8جنوری کے روزنامہ جنگ میں کالم نگار ہارون رشید صاحب نے مجھ پر پے در پے بہت سے سنگین الزامات لگا دئیے ہیں اور ان کو ضبط تحریر میں لانے سے پہلے میری طرف رجوع کر کے ان کی صداقت جاننے کی کوشش بھی نہ کی تا کہ میں انکی غلط فہمیوں کو دور کر سکتا۔قبلہ نے کچھ دیگر کی طرح مابعدمیڈیا پر بھی ان الزامات کو شدت سے دہرایا ہے۔
پہلا الزام یہ ہے کہ میں نے "زرداری صاحب سے ان کا مقدمہ لڑنے کے لئے فیس کا مطالبہ کیا اور بصورت دیگر مدد کرنے سے انکار کردیا" جس سے بقول ہارون رشید صاحب وہ یعنی زرداری صاحب حیرت زدہ رہ گئے۔حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنے بہت سے سیاسی ساتھیوں کے مقدمات کی پیروی کی ہے۔ وہ نوید قمر ہوں،صفدر عباسی ہوں، آفتاب شعبان میرانی ہوں ، بینظیر شہید ہوں یا یوسف رضا گیلانی کسی سے فیس کا مطالبہ نہیں کیا۔ زرداری صاحب سے کیونکر کرتا؟ یہ بھی واضح رہے کہ جب میں زرداری صاحب کے مقدمات کی پیروی کر رہاتھا) جس میں معروف انہڑ کیس بھی شامل تھا( تو میرے پاس ان کی ہمشیرہ محترمہ ڈاکٹر عذراصاحبہ بریف کیس میں بھاری فیس لے کر آئیں۔ بریف کیس کو میں نے کھولے بغیر واپس کر دیا اور زرداری صاحب کے مقدمات بدستور لڑتا رہا اور ان کو ان میں بری بھی کروایا۔1997میں جب نئے مقدمات کا اجراء ہوا تو میں بھی ان کا وکیل تھا اور یہ مقدمات لاہور ہائی کورٹ کے لاہور بنچ کے رو برو زیر سماعت تھے۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی اپنی درخواست پر جس کی پیروی میں نے ہی کی جب سپریم کورٹ نے ان مقدمات کو لاہور سے راولپنڈی منتقل کر دیا تو ان میں لیڈ کونسل راولپنڈی کے جناب بابر اعوان صاحب کو مقرر کیا گیا۔ جبکہ آصف علی زرداری صاحب کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کی ذمہ داری حفیظ پیرزادہ صاحب اور میرے پر ہی رہی۔ لہٰذا 21نومبر 2004ء کو زرداری صاحب کے ایک ٹیلیفون پر اپنے دورہ مصر کو مختصر کر کے بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچ کر میں نے ہی 22نومبر2004ء کو زرداری صاحب کی BMWکیس میں وہ حتمی ضمانت کروائی جس کے باعث وہ جیل سے رہا ہوئے۔ واضح رہے کہ نہ میں نے کبھی فیس کا مطالبہ کیا نہ توقع کی۔نہ ہی وصول کی۔ اس کی گواہی زرداری صاحب کے علاوہ انکی ہمشیرہ بھی دے سکتی ہیں۔
اتفاق کے طور یہ بھی عرض کر دوں کہ یوسف رضا گیلانی صاحب کی ضمانت اور رہائی بھی میری وکالت سے ہوئی۔ان سے بھی پوچھ لیا جائے کہ کیا ان کے کیس میں ان سے میں نے کبھی فیس کا مطالبہ بھی کیا۔ یہاں تک کہ خرچہ بشمول ہوائی ٹکٹ بھی طلب نہ کئے جب کہ اس وقت تو وہ وزیر اعظم نہ تھے۔
جہاں تک فیس کا تعلق ہے میں یقیناً فیس لیتا ہوں اور اکثر اوقات بھاری بھر کم فیس بھی لے لیتا ہوں۔ مگر بزرگوں سے آنکھ کی ایک شرم ورثے میں ملی ہے۔ جس کا پاس رکھتے ہوئے چالیس سال کی وکالت میں سینکڑوں شاید ہزاروں مقدمات ایسے کئے ہیں۔ جن میں کوئی فیس نہیں لی یاواجبی فیس لی ہے۔میرے فیس لینے کے معاملے پر ہی اگر ہارون رشید صاحب جناب عبدالقادر حسن صاحب نذیر ناجی صاحب عارف نظامی صاحب عباس اطہر صاحب پروفیسر عزیزالدین صاحب پروفیسر اعجاز الحسن صاحب جناب خالد چوہدری صاحب فخر زمان صاحب بیگم حبیب جالب صاحبہ منہاج برنا صاحب ملک حامد سرفراز صاحب مختاراں مائی صاحبہ اور سینکڑوں سیاسی کارکنوں سے دریافت کر لیتے کہ ان سے کیا فیس وصول کر چکا ہوں تو معلوم ہو جاتا۔ رضا کاظم صاحب کا کیس تو میں تین ماہ تک اٹک قلعے کے اندر لڑتا رہا۔ کیا فیس لی ان سے ہی دریافت کر لیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اگر فیس لی ہوتی تو شاید میں ان کے رو برو پیش ہونے سے گریز بھی نہ کرتا۔ جس گریز سے مجھے یقیناً مالی نقصان تو ہے لیکن میرا ضمیر مجھ سے مطمئن ہے۔البتہ چیف جسٹس اور جسٹس وجیہہ الدین سے ایک ایک سو روپے کے چیک وصول کئے جو کیش نہیں کرائے۔
اب آئیے LPGکوٹے پر۔ مجھے علم نہیں کہ کن بنیادوں پر کسی دوسرے شخص نے کوٹہ لیا ہے۔ میں حلفاً یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کسی حکومت سے LPGیا کسی اور قسم کا کوئی اور کوٹہ یا مراعات نہیں لیں۔ میں تو زیادہ عرصہ اپوزیشن کا رکن رہا ہوں اور وہ بھی بھرپور انداز سے۔اگر کوئی کوٹہ یا مراعات لے بھی لی ہوتی تو بعد میں آنے والی حکومتوں نے منسوخ کر دئیے ہوتے۔ظاہر ہے یہ الزام ہارون رشیدصاحب سنی سنائی پر ہی لگایا ہے۔کیونکہ وہ فرماتے ہیں"آپ کا کوئی دوست کسی اور کا دوست ہوتا ہے اور وہ کسی اور کا"اس طرح بات عیاں ہو جاتی ہے۔ہارون صاحب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر الزام لگائیں۔
دونوں مرتبہ جب محترمہ شہید کی حکومتیں گرائی گئیں۔ تو ان پر اور ان کے ساتھیوں پر LPGکوٹہ کی فراہمی اور وصولی کے متعلق باقاعدہ الزامات لگائے گئے۔پہلی مرتبہ روئیداد خاں صاحب کی سربراہی میں احتساب سیل اور دوسری مرتبہ فاروق لغاری اور سینٹر سیف الرحمن کے وسیلے سے ان الزامات پرمبنی متعدد ریفرنس داخل کئے گئے۔ تفتیش کے بعد سب آلاٹیوں اور بے نامی داروں کے نام لئے گئے مگر میرا نام کہیں بھی نہیں آیا۔ حالانکہ میں اس زمانے میں شدت سے صدر اسحاق خان وزیر اعظم نواز شریف صدر فاروق لغاری اور سینٹر سیف الرحمن کی مخالفت کرتا رہا اور اپوزیشن میں سینہ تان کر پیش پیش رہا۔ میں نے کوئی کوٹہ لیا ہی نہ تھا لہٰذا مجھے کسی کا ڈر نہیں تھا۔میری تقاریر آج تک سب سے تندو تیز تھیں۔
2001ء میں مشرف حکومت کی پالیسی کے تحت LPGکا کاروبار مکمل طور پر نجی شعبے کو دے دیا گیا۔ اب یہ کاروبار کسی کوٹے کا مرہون منت نہ رہا۔اب LPGکے کاروبار سے حکومت کا عمل دخل یکسر ختم ہو گیا حکومت صرف قیمت مقرر کرتی تھی جیسے پٹرول اور ڈیزل کے نرخ۔یہ بات انتہائی اہم ہے کیونکہ اس تاریخ کے بعد LPGکی ایجنسی لینا ایسے ہی تھا جیسے کوئی میاں منشاء صاحب سے سیمنٹ کی ایجنسی یا شیرازی صاحب سے موٹر کار کی ایجنسی یا پٹرولیم کمپنی سے پٹرول پمپ حاصل کر لے۔ اس دوران میرے سکول کے ساتھی اور بزنس مین اقبال زیڈ احمد نے پلانٹ لگایا اور میری بیوی جو کہ سرکاری نوکری سے حال ہی میں ریٹائر ہوئی تھی کہا کہ اگر وہ LPGکی تقسیم کاری میں کچھ مہارت حاصل کر لے اور اپنے وسائل سے LPGسٹوریج پلانٹ لگا لیں تو وہ 20یا 30ٹن LPGکی فراہمی کا معاہدہ کرنے کو تیار ہوں گے۔لہٰذا میری بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پلانٹ کی لاگت میں بچت کی خاطر میری بیوی نے یہ پلانٹ میرے آبائی اور موروثی رقبہ واقع موضع منگووال ضلع گجرات میں لگایا اور کمپنیزسے ان کی مکمل شرائط پر 20ٹن LPGکا معاہدہ کیا۔
اس وقت میرا سرکار پاکستان پرقطعاً کوئی اثرو رسوخ نہ تھا بلکہ پہلے تو میں اسمبلی میں اپوزیشن کا ایک انتہائی سرگرم ممبر تھا اور بعد میں چیف جسٹس پاکستان کا وکیل اور ان کو ملک بھر میں ڈرائیو کر کے لیجانے والا شخص ۔دوسروں کے علاوہ میرے اس باغیانہ انداز نے پرویز مشرف کو دیوار سے لگا دیا۔اگر میں نے کوئی کوٹہ لیا ہوتا جس کا الزام ہارون رشید مجھ پر لگاتے ہیں تو میری کیا مجال تھی کہ میں پرویز مشرف سے ٹکرلیتا یا جو وزارت عظمیٰ وہ مجھے طشتری پر رکھ کر دینے کو تیار تھا اس سے انکار کرتا؟ مجھے علم نہیں کہ دیگر بااثر شخصیات سے مذکورہ کمپنی کے معاہدے کب اور کیسے ہوئے میری حد تک تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ میرا حکومت میں کوئی اثر و رسوخ نہیں تھا بلکہ میں تو حکومت کا باغی اور معتوب تھا۔
اسی بغاوت کے دوران جون 2008ء وکیلوں اور عوام نے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا۔جس کی قیادت میں نے کی اور جس کے اختتام پر دھرنا نہ دینے کے بارے میں ہارون رشید صاحب نے بہت کچھ کہہ دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ گو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے ساتھی لانگ مارچ کے اختتام پر دھرنے کا اعلان کرتے رہتے تھے۔ لیکن اس تجویز کو 17مئی 2008ء کو ہونے والی آل پاکستان نمائندہ وکلاء کی کنونشن نے منظور نہیں کیا تھا)اس کے برعکس 24جنوری2009ء کو یہ فیصلہ کر لیا گیا(۔
جون کا مہینہ کسی صورت بھی پارلیمنٹ کے باہر ایک سپاٹ اور بے سایہ پریڈ گراؤنڈ پر لا متناہی دھرنا دینے کا موقع یا موسم ہی نہیں تھا۔ہم جانتے تھے کہ 15جون کے دن 16گھنٹے تیز دھوپ ہو گی۔ اس میں دھرنا دینے والوں پر بے رحم انداز میں سورج برستارہے گا ۔ کالے کوٹوں میں ملبوس وکلاء کے لئے یہ شدت برداشت کرنا ممکن نہ تھا۔ اس صورت حال سے مضطرب ہو کر یقینا ان سیاسی جماعتوں کے کارکن اور چند زیادہ جذباتی وکلاء پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ پر حملہ کر دیتے ۔ نتیجتاً منیر ملک جسٹس طارق محمود علی کرد اور میرے پر تو فوجداری مقدمات ہونا ہی تھے۔ہم تو عادی ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہوتی کہ ایسے کسی بد نما واقعہ کے بعد خود چیف جسٹس پاکستان پر مبینہ اعانت کے جرم میں FIRکاٹی جاتی اور پھر ہم سب سیشن جج اسلام آباد کی عدالت میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کو پیش کر کے ان کی ضمانت کرا رہے ہوتے۔ ایسے مرحلے کے بعد بحالی کس طرح ممکن ہوتی؟ہمیں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ لانگ مارچ میں عورتوں اور بچوں کی کثیر تعداد نے بھی حصہ لیا اور پریڈ گراؤنڈ میں موجود تھے ان سب کو بخیرو عافیت گھر پہنچا دینا کیسے جرم ہوا ؟دو تین لاکھ کے مجمعے کو جمع کر کے دنیا کے سامنے اخلاقی طور پر گنتی کروا کر وکلاء تحریک کے بنیادی اصولوں کے تحت پر امن طور پر منتشر کر دینا کہاں کا جرم ہے؟جو لوگ خون خرابہ چاہتے تھے اور فوج کی مداخلت سے جمہوریت کے خاتمے کی توقع کرتے تھے وہ یقیناً مایوس ہوئے اور جب میں نے مختلف اضلاع کے دورے کر کے ساتھیوں کو حقائق سے آگاہ کیا تو سب مان کر پھر صف آرا ہو گئے۔ اور سب جلد ہی مان گئے کہ یہ بہترین فیصلہ تھا۔ اگر ہم اس جنگ کو قبل از وقت انتہا پر لے جاتے تو شکست یقینی تھی مگر ہم نے گرم موسموں میں بھی ٹھنڈے مزاج سے سوچا۔
جہاں تک اونٹ اور خیمہ کا حوالہ دے کر اور منافع خوری کا ذکر کر کے ہارون رشید صاحب نے مجھ پر لالچ اور موقع پرستی کے الزامات لگائے ہیں۔ وہاں میں یہ عرض کر دوں کہ دیگران کے علاوہ حامد میر گواہ ہیں کہ جنرل مشرف مجھے چیف جسٹس سے علیحدہ کرنے کے لئے کس شدت کے ساتھ وزیر اعظم بنانے کو تیار تھے۔میں نے موقع پرستی نہ کی۔2008ء کا الیکشن آیا تو میں پیپلز پارٹی اورن لیگ کا متفقہ امیدوار تھا اور اسمبلی میں میرے لئے داخل ہونا آسان ترین تھا مگر میں نے وکلاء تحریک کو ٹھیس نہ پہنچائی۔ کیونکہ ساتھیوں کا خیال تھا کہ میرے ایسا کرنے سے یہ منتشر ہو جائے گی۔ اور اگر میں لالچی ہوتا تو تقریباً 2سال ڈوگر عدالت اور ہائی کورٹس میں پیش ہونے سے گریز کی پاداش میں بیش بہا فیس واپس نہ کرتا۔ لالچی ہوتا تو میرے لئے بہترین تھا کہ میں ازخود چیف جسٹس آف پاکستان کے رو برو پیش ہونے سے اجتناب کا اعلان نہ کرتا۔اور بیش بہا فیس وصول کرتا رہتا۔ اطہر من اللہ اور میں دو ہی وکیل ہیں جو اس بات پر قائم ہیں۔
آخر میں ہارون رشید صاحب سے گزارش ہے کہ اس قدر کڑوا اور حقائق کے برعکس کالم لکھنے اور اس شد و مد کے ساتھ میڈیا پر میرے خلاف الزام لگانے سے پہلے بندہ معتوب سے دریافت ہی کر لیتے کہ اس کا موقف کیا ہے۔میں کالم نویسی کے آداب تو ان کو بتانے سے رہا مگر یاددہانی تو کروا سکتا ہوں۔