پاکستان بھر میں ہر سال گیارہ اگست غیر مسلم اقلیتی برادری کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ، گیارہ اگست کو اقلیتوں کا قومی دن قرار دینے کا مقصد درحقیقت قیامِ پاکستان سے چند روز قبل گیارہ اگست 1947کو آئین ساز اسمبلی سے کی جانے والی بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اس تقریر کے پیغام کو اجاگر کرنا ہے جس میں انہوں نے نوزائیدہ مملکت پاکستان میں بسنے والوں کو مکمل آزادی فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق میسر ہوں گے اور ریاست کو ان کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہو گا۔اگر ہم قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کا بغور مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سرزمین پاکستان میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بستے ہیں اور وہ تمام شہری پاکستانی ہیں ،میں نے متعدد مواقع پر نشاندہی کی ہے کہ آئین ِ پاکستان کے تناظر میں لفظ اقلیت کی بجائے غیر مسلم کا لفظ استعمال کیا جانا چاہیے کیونکہ اقلیت لفظ بذاتِ خود ایک تنگ نظری پر مبنی مائنڈ سیٹ کو ظاہر کرتاہے، ایک اور بڑی غلط فہمی قومی پرچم کے حوالے سے پائی جاتی ہے کہ سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ غیرمسلموں کی عکاسی کرتا ہے، درحقیقت ہمارے قومی پرچم میں سبز رنگ پاکستان کی سرسبزیت ہریالی خوشحالی جبکہ سفید رنگ ملک میں بسنے والے تمام باشندوں کیلئے امن و سلامتی کی علامت ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملک کی تقریبا ایک چوتھائی آبادی (لگ بھگ 23فیصد) غیرمسلموں پر مشتمل تھی جو آج سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بتدریج کم ہوتے ہوئے 3فیصد تک رہ گئی ہے لیکن پاکستان ہندوکونسل سمیت دیگر غیرسرکاری اداروں کی رپورٹس کے مطابق غیرمسلموں کی موجودہ آبادی پانچ سے چھ فیصد پرمشتمل ہے،الیکشن کمیشن کی تازہ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں بسنے والے غیرمسلم اقلیتی ووٹرزمیں ہندوؤں کی تعدادسب سے زیادہ پچاس فیصدپر مشتمل ہے، سرکاری اعداد و شمار میں غیرمسلم آباد ی کو کم ظاہر کرنے کا مقصد مختص کردہ کوٹے میں کمی لاکراستحصال کرناہی ہو سکتا ہے۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تحریک ِ پاکستان کے پس منظر میں جو بنیادی سوچ کارفرما تھی وہ برطانوی جمہوری نظام کے تحت مسلمانوں کو اکثریت کے استحصال سے محفوظ رکھنا تھا لیکن یہ بھی ایک ناقابلِ فراموش حقیقت ہے کہ بانیِ پاکستان اور انکے عظیم ساتھیوں کا مقصد پاک سرزمین میں بسنے والی غیرمسلم اقلیت کے حقوق غصب کرتے ہوئے انہیں احساس عدم تحفظ کا شکار کرنا قطعی نہ تھا۔ قیامِ پاکستان کے فوراََ بعد قائداعظم نے اپنی کابینہ میں غیرمسلم وزراء سرظفراللہ خان اور جوگندرناتھ منڈل کو شامل کرکے یہ پیغام دیا کہ ملکی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے حکومت پاکستان کی نظر میں تمام شہری بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب و عقیدہ مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں،نہ کوئی اکثریت ہے اورنہ کوئی اقلّیت۔گیارہ اگست ہی کے دن قائداعظم کی غیرمسلموں سے ہجرت نہ کرنے کی اپیل کے جواب میں لاتعداد ہندو گھرانوں نے پاکستان کواپنی دھرتی ماتا کا درجہ دے دیا،آج بھی ایک سچے اور محب وطن پاکستانی ہندو کیلئے اپنے وطن پاکستان کی سربلندی کیلئے سردھڑ کی بازی لگانا ایمان کا حصہ ہے۔ قائد اعظم کی کابینہ سے لے کر دورِ حاضر کے سیاسی میدان تک، تعلیم و صحت سے لے کر دفاع وطن تک، نظامِ عدل سے لیکر سائنس اور آرٹس تک ہر شعبے میں غیر مسلم پاکستانی شہریوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے لیکن اسے ہماری تنگ نظری کا نام دیا جائے یاملک دشمن عناصر کی سازش کہ وطن عزیز میں ایک منظم انداز میں غیرمسلم شہریوں کے قومی ترقی میں پرخلوص کردار کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا جارہا ہے، آج بدقسمتی سے نہ تو قائداعظم کی گیارہ اگست کی مکمل تقریر ریڈیو پاکستان کے آرکائیو میں موجود ہے اورنہ ہی آزادی کے موقع پر نشرکردہ قومی ترانہ ،پاکستان کے بیشترتعلیمی اداروں کی درسی کتب میں غیرمسلم اقلیتی برادری کو منفی شخصیت کے طور پر پیش کرکے معصوم ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے، معاشرے کے چند شدت پسند عناصر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے ایک ایسے پاکستان کی تشکیل چاہتے ہیں جہاں غیرمسلم اقلیت خوف و ہراس کے سائے میں زندگی بسر کریں اور اس سلسلے میں مندروں گرجا گھروں پر حملے، ہندو نابالغ بچیوں کا اغوا اور جبری شادی، غیرمسلم کاروباری شخصیات کا اغوابرائے تاوان، بلاسفیمی قوانین کا غلط استعمال اور نصابِ تعلیم میں نفرت انگیز مواد جیسے قابلِ مذمت ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں، افسوس کی بات ہے کہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے اپنے دورِ اقتدار کو طول دینے کیلئے پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی کا زہر گھولنے میںبنیادی کردار ادا کیا ۔ اگر قائد اعظم کے نظریہ پاکستان کی بات کی جائے تو ملک میں دو مکاتب فکر اپنا اپنا مفہوم بیان کرتے نظر آتے ہیں، ایک کا کہنا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو اسلامی مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے تو دوسرے کے مطابق پاکستان کے بانی محمد علی جناح لبرل سوچ کے مالک تھے اور پاکستان کو جدید سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ بالفرض دونوں قابلِ احترام طبقات کی رائے کو انفرادی حیثیت میں مان بھی لیاجائے تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ انسانی تاریخ کی پہلی اور کامیاب اسلامی ریاست پیغمبر اسلام ﷺ نے مدینہ منورہ میں قائم فرمائی تھی جہاں میثاقِ مدینہ کے تحت غیرمسلم شہریوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے معاہدے کرتے ہوئے یکساںمذہبی، سیاسی اور ثقافتی آزادی فراہم کی گئی،اسی طرح دنیا کے تمام مہذب سیکولر ممالک اپنی اقلیتی برادری کو مکمل حقوق فراہم کرتے ہوئے اپنے معاشرے کی بنیادیں عدل و انصاف ، باہمی اخوت اور بھائی چارے پر استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی پاکستان یا سیکولر پاکستان کی بحث سے قطع نظرقومی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ غیرمسلم اقلیتوںکے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے انکی سماجی خدمات کا قومی سطح پر اعتراف بھی کیا جائے۔اگرچہ آئین پاکستان کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں لیکن متعدد مرتبہ نہتے غیرمسلموں کو نفرتوں کا نشانہ بنایا جاچکا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ ہمارے درمیان ہی کچھ ناعاقبت اندیش عناصر ملک و قوم کی عالمی سطح پر بدنامی کا باعث بن رہے ہیں جس کے مضر اثرات پوری قوم کو بھگتنے پڑ جاتے ہیں۔ گیارہ اگست کادن حکومتِ پاکستان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایسی قابلِ عمل پالیسیاں نافذ کرے جس سے اقلیتوں میں احساس تحفظ اجاگر ہوسکے، اس حوالے سے امورِ مملکت میں غیرمسلموں کی بھرپورشمولیت ، غیرمسلم شہریوں کی قومی خدمات کے اعتراف میں حکومتی ایوارڈز کا اجرا اور اہم سرکاری اداروں کی سربراہی اقلیتی برادری کے اہل افراد کو سونپے جانے سے قومی اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکتا ہے، غیرمسلم پاکستانی شہریوں کو اپنے حقیقی نمائندگان پارلیمان میں بھیجنے کیلئے آزاد کشمیر اسمبلی کی طرز پر دہرے ووٹ کا حق دئیے جانے سے جمہوری نظام مضبوط ہوگا، میں سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کی گیارہ اگست کی مکمل تقریر کو نصاب تعلیم کا حصہ بناتے ہوئے اقلیتوں کے قومی دن کے موقع پر ملک بھر میں ایسی تقریبات منعقد کروانی چاہئیں جس میں اقلیتی اور اکثریتی شہری ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے قومی یکجہتی کا مظاہرہ پیش کریں۔ انفرادی سطح پر ہر پاکستانی شہری کو اس عزم کا اعادہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کے خلاف بلاجواز تعصبانہ رویے سے گریز کرتے ہوئے معاشرے میں برداشت، رواداری اور بھائی چارے کی فضاکوبرقرار رکھے گا۔