وفاقی کابینہ کی طرف سے 8 قومی اداروں کے سربراہوں کو فارغ کرنے کی منظوری درحقیقت قومی خزانے کو اربوں روپے کے نقصان سے دوچار کرنے والے سرکاری اداروں کی تنظیم نو کا نقطہ آغاز ہے۔ 250 ارب روپے سالانہ سے زیادہ کے اس مالی بوجھ کے نتیجے میں قوم کے چار کھرب روپے ڈوبنے کی اطلاعات کتنی ہی چونکا دینے والی ہوں، عوامی سطح پر پائے جانے والے اس تاثر سے مختلف نہیں ہیں کہ یہ ادارے نااہلی و بدنظمی کے شکار ہونے کے ساتھ ساتھ بدعنوانی اور بڑے پیمانے پر خورد برد کا ذریعہ بھی ہیں۔ بدھ کے روز وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں منعقدہ اجلاس نے اس ضمن میں جن اداروں کی نشاندہی کی ان میں پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو)، پاکستان ریلویز، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان ایگریکلچرل اسٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو)، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) اور یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن شامل ہیں۔ کابینہ نے یہ فیصلہ سرکاری شعبے میں چلنے والے اداروں کی تنظیم نو کیلئے 16دسمبر 2009 ء کو قائم کی گئی خصوصی کمیٹی کی سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد کیا۔ فیصلے کے تحت 30 اپریل 2010ء تک ان تمام اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تبدیل کردیا جائیگا اور آزاد اور پروفیشنل بورڈ آف ڈائریکٹرز تشکیل دیئے جائینگے۔ اسی طرح 15جون 2010ء تک ان تمام اداروں میں نئے چیف ایگزیکٹو افسران بورڈ آف ڈائریکٹرز کی سفارش پر رکھے جائینگے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مذکورہ فیصلوں کا مقصد ان اداروں کو گڈ گورننس اور مالیاتی نظم و ضبط کے ذریعے اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرنا ہے اور اگر ان اداروں کی حالت بہتر بنا کر صرف اس نقصان پر ہی قابو پالیا جائے جس سے قومی خزانہ دوچار ہے تو یہ بھی ایک کارنامہ ہوگا اور خطیر رقم ترقیاتی کاموں اور عام لوگوں کی فلاح و بہبود کیلئے دستیاب ہو سکے گی۔ مگر اس کیلئے حکومتی ٹیم کو عوامی سطح پر اپنا اعتماد قائم کرنے کیلئے زیادہ تندہی سے کام کرنا ہوگا۔ وفاقی وزیر خزانہ کے تقرر میں تاخیر کے حوالے سے حکومتی کارکردگی اور قوت فیصلہ اس وقت جس طرح مختلف حلقوں میں زیر بحث ہے اسے مخالفین کا پروپیگنڈا کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ اہم عہدوں پر اہل افراد کا تقرر اور خزانہ جیسی اہم وزارت کی مستعدی بھی اس مالیاتی ڈسپلن کا ایک حصہ ہے جس کی ہمیں ہر شعبے میں ضرورت ہے اور جس کو بنیاد بنا کر آٹھ سرکاری اداروں کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ آج ہمیں ایسے اداروں میں مالیاتی و انتظامی بدنظمی کا سامنا ہے جن میں سے کئی کی منافع بخش کارکردگی کبھی مثالی سمجھی جاتی تھی۔ پی آئی اے کو ایک زمانے میں اپنی معیاری خدمات کے باعث دنیا کی تیسری بڑی کمپنی کا اعزاز حاصل تھا۔ مگر بعدازاں سفارشوں اور سیاسی ضرورتوں کے تحت اوپر سے نیچے تک تقرریوں کے نتیجے میں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بھر کی ایئر لائنز فی جہاز کے حساب سے جتنا عملہ رکھتی ہیں اس سے کہیں زیادہ عملے کی موجودگی اس منافع بخش ادارے کو خسارے، بدنظمی اور قومی خزانے پر بوجھ کا باعث بنانے کا ذریعہ بن گئی۔ یہ صورتحال کئی عشروں سے جاری ہے۔ دیگر قومی اداروں میں بھی وزراء، ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور دیگر بااثر افراد کی سفارشوں یا سیاسی بنیادوں پر اہلیت و مہارت کے مطلوبہ تقاضوں کو نظر انداز کر کے جو تقرریاں کی گئیں ان کے نتائج اب پوری قوم کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ سرکاری پیسے کو من مانے طور پر بے دریغ خرچ کرنے کا یہ تصور قومی مفادات کے یکسر منافی ہے کیونکہ قومی خزانے میں جو رقوم بھی آتی ہیں وہ کسی درخت سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ عوام کے ان ٹیکسوں سے جمع ہوتی ہیں جو وہ اپنی خون پسینے کی کمائی سے حکومت کو دیتے ہیں۔ اس لئے مالیاتی ڈسپلن کی تدابیر کے ساتھ کمپنی ڈسپلن پر بھی توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے جس کا ایک اہم عنصر افرادی طاقت کا ضرورت سے کم یا زیادہ نہ ہونا اور دوسرا عنصر اہلیت و مہارت کے حامل افراد میں سے میرٹ کی بنیاد پر تقرر ی ہے۔اس وقت جبکہ دنیا بھر میں نجکاری کی ہوا چل رہی ہے، وطن عزیز میں عدلیہ کے اعتراض سمیت کئی قومی نوعیت کے تحفظات کے باعث جن اداروں کا سرکاری انتظام میں رکھنا ضروری ہے ان کی تنظیم نو میں سب سے زیادہ خیال اس بات کا رکھنا ہوگا کہ سرکاری اداروں کو اپنے اپنے شعبے میں نجی کمپنیوں اور غیر ملکی اداروں سے مقابلے کا اہل بنایا جائے۔ معیاری کارکردگی اور خدمات کے حوالے سے ان اداروں کو مسابقت اور مقابلے کا اہل بنا کر ہی انکی بقاء کی ضمانت ممکن ہے۔ بصورت دیگر یہ ادارے خود ڈوبنے کے ساتھ ساتھ ملک کیلئے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔ اس بات کا خیال رکھنا مناسب ہوگا کہ جو سربراہ ریٹائر ہو، اس کی جگہ اس کے ماتحت برسوں سے کام کرنے اور ادارے کی ضرورت کو سمجھنے والے فرد کو ترقی دی جائے ۔ اس وقت تک اہلیت و مہارت کے تقاضوں کو نظر انداز کر کے من پسند افراد کو باہر سے لا کر کمپنیوں کے اہم عہدے دینے کا جو سلسلہ چل رہا ہے اسے ختم کیا جانا چاہئے۔ مقابلے کی موجودہ فضا میں اہل اور ذمہ دار افراد کو سربراہ بنا کر اور انہیں بااثر افراد کی مداخلت سے آزاد رہ کر پیشہ ورانہ بنیادوں پر آزادانہ فیصلے کرنے کا اختیار دیا جانا چاہئے۔ تنظیم نو کے نام پریہ نہیں ہونا چاہئے کہ سرکاری اداروں میں اہلیت کی بجائے سفارش، ذاتی پسندیدگی یا سیاسی ضرورتوں کی بناء پر تقرریاں کر کے ان کے بالکل ڈوبنے کا سامان کردیا جائے۔ زیادہ مناسب بات یہ ہوگی کہ سیاسی لوگوں کے مشورے سے فیصلے کرنے کی بجائے تقرر کرنے والی کمیٹیوں میں متعلقہ شعبوں کے ایسے ماہرین رکھے جائیں جو ہر ادارے کی ضروریات کے پورے شعور کے ساتھ بے غرض ہو کر مشورہ دے سکیں۔
کرکٹ کھلاڑیوں کے خلاف انضباطی اقدامات
پاکستان کرکٹ بورڈ نے تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کرتے ہوئے دورہ آسٹریلیا کے دوران نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر محمد یوسف اور یونس خاں پر غیر معینہ مدت کے لئے جبکہ شعیب ملک اور رانا نوید پر ایک ایک سال کی پابندی لگا دی ہے۔ کرکٹ بورڈ نے شاہد آفریدی کی طرف سے بال ٹمپرنگ کو شرمناک حرکت قرار دینے کے علاوہ سنٹرل کنٹریکٹ کی خلاف ورزی بھی قرار دیا ہے چنانچہ شعیب ملک اور رانا نوید کو 20،20 لاکھ، شاہد آفریدی اور کامران اکمل کو 30،30 لاکھ جبکہ عمر اکمل کو 20 لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا ہے۔ شاہد آفریدی اور اکمل برادران کی آئندہ چھ ماہ تک کڑی نگرانی بھی کی جائے گی۔ کمیٹی نے شاہدآفریدی کی حرکت کو کرکٹ کی بدنامی کا سبب قرار دیا ہے آئندہ چھ ماہ تک ان کے رویئے پر اور کامران اکمل اور عمر اکمل پر بھی کڑی نظر رکھی جائے گی۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال پاکستانی کرکٹ ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کے آغاز کے بعد قومی کرکٹ ٹیم نے جس ناقص اور مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس پر کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والوں نے سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ کرکٹ بورڈ نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کو کھلاڑیوں کی کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ کمیٹی نے تین مختلف اجلاسوں کے دوران یو اے ای ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے لئے ٹیم منیجر انتخاب عالم اور باؤلنگ کنسلٹنٹ وقار یونس کی رپورٹوں پر غور کیا۔ یہ امر بطور خاص توجہ طلب ہے کہ چیئرمین بورڈ نے کھلاڑیوں پر پابندی کے چار گھنٹے بعد یو ٹرن لیتے ہوئے کہا کہ یونس خاں اور محمد یوسف پر تاحیات پابندی نہیں لگائی گئی ٹیم مینجمنٹ جب چاہے انہیں واپس بلا سکتی ہے۔ ترجمان کے مطابق مستقبل میں اگر ضروری سمجھا گیا تو ان کھلاڑیوں کو منتخب کیا جا سکے گا۔ چیئرمین پی سی بی کے پاس اپیل کی جا سکتی ہے۔ صورتحال جو بھی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے اپنے غیر ملکی دورے کے دوران جس ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس نے کھیلوں سے دلچسپی رکھنے والوں میں طرح طرح کے شکوک و شبہات کو جنم دیاجس سے ایک صحت مند تفریح کا تاثر بھی متاثر ہوا اور کھیلوں میں دلچسپی میں بھی کمی آئی ۔ اس کارکردگی نے بعض کھلاڑیوں کے متعلق بھی ناخوشگوار تاثرات کو تقویت دی یوں محسوس ہوتا تھا کہ کھیل کے دوران کھلاڑیوں نے قومی وقار اور عوام کی توقعات کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ کی غیرجانبداری کو برقرار رکھتے ہوئے ان کھلاڑیوں کے خلاف انضباطی کارروائی میں تاخیر نہ کی جائے اور ٹیم کی تربیت سے لے کر انتخاب تک ایسا غیرجانبدارانہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے جس سے بے جا حمایت سفارش اور اقربا پروری کے تاثر کو ختم کر کے صرف ملکی اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھا جائے اور ایسی ٹیم تیار کی جائے جو پوری دلجمعی کے ساتھ ملک کی خاطر کھیل کے میدان میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔