کیا عجیب اتفاق ہے کہ محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی دوسری برسی 9ویں محرم کو آرہی ہے جو ہمیں ہر سال یاد دلاتا ہے کہ نواسہٴ رسول حضرت امام حسین نے اپنے افراد خاندان کے ہمراہ کربلا کے میدان میں ایثار و قربانی کا کیسا عظیم الشان باب رقم کیا تھا۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹوکی ذات اور شخصیت کے لئے واقعہ کربلا اور اس کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے المناک واقعات ایک مستقل سرچشمہ فیضان کی حیثیت رکھتے تھے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ اصول ذات پر مقدم ہوتے ہیں اور ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ کر جدوجہد کرنا ہی سب سے بڑا اصول ہے۔ آج جب کہ دنیا بھر کے مسلمان واقعہ کربلا کے سوگ میں اشک فشاں ہیں، ہمیں محترمہ شہید بینظیر بھٹوکے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں جن کے ذریعے وہ میدان کربلا میں بی بی زینب اور دیگر خواتین کی قربانیوں کا حوالہ دیا کرتی تھیں۔ جدید مسلم تاریخ میں محترمہ شہید بینظیر بھٹو ایک غیر معمولی اہمیت، حیثیت اور مقام کی حامل ہیں۔ اسلامی تاریخ کے اوائل کی خواتین کے نقش و قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے نہ صرف اسلامی معاشرے کو متاثر کیا بلکہ دنیا بھر کے صاحب ایمان لوگ بھی ان کے خیالات و نظریات سے بے حد متاثر ہوئے۔ میرے لئے ان کی اہمیت اور مقام ایک افسانوی اور طلسماتی شخصیت سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ لامحدود مواقع اور خواتین کی امیدوں کا مرکز تھیں۔ میرے لئے تو وہ ایک مستقل سرچشمہ فیضان کی حیثیت رکھتی ہیں۔ میں ہمیشہ انہیں یاد کرتی رہتی ہوں اور آج بھی جب میں ان کی یاد میں لکھنے بیٹھی ہوں تو آنسو میری آنکھوں سے چھلک پڑتے ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو ایک بے مثل اور بے نظیر دانشور خاتون تھیں وہ بے انتہا جری، نڈر اور بہادر تھیں ان کا رشتہ اپنے عوام اور اپنے ملک سے اتنا گہرا اور استوار تھا کہ انہوں نے اپنی ذاتی مسرتیں اور خوشیاں تک ان کے لئے قربان کردیں اور اپنی زندگی کو جمہوری اصولوں، معاشی اور اقتصادی ترقی اور انسانی حقوق کی سر بلندی کے لئے وقف کر دیا ۔ انہوں نے مجھ سمیت پاکستانی خواتین کو یہ درس دیا ہے کہ اگر ہمیں اپنے ملک ، معاشرے ، خاندان اور مذہب کی خدمت کرنی ہے تو ہمیں تمام حدود اور قیود کو توڑ دینا ہو گا وہ 1989میں امریکی کانگریس سے خطاب کر رہی تھیں جس کے دوران انہوں نے تمام دنیا کی خواتین سے مخاطب ہو کر اپنے اس عزم و استقلال کا اظہار کیا تھا کہ اگر خواتین اپنے جی میں ٹھان لیں تو دنیا کا ہر کام کر سکتی ہیں۔ امریکی صدارت کے امیدوار بارک اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دنیا بھر کی خواتین کو یہی پیغام دیا جس کی تخلیق درحقیقت محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے کی تھی اور جسے انہوں نے آخری دم تک حرز جاں بنائے رکھا تھا۔
وہ دنیا کی سب سے پہلی منتخب خاتون تھیں، جو ایک مسلم ریاست کی حکومت کی سربراہ بنیں۔ اپنے پہلے دور حکومت میں وہ دنیا کی کم عمرترین سربراہ حکومت بھی تھیں۔ انہیں دنیا بھر میں شہرت اور مقبولیت حاصل تھیں اور دنیا کے تمام براعظموں میں ان کا نام گونجتا تھا۔ وہ نوجوان تھیں۔ خوبصورت تھیں اور ان کے پاس دولت کے ساتھ ساتھ علم کی دولت بھی تھی۔ اگر وہ چاہتیں تو دنیا کے کسی بھی حصے میں رہ کر ایک پرآسائش اور آرام دہ زندگی بسر کر سکتی تھیں جہاں ان کی زندگی اپنے چاہنے والے اور پسندیدہ افراد کے درمیان گزر سکتی تھی جنہیں وہ کام کے دوران ہمیشہ یاد کیا کرتی تھیں لیکن بقول ان کے یہ ان کی تقدیر میں نہیں تھا۔ اپنی خود نوشت سوانح عمری ”دختر مشرق“ میں وہ لکھتی ہیں۔
”میں نے اس زندگی کو اپنے لئے منتخب نہیں کیا بلکہ اس زندگی نے خود مجھے اپنے لئے منتخب کیا ہے“ آمریت کے خلاف اپنی جمہوری جدوجہد کے دوران دو حکومتوں کی سربراہی کرتے ہوئے یا پھر اپوزیشن لیڈر کا کردارادا کرتے ہوئے انہوں نے بھول کر بھی نہ کسی بات کی شکایت کی۔ نہ ہی اظہار افسوس کیا اور نہ ہی تلخ کلامی سے اپنے لہجے کو آشنا کیا۔ وہ خود ترحمی کو ضائع شدہ توانائی سمجھتی تھیں ان کا خیال تھا کہ اس طرح ہماری قوم خود رحمی کا شکار ہو کر اپنی منزل مقصود سے دور ہوتی چلی جائے گی۔ انہوں نے صورت حال کو جوں کا توں کبھی قبول نہیں کیا۔ وہ ہمیشہ نت نئے خیالات تجربات کرتی رہیں اور ہمیشہ بیرون ملک ان ماڈلز کا جائزہ لیتی رہیں جن کا اطلاق پاکستان کی معیشت ، سیاست اور اقتصادیات پر ممکن ہو سکتا تھا انہوں نے عسکریت پسندوں کی بھی خوب خوب خبر لی جو ہمارے دین اور مذہب کو اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے مذہبی انتہا پسندی کے جواب میں جمہوریت، تحمل اور برداشت۔ خواتین کے حقوق، ٹیکنالوجی اور جدت پسندی کی اہمیت اور افادیت کو واضح کیا۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹونے کبھی اپنے لئے آواز بلند نہیں کی۔ نہ ہی انہوں نے ان مقدمات کے بارے میں کوئی شور و غل مچایا جو ان کے اور ان کے افراد خانہ کے خلاف آمروں نے اس لئے قائم کئے تھے کہ اس طرح انہیں پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد کی ایک بڑی علامت کو سرے سے ختم کر دینے کا جواز مل سکے گا!!!! عوام انہیں دل سے چاہتے تھے چنانچہ ان کے سیاسی مخالفین بسا اوقات ان کے خاندان اور احباب کو تنقید اور نکتہ چینی کا نشانہ بناتے رہتے تھے۔ وہ ایک ایسی خاتون کو مشکلات اور مسائل میں مبتلا کرنا چاہتے تھے جو اپنی جنگ خود ہی لڑنے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھی۔ یہی سبب ہے کہ وہ ہمیشہ انہیں مشتعل کرنے کی کوشش میں مصروف رہا کرتے تھے۔ اپنی آخری تقریر میں انہوں نے پاکستانی عوام کے لئے یہ پیغام دیا ہے کہ ”تم کتنے بھٹو مارو گے۔ ہرگھر سے بھٹو نکلے گا“ یہ کہہ کر دراصل وہ اپنے وطن عزیز کے عوام کو یہ سمجھانا چاہتی تھیں کہ بالآخر پاکستان میں ایک نہ ایک دن جمہوریت، مساوات اور جدیدیت پسندی کا بول بالا ہوگا۔ وہ کہنا چاہتی تھیں کہ انصاف ایک نہ ایک دن ہو کر رہے گا۔ انہوں نے کہاکہ تھا ” جو کچھ ہو چکا ہے، اس کے باوجود، وقت۔ انصاف اور تاریخ کی قوتیں ہمارے شانہ بشانہ ہیں ان کی یاد میں ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ ان کے کہے ہوئے اس جملے کو صحیح اور درست ثابت کر کے دکھا دیں۔