• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملک کے آبی وسائل میں اضافے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو یقیناً درست سمت میں مثبت پیش رفت ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے گزشتہ روز متعلقہ ذمہ داروںکے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزارت آبی وسائل کو مؤثر اور بامقصد بنانے اورکوششوں کو نئے سرے سے فعال کرنے پر زور دیا۔ وزیر اعظم نے دیا مر بھاشا ڈیم پر فوکس کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔ان کا کہنا تھا کہ آبی وسائل کی نئی وفاقی وزارت کا قیام اسی لئے عمل میں لایا گیا ہے کہ بجلی پر زیادہ توجہ ہونے کی وجہ سے ماضی میں پانی اور اس کی حفاظت کے بندو بست کے معاملات کو خاطر خواہ اہمیت حاصل نہیں ہوسکی۔چیئرمین واپڈا نے اجلاس کے شرکاء کو موجودہ حکومت کے چار برسوں میں شروع کئے گئے آبی منصوبوں پر اب تک ہونے والی پیش رفت کے علاوہ مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ پندرہ برس سے تاخیر کا شکار کچھی کینال پروجیکٹ مکمل ہوچکا ہے جس سے ڈیرہ بگٹی کا 72 ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا۔نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے چاروں یونٹ آئندہ سال فروری سے اپریل تک فعال ہوجائیں گے جن سے 969میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی جبکہ 1410 میگاواٹ بجلی تربیلا فور توسیعی منصوبے سے حاصل ہوگی اور اس کے تینوں یونٹ فروری سے مئی 2018ء تک کام شروع کردیں گے۔اجلاس کو دیامر بھاشا اور داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے بارے میں بھی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔وزیر اعظم نے قومی اہمیت کے ان منصوبوں کو جلداز جلد مکمل کرنے کے لئے ان کی مسلسل نگرانی کی ہدایت کی اور دیامر بھاشا ڈیم کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعے دور کرنے پر زور دیا۔پانی کی کمیابی یقینی طور پر ملک کو درپیش انتہائی سنگین مسائل میں شامل ہے اور اس میں اصل قصور ہمارا اپنا ہے۔ پچھلی سات دہائیوں میں ملک میں صرف دو بڑے ڈیم تربیلا اورمنگلا بنائے گئے ۔ یہ دونوں منصوبے ایوب خان کے دور میں مکمل ہوئے لیکن اس کے بعد نہ کسی جمہوری دور میں کوئی ڈیم بنا نہ کسی فوجی حکومت میں جبکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کے تحت نہ صرف اپنے حصے میں آنے والے دریاؤں پر بلکہ پاکستان کے دریاؤں پر بھی درجنوں ڈیم اس مدت میںبناڈالے ہیں اور نئے منصوبوں پر بھی کام مسلسل جاری ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عالمی اداروں کے مطابق دنیا کے جن 180 ملکوں کو آنے والے برسوں میں پانی کے شدید بحران حتیٰ کہ اس حوالے سے جنگوں کا بھی سامنا ہوسکتا ہے ، پاکستان ان میںچھتیسویں نمبر پر ہے۔ ہمارے موجودہ آبی ذخائر محض تیس دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ عالمی معیارات کے مطابق ہمارے پاس ایک ہزار دنوں کا ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ پاکستان کے بہت بڑے حصے میں بہت کم وقت میں بہت زیادہ بارش ہوتی ہے لیکن پانی ذخیرہ کرنے کی کم صلاحیت کے باعث بیس ملین ایکڑ فٹ سے زائد پانی سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ جبکہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ تیس دن کی ملکی ضرورت کا ذخیرہ بھی محفوظ رکھنا ممکن نہیں ہوگا لہٰذا پانی کے نئے ذخائر کی تعمیربہرصورت ناگزیر ہے۔دیامر بھاشا اور داسو پروجیکٹ کے علاوہ کالا باغ ڈیم پر بھی صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے تحفظات افہام و تفہیم سے دور کرکے ڈیم کی بلندی اور ڈیزائن پر اتفاق رائے پیدا کیا جانا چاہئے۔ بڑے ڈیموں کے علاوہ بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے لئے چھوٹے ڈیم اور جھیلیں بنانے پر بھی غور کیا جانا چاہئے نیز پانی کے منصوبوں کی حفاظت کا بھی قابل اعتماد بندوبست ضروری ہے۔ آزاد کشمیر میں گلپور ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والی کوریائی کمپنی پڑوسی ملک سے ملنے والی دھمکیوں کے نتیجے میں کام بند کرنے پر مجبور ہوچکی ہے اس لئے پانی کے تمام موجودہ ذخائر ، زیرتعمیر منصوبوں اور نئے پروجیکٹس سب کی حفاظت کا مکمل بندوبست یقینی بنایا جانا چاہئے۔

تازہ ترین