بیرسٹر اعتزاز احسن یقینا ایک قابل وکیل ہیں‘ غالباً یہ ان کی پیپلزپارٹی سے سیاسی وابستگی اور اخلاص کا ہی نتیجہ ہے کہ انہوں نے اپنی دانش مندی اور حکمت عملی سے حکومت ‘ حکمرانوں اور عدلیہ کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ اور تنازعہ کو خوبصورت انداز میں نمٹادیا اور چوبیس گھنٹوں میں دو اہم ملاقاتوں کا اہتمام کردیا۔ پہلی ملاقات چیف جسٹس سے وزیر اعظم کی‘ کہ انہوں نے بھری محفل میں اچانک پہنچ کر سب کو حیران ہی نہیں بلکہ پریشان بھی کردیا۔ ظاہر ہے یوں اچانک ملک کے وزیر اعظم پاکستان کا کسی تقریب میں پہنچ جانا بڑی ہی غیر معمولی بات ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جب قدم قدم پر سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات و اہتمام ملحوظ رکھا جاتا ہے‘ ایسے میں اچانک وزیراعظم کا بغیر سیکورٹی کے سپریم کورٹ پہنچ جانا یقینا یہ سب بالکل اچانک نہیں معلوم ہورہا اس کے پیچھے پوری منصوبہ بندی کارفرما ہے اور پھر وزیر اعظم جو چند گھنٹوں پہلے اسمبلی کے فلور پر جو کچھ‘ جس انداز میں کہتے رہے ہیں ان کا یوں اچانک سپریم کورٹ کے اس الوداعی ڈنر میں پہنچ جانا اور سب سے اہم بات یہ کہ انہوں نے ایسا یقینا ایوان صدر کی اجازت سے ہی کیا ہوگا‘ اس میں جناب اعتزاز احسن کا بھر پور کردار نظر آرہا ہے۔ صدر صاحب نے ان سے اس تناؤ کھنچاؤ کے بارے میں ضرور مشورہ کیا ہوگا۔ تب ہی انہوں نے جب محفل پوری طرح سج گئی ہوگی وزیراعظم کو یا ایوان صدر کو مطلع کردیا ہوگا کہ موقع اچھا ہے اب اگر وزیراعظم تشریف لے آئیں توان کی یوں اچانک آمد سے حالات بہتر ہوسکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا بھی ۔ پھر دوسری ملاقات جو وزیراعظم کی دعوت پر وزیر اعظم ہاؤس میں ہوئی یقینا یہ جوابی کارروائی کے طور پر ہوئی جبکہ پہلی ملاقات کے بعد اس دوسری ملاقات کا کوئی جواز نہیں رہتا تھا۔ لیکن چونکہ پہلی ملاقات سے وہ مقصد جو حکومت اور حکمران حاصل کرنا چاہتے تھے نہیں ہوسکا ہوگا۔ اب چیف جسٹس صاحب کا یوں وزیر اعظم ہاؤس پہنچ جانا گویا کہ وہ باقاعدہ کھلے عام دعوت ملنے پر گئے ہیں لیکن جتنے منہ اتنی باتیں۔ کہتے ہیں کہ مارتے کا ہاتھ تو پکڑا جاسکتاہے لیکن کہتے کی زبان نہیں پکڑ سکتے۔ ہفتے کی شام جب حکومت کی جانب سے ججز کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اور ایک شدید بحران نے اچانک ہی جنم لے لیا تو تما م ٹی وی چینلز کے انکر پرسن کی لاکھ کوششوں کے باوجود جناب اعتزاز احسن کہیں دستیاب نہیں ہوسکے تھے اور نہ ہی دوسرے دن وکلاء کے کنونشن میں انہیں تلاش کے باوجود لایا جاسکا تھا لیکن ان سب تلاش وجستجو کے باوجود وہ چیف جسٹس صاحب کی طرف سے جسٹس رمدے کے اعزاز میں دی گئی الوداعی دعوت میں موجود تھے؟یقینا اعتزاز احسن نے ایک مثبت رول پلے کیا اور حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان پڑنے والی دراڑ اور لمحہ لمحہ بڑھتی خلیج کو انہوں نے اپنی دانش مندی سے پاٹ دیا۔ انہوں نے حکومت کو جس طرح سمجھایا بجھایا‘ یہ وہ بخوبی جانتے اور سمجھتے ہوں گے حکمران جو جلتے توے پر بیٹھنے لگے تھے۔ انہوں نے اپنی ساکھ اپنا اقتدار تک داؤ پر لگادیا تھی تو دوسری طرف سپریم کورٹ اپنے اصولی اور آہنی موقف پر ڈٹا رہا۔ ایسے بحران میں اگر یہ کہا جائے کہ چٹکیوں میں نمٹا دیا تو غلط نہیں ہوگا۔ ایوان صدر کے قانونی مشیروں نے تو اپنے مشوروں سے سب کچھ ہی داؤ پر لگانے میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وزیرا عظم پاکستان جو چند گھنٹوں پہلے تک اسمبلی میں اپنے بھر پور جذبات کا اظہار کرچکے تھے‘ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وہ بھی مشیروں کے غلط مشوروں سے ہی جذبات میں آگئے تھے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے اس اہم بحران کے مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا اور بر وقت درست فیصلہ کرکے ناصرف جناب چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب سے آئین کے مطابق مشاورت کرلی اور تمام ججز کو آئین اور قانون کے مطابق اتفاق کرکے ناصرف اپنی پارٹی کی ساکھ بچالی اور آئین و قانون کی بالادستی کو تسلیم کرکے ملک و قوم کو درپیش اس آئینی بحران سے ملک و قوم کو نکال لیا ہے ۔ یقینا ایک وزیر اعظم کو ایسا ہی کردار ادا کرنا چاہئے جہاں نرمی کی ضرورت ہو وہاں نرمی‘ جہاں گرمی کی ضرورت ہو وہاں گرمی دیکھا دی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اب قوم کو یہ بھی باور کرانا ہوگا کہ وہ واقعی عوام کے نمائندے ہیں‘کسی خاص فرد کے نمائندے نہیں ہیں۔ وہ آمریت کے نہیں‘ جمہوریت کے اور جمہور کے نمائندے ہیں۔کہنے کو تو لوگ اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت حزب اختلاف سے شکست کھاگئی اپنی ہٹ وضد سے پیچھے ہٹ گئی۔ کسی کا کہنا ہے کہ حکمران ڈر گئے کہ اگر ضد پراڑے رہے تو سب کچھ ہی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں اور بحران وزیراعظم کی کسر نفسی اور بصارت سے نمٹ گیا‘ فیصلہ ایسا ہی ہونا چاہئے جو آئین قانون کا پاسدار بھی ہو اور عوام کا نمائندہ بھی ہو‘ کسی انا‘ کسی ضد کا اور کسی کا آلہٴ کار نہ ہو۔ قانون اور آئین کی بالادستی سے ہی ملک مختلف قسم کے درپیش بحرانوں سے نکل سکتا ہے۔ اگر وزیراعظم چاہیں تو اسی طرح ان کی مثبت اور بر وقت حکمت عملی سے ہر قسم کے بحرانوں سے ایک ایک کرکے نکلا جاسکتا ہے۔ یقینا انہیں حزب اقتدار کے ساتھ حزب اختلاف کا تعاون بھی حاصل رہے گا او ر گڈ گورنس اپنے آپ پھلتی پھولتی چلی جائے گی۔حکمرانی کے خواہش مند تمام افراد چاہے حکمرانی کی جس سطح کی حکمرانی انہیں نصیب ہویا ہونے کا امکان ہو وہ یہ سوچ سمجھ لیں کہ وطن عزیز ایک فلاحی‘ عوامی‘ جمہوری ملک ہے۔ یہاں نہ بادشاہت چل سکی ہے‘ نہ آمریت کو فروغ مل سکتا ہے۔ لیکن ہو یہ رہا ہے اقتدار چاہے کسی بھی سطح کا ہو‘ کونسلر کا ہو‘ کانسٹیبل کا ہو ‘ سرکاری عہدہ ہو‘ اس پر فائز ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں جس طرح جو چاہوں کرسکتا ہوں‘ میرا راج ہے‘ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ‘ کرپشن ‘بدعنوانی کہیں ایک دم سے‘ ایک دن میں جنم نہیں لیتی۔ اس میں تو آوے کا آوا ہی ملوث ہوتا ہے۔ اگر لو گ خود کو سرکار کی جگہ عوامی خدمت گار سمجھ لیں تو ہر طرف چین ‘ امن ‘ سکھ‘ شانتی کا دور دورہ ہوسکتا ہے۔ اللہ ہمیں‘ ہمارے حکمرانوں کو صبر برداشت کی قوت عطا فرمائے‘ اور ملک و قوم کے دکھ درد سے آشنا کرے اور ہمارے وطن عزیز کی حفاظت فرمائے(آمین)۔