پاکستان کی سلامتی اور دفاع کو جو آج شدید خطرات لاحق ہیں ان کی بنیادی وجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جنرل مشرف نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کیا۔ آج یہی فیصلہ افغانستان کی تباہی اور پاکستان کو کمزور اور غیر محفوظ بنانے کا سبب بن رہا ہے اگر اکتوبر 2001ء میں جنرل مشرف امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے کیلئے اپنے ہوائی اڈے، بندر گاہ اور لاجسٹک و انٹیلی جنس سپورٹ مہیا نہ کرتے تو امریکی کبھی بھی افغانستان پر حملہ نہ کرپاتا۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ہی مارچ 2003ء میں عراق پر امریکہ کو حملہ کرنے کی شہ ملی جبکہ اس کے بعد اب پاکستان اور ایران کو ہدف پر رکھ لیا گیا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان کو کمزور اور مفلوج کیا جائے اس کا خیال ہے کہ افغانستان میں امریکی قبضہ بھی شاید پاکستان ہی کی وجہ سے مستحکم نہیں ہو رہا اور نہ ہی پاکستان کی طاقتور حیثیت کی وجہ سے وہ اسپین کا گھیراؤ کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ بھارت کو خطہ میں بالادست حیثیت دینا چاہتا ہے جبکہ مضبوط اور متحد پاکستان بھارت کی اس بالادستی کیلئے چیلنج ہے۔ 81برس تک افغانستان میں تباہی و بربادی پھیلانے کے بعد اب اس جنگ کو پاکستان کے اندر دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ درحقیقت یہ ایک طے شدہ منصوبہ بندی ہے کہ کس طرح سے افغانستان کے بعد پاکستان کو نشانہ بنایا جائے گا۔ پاکستان کو توڑنا یا کمزور کرنا اوپر کئے گئے تجزیئے کے مطابق امریکہ کی انتہائی ضرورت اور شدید خواہش ہے۔امریکہ پاکستان کا مختلف سمتوں سے گھیراؤ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ صوبہ سرحد میں امریکی ڈرون حملوں سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ صوبہ سرحد کے اندر بھی امریکی فوج اتارنے کی کئی مرتبہ کوشش کی گئی تاہم صوبے کا اسلامی مزاج اور جہادی کلچر آڑے آ رہا تھا۔ اس لئے صوبے میں امریکی فوج کو اتارنے کے فیصلے کو موخر رکھا گیا… صوبہ بلوچستان کے اندر امریکی فوج اتارنے کی سازش بتدریج آگے بڑھ رہی ہے۔ علاوہ ازیں بھارت بھی صوبے کے حالات خراب کرنے کیلئے مقامی ایجنٹوں کے ساتھ مل کر تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہے تاہم اسلامی اور جہادی قوتوں کی شدید مزاحمت اور بلوچستان کے عوام کے شدید ردعمل کے امکانی خطرے کی وجہ سے ابھی تک امریکہ کو فوج اتارنے کا حوصلہ نہیں ہوا لیکن یہ ضرور ہے کہ امریکہ اور بھارت مقامی ایجنٹوں کے تعاون سے صوبے کے حالات کو خراب سے خراب تر کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں تاکہ آگے چل کر وہ فوج اتارنے کی منصوبہ بندی پر عمل کر سکیں۔
صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں امریکی فوج اتارنے کی سازش گو کہ اب تک ناکام ہے تاہم کراچی میں فوج اتارنے کی امریکی سازش نے کافی سنجیدہ اور تشویشناک صورتحال اختیار کرلی ہے۔ گوادر سے کراچی تک کی بندرگاہیں اور ساحلی پٹی امریکہ کیلئے بہت اہم ہے۔ کراچی کا محل وقوع، آبادی، معیشت، کاروبار، سرمایہ کاری کے مواقع، وسائل، فضائی اور بحری راستوں کی اہمیت سے بھی امریکی بخوبی آگاہ ہیں۔ کراچی میں ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے ساتھ تشدد اور تخریب کاری کو جاری رکھا گیا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ سمیت فیکٹریوں اور مارکیٹوں کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ آگ لگائی جا رہی ہے۔ لیاری میں بہایا جانے والا خون اور ایم اے جناح روڈ پر جلائی جانے والی مارکیٹوں کے حالیہ واقعات اس سازش کو بے نقاب کرنے کیلئے کافی نہیں جبکہ امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن کا دورہ کراچی کے دوران سفارتی آداب سے ہٹ کر بعض ”ناپسندیدہ“ ملاقاتیں کرنا مزید اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی سازش کو کامیاب کرنے کی کوشش تیز تر کر دی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ صدر بش کے دور میں نائب وزیر خارجہ نیگرو پونٹے اور صدر اوباما کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے بھی کراچی کے دورے کئے تھے۔ امریکی سفیر کے دورہ کراچی کے بعد برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کا دورہ کراچی اور اس دوران دیا جانے والا بیان پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ برطانوی وزیر خارجہ کے بیان کے بعد بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اور وہ یہ کہ کراچی کے حالات کو جواز بنا کر امریکی فوج اتارنے کی سازش کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پھاٹک کھولا جا رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے مزید کچھ واقعات رونما ہوں گے اور پھر ان واقعات کی آڑ میں مزید پیش قدمی کی جائے گی۔ ایک عرصے سے کراچی میں لسانی فسادات اور فرقہ وارانہ ہنگامے کرانے کی بھی کوشش کی گئی تاہم محب وطن لسانی اکائیوں اور علمائے کرام نے انتہائی تدبر، تحمل اور برداشت کے ساتھ ان تمام سازشوں کو ناکام بنادیا مگر اس کے باوجود ”کراچی کو طالبان سے خطرہ ہے“ کا نعرہ کہیں نہ کہیں سے ضرور گونجتا رہا جب یہ خطرہ بھی کہیں نظر نہ آیا تو مارکیٹوں کو آگ لگانے کا عمل اور ٹارگٹ کلنگ کرنا شروع کر دی گئی اور پھر فوج سے اپیل کی گئی کہ وہ کراچی کے حالات سنبھال لے جس پر وزیر داخلہ رحمن ملک کا بیان آیا کہ ”ابھی فوج کی ضرورت نہیں، رینجر سرجیکل آپریشن کریں گے“ یہ دونوں بیانات بھی کسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتے ہیں۔ امریکی و برطانوی سفارتکار اور ان کے اتحادی فی الحال وہ ماحول تیار کرنے میں مصروف ہیں کہ جس کے بعد امریکی فوج کو کراچی میں اتارنے کیلئے ٹھوس دلائل اور قابل ذکر جواز مل سکے۔