صبح کے چھ بجے کا وقت تھا۔ میرے بستر سے ملحق میز پر رکھے ہوئے آئی فون سے ٹن کی آواز آئی۔ نیند سے نیم مخمور آنکھوں سے آئی فون پر نظر جمائی لاہور سے میرے دوست توقیر عباس کی طرف سے ایک ویڈیو پیغام تھا۔ جس میں لاہور میں حالیہ دہشت گردی سے26افراد کی شہادت اور متعدد زخمیوں کی حالت زار کو فلم بند کیا گیا تھا۔ دکھ تو ہوا، مگر صدمے کی شدت کا لیول وہ نہ تھا۔ جو اسی قسم کے صدمے کا برطانیہ یا دوسرے یورپی ممالک میں رونما ہونے سے ہوتا ہے۔ ایسا ہونے میں فطرتاً نفسیاتی پہلو کا کردار بھی ہے۔ جو واقعہ کبھی کبھار وقوع پذیر ہو۔ وہ ایک سنسنی خیز خبر ہوتی ہے اور جب یہ بار بار دہریا جائے تو صرف خبر رہ جاتی ہے اور سنسنی کا لفظ حذف ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ آج کل ہمارے ساتھ ہورہا ہے۔ ہر روز اسی قسم کی خبریں آتی ہیں۔ پشاور میں، کوئٹہ میں، پاراچنار میں، کراچی میں تو روزانہ کا معمول ہے۔ خبر پڑھتے یا سنتے ہیں اور جلد ہی بھول جاتے ہیں۔ لاہور کی خبر سے ذرا دکھ اس لیے ہوا تھا، ایک تو یہ یہاں پر ایسے حادثات اکا دکا ہی ہوتے ہیں۔ دوسرے اس شہر کو پاکستان کا دل، داتا کی نگری، زندہ دلان لوگوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پاکستان کے وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے گھر ہیں اور یہ بھی کہ میرا گھر بھی یہیں ہے۔ میرا دوست توقیر عباس بھی عجیب شخص ہے۔ واٹس ایپ کے ذریعے ویڈیو کلپس بھیجتا ہی رہتا ہے۔ لاکھ کہا کہ اللہ کے بندے یہ نہ بھیجا کرو۔ ہم کو پاکستان چھوڑے نصف صدی گزر چکی ہے؟ ہمارا گھر، وطن، یہ نیا ملک ہی ہے۔ ہمارا جینا مرنا اسی ملک میں ہے۔ ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل اب یہ ملک برطانیہ ہی ہے۔ ویسے بھی زندگی کے بے شمار مسائل ہیں اور اوپر سے تم پاکستان کی ایسی ویسی خبریں بھیج کر دل جلانے کی بات کرتے ہو۔ دل تو یقیناً جلتا ہے۔ جب پاکستان بنا۔ میں پانچ برس کا تھا۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے لاہور پہنچے، پہنچنے والے خوش قسمتوں میں ہم بھی ایک تھے۔ وگرنہ ہمارے قافلے کے آدھے لوگوں کو تو راستے ہی میں ہندو ؤںاور سکھوں نے تہ تیغ کر دیا تھا۔ گو عمر کم تھی مگر میرے ننھے سے ذہن میں وہ منظر آج بھی موجود ہیں کہ ہمارے قافلے پر حملہ کرکے کافر کس طرح نوجوان بچیوں کو چھین کر لے گئے تھے یہ منظر مجھے بھولے نہیں بھولتا کہ ہمارے محلے کی ایک لڑکی، جس کا تین سالہ بچہ بھی تھا۔ اس لڑکی کو ایک سکھ نے دبوچ لیا اور اپنے ساتھ لے جارہا تھا اور اس کا تین سالہ بچہ ماں، ماں کہتا ہوا اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ اس سکھ نے اس بچے کو زخمی کرکے گرادیا اور چیختی چلاتی ماں کو لے کر چلا گیا۔ بچے کی دادی نے خون سے لت پت بچے کو اٹھایا میں نے اس کی مدد کی۔ آگے کچھ دور کورائی شہر کا کیمپ تھا کچھ طبی امداد مل گئی اس طرح وہ بچ گیا۔ جب توتلی زبان میں وہ اس واقعہ کا ذکر کیا کرتا تھا، تو سب لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے تھے۔ اس کی ماں کا تو آج تک کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ اس کا کیا ہوا۔ مگر وہ بڑا ہوکر فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک پہنچ گیا تھا اور1971میں مشرقی پاکستان کی لڑائی میں شہید ہونے والے نوجوانوں میں سے ایک وہ بھی تھا ہم لوگ یہ باتیں بھول نہیں سکتے اور نہ ہی ہندو اور سکھوں کو گلے لگا سکتے ہیں بات کہاں سے کہاں نکل گئی پچھلے ہفتے توقیر نے مجھے ایک ویڈیو بھیجا تھا، جس میں ہمارے ملک پاکستان میں وکالت کے پیشے سے منسلک، مشہور و معروف خاتون اپنے خاوند کے ہمراہ ہندوستان گئی اور دشمن اسلام آر ایس ایس کے لیڈر اور مودی صاحب سے ملاقات میں اس نے اسی آرگنائزیشن کے ہندوانہ گیروے رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے خاوند نے تو حد ہی کردی۔ گلے میں ہندوئوں کی طرح مالا، ماتھے پر گیروے رنگ کا بڑا سا ٹیکا، سادھوئوں کی طرح گیروے رنگ ساڑھی زیب تن کر رکھی تھی۔ بنارس کے ہندو سادھوئوں کی طرح کا حلیہ بنا رکھا تھا اور دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر ہندوانہ انداز میں گاندھی جی کی فوٹو کو سلام کررہے تھے۔ جیسے وہ لوگ پرنام کرنا کہتے ہیں۔ یہ ویڈیو دیکھ کر میرے دل پر جو گزری بیان سے باہر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رہتے پاکستان کی زمین پر، کھاتے پاکستان کا ہیں، عزتیں ان کو پاکستان کے عوام نے دی ہیں اور گن گاتے ہیں ان لوگوں کے، جو نہ صرف پاکستان کے لوگوں، بلکہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے بھی ازلی دشمن ہیں۔ ہندوستان کی حکومت کشمیر میں ہمارے مسلمان بھائیوں کو شہید کررہی ہے اور پاکستان کے اندر اپنے ایجنٹ بھیج کر دہشت گردی پھیلا رہی ہے اور ہم ہیں کہ بے غیرتی سے صرف اور صرف اپنے ذاتی مقاصد کے لیے پیار کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ مگر یہ بھی ایک بات ہے۔ ہم ہندوستان کو برا بھلا تو کہہ رہے ہیں، لیکن بقول شخصے:
’’پیسہ کھوٹا اپنا، بنیے کو کیا دوش‘‘
یہ جو لاہور میں دھماکہ ہوا ہے، اس کا کرنے والا کوئی سکھ یا ہندو تھوڑی ہی تھا، یہ تو کوئی اپنا ہی مسلمان بھائی بند تھا۔حالیہ دنوں میں میرے پاس ایک ویڈیو آیا ہے۔ منظرنامہ کچھ یوں ہے یہ ہندوستان کے ٹیلی ویژن کا پروگرام ہے۔ اینکر سامنے بیٹھے ہوئے ہندوستان کے جاسوسی کے محکمے ’’را‘‘ کے جنرل منیجر، ہندوستان کی فوج، ایئر فورس اور نیوی کے نمائندوں اور دیگر آفیسر جن میں میجر کرال، کرنل ایم ایم رائے، اکشے کمار، آنی کرشنن اور رام سروپ نامی لوگوں سے شکایت کررہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھیجے گئے دہشت گردوں نے ہمارے کتنے بہادر نوجوانوں کو شہید کیاہے اور ہم لوگ اپنے شہیدوں کے متعلق نغمات گا رہے ہیں۔ بدلہ لینے کے بیانات دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ دس سال سے جاری ہے، مگر حال یہ ہے کہ آج بھی پاکستانی ہماری دھرتی پر حملے کررہے ہیں۔ حالات جوں کے توں ہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑا۔ کوئی کامیابی، کہیں نظر نہیں آرہی۔ آخر وہ دن کب آئے گا جب ہماری سینا، ان دہشت گردوں کو روک سکے گی اور پاکستانی فوج کو شکست سے دوچار کرسکے گی۔ مختلف مبصرین نے اپنے اپنے تجربے اور علم کے مطابق جواب دیے، مگر ایک جنرل کا جواب توجہ طلب ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی فوج پاکستان کی فوج سے تین گنا ہے۔ جنگی ساز اور سامان چار گنا ہے۔ ٹیکنالوجی میں بھی ہم آگے ہیں۔ پاکستانی فوج ہمارے لیے کوئی پرابلم نہیں۔ میدان جنگ میں ہم ان سے خوب نمٹ سکتے ہیں۔ پرابلم دہشت گردی کا ہے۔ وہ عوام میں گھل مل کر رہتے ہیں۔ پاکستانی عوام میں وہ مقبول ہیں۔ پاکستانی فوج اور وہاں کی نیشنل لیڈر شپ انہیں سپورٹ کرتی ہے۔ اس کی مدافعت میں جیسا کہ ہر سچویشن میں حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹراٹیجی بنانا پڑتی ہے، سو ہم نے وہ بنا رکھی ہے اور اس میں ہم کامیاب ہیں اور دھیرے دھیرے جنگ جیت رہے ہیں۔ اس میں پہلی بات یہ ہے کہ لائن آف کنٹرول کو گرم رکھو۔ جس پر عمل ہورہا ہے۔ دوسری لائن آف ایکشن یہ ہے کہ اپنی فوج کے نوجوانوں کو جنگ میں ملوث کیے بغیر ان دہشت گردوں کو ان کے اپنے ہی گھر میں مارا جائے۔ رہی پاکستانی فوج، جیسا کہ کہاوت ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ اس فوج کو ان کے اپنے دیس ہی کے اندر، اپنے ہی لوگوں سے ٹھکوایا جائے۔ فوج اور عوام میں نفرت کا بیج بو کر دوریاں پیدا کی جائیں۔ ان سب کے لیے ہمیں فزیکلی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں آسانی سے ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو پیسہ لے کر یہ کام کردیتے ہیں۔ اس طرح ہم بغیر لڑے جنگ جیت سکتے ہیں اور جیت رہے ہیں۔ اس پر فوراً اینکر پرسن نے سوال کردیا۔ آپ کس اعتماد پر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان کے اندر کچھ لوگ پیسے لے کر اپنے ہی عوام اور اپنی ہی فوج کے خلاف یہ اقدام کرسکتے ہیں۔ جنرل طنزیہ ہنسی ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ پاکستانی لوگ پیسے کے لیے سب کچھ کرسکتے ہیں۔ کیا آپ کو امریکہ کے ایک جنرل کا پریس کانفرنس میں دیاگیا وہ بیان یاد نہیں کہ پیسے کے لیے تو پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں۔ اس پر پروگرام میں شامل افراد کی طرف سے ایک قہقہہ بلند ہوتا ہے اور ویڈیو ختم ہوجاتی ہے۔