر انسان بہت سی انہونی اور نا خوشگوار باتوں کی توقع رکھتا ہے مگر دوستوں کی زمانہ سازی اور چھپی نفرتوں کا اظہار اُس کے لئے نا قابل برداشت ہوتا ہے۔ آزمائش کے وقت چھوڑ کر جانے والا اور دُکھ درد سے بے نیاز ہو جانے والا دوست عمر بھر کا پچھتاوا بن جاتا ہے۔ بہر حال یہ فطری تضادات ہی شخصیت کا اصلی روپ ہوتے ہیں۔ آج کل کیوں کہ ہر طرف بے یقینی اور ابہام کا موسم ہے تو کچھ لوگ جو سالہا سال سے مخصوص سیاسی جماعتوں کا کلمہ پڑھتے نہ تھکتے تھے اچانک لا تعلقی کا اظہار کر کے خود کو ہیرو ثابت کرنے کے چکر میں ہیں۔ عطا محمد مانیکا صاحب کے استعفیٰ پر بے حد دُکھ ہوا اس لئے کہ چار سال سے وزارت کے بعد انتخابات سے کچھ ماہ قبل اظہار ناراضگی اور بے گانگی جچتی نہیں۔ اگر آپ کو کوئی شکایت تھی تو آپ کو شروع میں ہی خُدا حافظ کہہ دینا چاہئے تھا۔ پھر اُس وقت جب حکومت پر مخالفین کی انگلیاں اور میڈیا کی نگاہیں ہیں سے ایسا سلوک بالکل زیبا نہیں دیتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کچھ دن اور خاموش رہتے۔ فیصلے کے بعد الگ ہو جاتے یا الیکشن کے وقت اپنی راہیں جُدا کر لیتے۔ یقیناً ایسے استعفے منظور کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ عوام کی عدالت سب تماشے دیکھ اور سُن رہی ہے اور بار بار وفا دار یاں تبدیل کرنے والوں اور خاص کر آزمائش کے وقت خود کو معصوم ثابت کرنے والوں کے لئےاب کوئی حرفِ خیر نہیں۔ نظریاتی کارکن کبھی ذاتی مفادات اور تشہیر کے لئے پارٹی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ سیاست میں پارٹی کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ پارٹی وہ پلیٹ فارم ہے جس پر مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف مذاہب کو ماننے والے اور مختلف قوموں، قبیلوں سے تعلق رکھنے والے ایک نظرئیے کی رسّی میں بندھ کر مالا کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ وقت رسی توڑ کر نکل جانے والے کی کمی پوری کر دیتا ہے مگر کچھ دیر مالا کی خوبصورتی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ ان دنوں ادلے بدلے کا بھی خوب چرچا ہے۔ پی۔ ٹی۔ آئی کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اسے آزمائے ہوئے بعض سیاستدانوں نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ جن لوگوں کی آمد پر چیئرمین صاحب خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں انہی کی وجہ سے عوام میں ان کی پارٹی غیر مقبول ہو رہی ہے۔ تبدیلی کے نعرے کا مطلب تھا کہ نوجوان نسل کو سامنے لایا جائے گا اور آزمائے ہووں کو مزید آزمایانہیں جائے گا۔ اس جماعت میں وارد ہونے والوں کو اس جماعت کے نظریے، فلسفے اور اصولوں سے کوئی غرض نہیں وہ صرف اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا چاہتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کو چاہے آج کل مختلف چیلنجوں کا سامنا ہے مگر اس پارٹی کی جڑیں ابھی تک عوام کے دلوں تک رسائی رکھتی ہیں۔ ذرا سا نم ہو تو مٹی دوبارہ زرخیز ہو سکتی ہے۔ صرف ان کے رہنماؤں کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے جبکہ ان کا سارا زور حکومتِ وقت کو للکارنے اور لا یعنی نعرہ بازی میں ہے۔ اس کی بجائے وہ اپنا منشور بہتر کریں نچلی سطح پر روابط بڑھائیں اور انتخابات کا لائحہ عمل تیار کریں۔ سچی بات یہ ہے کہ اب ان کے پاس بھی سوچ بچار کا وقت نہیں وہ بھی پلک جھپکتے اقتدار کے خواب دیکھتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ صرف بھٹو کا نعرہ کام نہیں آئے گا اس لئے اس نعرے پر تکیہ کرنے کی بجائے خود کو ثابت کریں کیونکہ عوام اب جذباتی نعروں کی بجائے عملی کام کی توقع کرتے ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کو سنوارنے اور اس کے نقائص دور کرنے کی بجائے دوسری جماعتوں کا رُخ کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کی ماضی کی کار کردگی اس قابل نہیں کہ انھیں انتخابات میں کامیابی دلاسکے۔ انھیں کسی جماعت اور مشہور شخصیت کا سہارا چاہئے کیونکہ ان کی منزل پارلیمنٹ ہے۔ سوچنے کی بات ہے ایک عرصہ اس جماعت کی نظریاتی وابستگی پر مان کرنے والے اور اس کے منشور کو زندگی سمجھنے والے اسے خیر آباد کہہ کر کسی اور جماعت میں جاسکتے ہیں تو انھیں اس جماعت سے کیا ہمدردی ہو سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ موسمی پرندوں کی آمد سے وہ مخلص اور نیک نیت کارکن متاثر ہوسکتے ہیں جن کی شب و روز کی محنت سے جماعت پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی بن پائی ہے۔ انتخابات کے وقت بھی ان نظریاتی ممبران کو پس پشت ڈال کر نئے وارد ہونے والے لوگوں کی جگہ بنائی جائے گی۔ نیز میڈیا پر آج کل ہر جگہ وہ لوگ نمائندہ بن کر سامنے آ رہے ہیں جو کل کسی اور جماعت کے گن گاتے تھے اور اِس جماعت کے کارکنوں کو بُرا بھلا کہتے تھے۔ بہر حال ایسے افراد کو ردّ کرنے کا عمل اب ووٹروں کو کرنا چاہئے اور یقیناً الیکشن میں اس کے نتائج ضرور سامنے آئیں گے۔ جو ممبران اپنی نظریاتی وابستگی کا سودا کر سکتے ہیں وہ کسی وقت بھی انہونی کا حِصّہ بن سکتے ہیں۔ مخالفت کے باوجود اپنے رویوں سے مثبت اظہار کرنے والے احترام کے قابل ٹھہرتے ہیں۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ ساتھ نہ چل سکنے والے اخلاق اور اخلاص سے رخصت ہوں۔ بہر حال مشکل میں ساتھ چھوڑنے والے نا جانے تنہائی میں اپنے ضمیر کا سامنا کیسے کرتے ہوں گے۔ اپنے اندر سے اٹھنے والے سوالات کے جوابات کیسے تلاش کرتے ہوں گے کیونکہ اندر سے ہونے والی یلغار کو روکا نا جاسکے تو وجود پسپائی کی دلدل میں گر جاتا ہے۔ انسان کی مسرت اخلاقی اصولوں کی پیروی میں پنہاں ہوتی ہے ان اصولوں کی حکم عدولی شخصیت کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہے کیونکہ اخلاقی اصول قدرت کے قوانین ہیں اور یہ دنیا کسی ضابطے کے تحت قائم دائم ہے۔ ویسے کچھ لوگ زندگی میں ایسے ساتھ ہوتے ہیں کہ اُن کا ملنا بچھڑنا محسوس ہی نہیں ہوتا تقدیر کے جبر سے نجات کیسے حاصل ہو۔
لگتا ہے تیری آنکھ ہے میرے وجود میں
رکھتی ہے جو خبر مری ایک ایک بات کی
دشوار ہے جُدائی تو مشکل ہے ہمراہی
طے کس طرح کروں میں مسافت حیات کی
جس کی رضا کو اپنی رضا جانتی رہی
اُس نے نفی ہی کی ہے صدف میری ذات کی

تازہ ترین