یہ کوئی پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے، گجرات میں دوستوں نے میرے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا۔ صدارت احمد ندیم قاسمی کی تھی اور ان کے علاوہ لاہور سے جن مضمون نگاروں نے میرے ساتھ گجرات جانا تھا۔ اس میں امجد اسلام امجد اور نجیب احمد بھی شامل تھے۔ دوران سفر چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری تھا ”فنون“ کا تازہ شمارہ انہی دنوں شائع ہوا تھا۔ اس میں امجد کی نظم چھپی تھی میں نے امجد کو مخاطب کیا اور کہا ”یہ تمہاری نظم میں نے ابھی ”فنون“ میں دیکھی ہے۔ کیا بے ہودہ نظم ہے۔ تمہیں شاعری کرنا کب آئے گی؟“ امجد نے پورے سکون سے میری بات سنی اور پھر بولا ”تم ٹھیک کہتے ہو لیکن واضح رہے کہ میں نے ابھی تمہارے بارے میں مضمون پڑھنا ہے چنانچہ اس پر نظرثانی کے لئے ابھی کافی وقت ہے!“ اس پر میں نے کہا ”تم میری بات سمجھ نہیں سکے، میں کہنا چاہ رہا تھا کہ ان دنوں بے شمار لوگ فضول قسم کی شاعری کر رہے ہیں۔ بس ایک تم ہو جو شاعری کے میدان میں روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتے ہو!“ یہ سن کر امجد نے کہا ”بس ٹھیک ہے۔ میرا خیال ہے تمہارے بارے میں لکھے گئے مضمون پر اب مجھے نظرثانی کی ضرورت نہیں!“
رات کو تقریب بہت زور دار ہوئی۔ حضرت احمد ندیم قاسمی سمیت سب نے بہت زبردست مضامین پڑھے، امجد نے بھی اپنے مضمون میں کھل کر میری تعریف کی تھی۔ تقریب کے اختتام پر واپسی کے سفر کے دوران میں نے ایک بار پھر امجد کو مخاطب کیا اور کہا ”یار خدا کے لئے تم شاعری پر رحم کرو، یہ جو ”فنون“ میں تمہاری نظم شائع ہوئی ہے، تم اسے نظم سمجھتے ہو؟“ یہ سن کر امجد بولا ”تم صحیح کہتے ہو، مگر جو مضمون میں نے تم پر پڑھا ہے۔ وہ میں نے ابھی شائع بھی کرانا ہے!“ تب میں نے کہا ”تم ہمیشہ میری بات غلط سمجھتے ہو۔ میں کہہ رہا تھا کہ اس دور میں نظم کے تقاضوں کو اگر کوئی سمجھتا ہے تو وہ صرف تم ہو!“ ہماری اس یاوہ گوئی پر احمد ندیم قاسمی کھکھلا کر ہنستے رہے اور بعد میں اپنے کئی دوستوں سے ان ”مکالمات افلاطوں“ کا ذکر کیا جو دوران سفر میرے اور امجد کے درمیان ہوئے تھے!
یہ واقعہ مجھے یوں یاد آیا کہ تھوڑی دیر بعد مجھے عبدالرزاق صدف کے شعری مجموعے ”عذاب آشنائی“ کی تقریب رونمائی میں شرکت کے لئے لاہور سے ساہیوال کے لئے روانہ ہونا ہے۔ میں اس وقت سے مسلسل سوچ رہا ہوں کہ اسے بلیک میل کرنے کے لئے میں کیا حربہ استعمال کروں مگر کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔ کیونکہ اس اللہ لوک قسم کے شاعر کو نمود و نمائش کا کوئی شوق ہی نہیں ہے کہ اس کے اس شوق کو ایکسپلائٹ کر سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ کتاب کی تقریب بھی اس کے دوستوں نے زبردستی رکھی ہو گی اللہ جانے بیشتر تقریبات کا انعقاد رات کو کیوں ہوتا ہے خواہ مخواہ ساری رات جاگتے گزر جاتی ہے۔ میں نے جب کبھی منتظمین سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا ”ادب اندھیروں ہی میں پروان چڑھتا ہے“ چلیں اس جواب میں تو بہت دانائی کی بات پوشیدہ ہے کہ جب تاریکیاں بڑھ جاتی ہیں تو ادیب اور دانشور ان کے تدارک کے لئے پہلے سے زیادہ سرگرم عمل نظر آنے لگتے ہیں ورنہ ہمارے عبداللہ ملک مرحوم نے تو اپنی بیشتر تحریریں کموڈ پر بیٹھ کر مکلم کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ”آمد“ ہی کموڈ پر بیٹھ کر ہوتی ہے۔ بہرحال عبدالرزاق صدف کے لئے میں نے ڈھائی گھنٹے آنے اور ڈھائی گھنٹے واپس جانے یعنی پانچ گھنٹے کا سفر اس لئے طے کیا ہے کہ مجھے یہ شخص اچھا لگتا ہے۔ ایک تو اس لئے اچھا لگتا ہے کہ یہ اچھا ہے اور دوسرے اس لئے کہ یہ برادرم نور الحسن تنویر کا چہتا ہے چنانچہ دوست کا دوست بھی دوست ہی ہوتا ہے۔ اس کے اچھا لگنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ کچھ عرصے سے ” بیمار شیمار“ رہنے کے باوجود اس کے حس مزاح میں کوئی کمی نہیں آئی، کسی موضوع پر انتہائی سنجیدہ بات ہو رہی ہے اور وہ اچانک اتنی ہی سنجیدگی سے کوئی ایسا سوال پوچھتا ہے یا کوئی ایسی بات کرتا ہے کہ محفل کی ساری سنجیدگی کافور ہو جاتی ہے، عبدالرزاق صدف کے اچھا لگنے کی ایک اور وجہ اس کا ان پڑھ ہونا بھی ہے چنانچہ ملک کے دوسرے کروڑوں ان پڑھوں کی طرح اس کے بھی کسی قول و فعل سے پاکستان کو کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اشفاق مرحوم کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو تباہی کے کنارے تک لے جانے والی تمام پالیسیاں پڑھے لکھے لوگوں ہی نے بنائی ہیں اور مسلسل بناتے چلے جا رہے ہیں۔ صدف کی ایک اور خوبی مجھے کسی نے یہ بتائی کہ وہ بہت غریب آدمی ہے لیکن جب میں نے ”عذاب آشنائی“ کا دیباچہ پڑھا جو صدف کے عزم و ہمت کی شاندار داستان بیان کرتا ہے تو پتہ چلا کہ وہ غریب ہوتا تھا۔ اب نہیں ہے۔ اس صورت میں صدف کے لئے میرا مشورہ ہے کہ اگر وہ غریب نہیں ہے تو پھر اسے غریب دکھائی بھی نہیں دینا چاہئے سو میرے پیارے دوست، اپنی دولت کی اتنی نمائش کرو کہ اس کے چکاچوند سے غریب لوگوں کی آنکھیں چندھیا جائیں اور وہ اپنی محرومیاں یاد کر کے خود کشی پر مجبور ہو جائیں۔
میں نے یہ سطور ابھی یہیں تک لکھی تھیں کہ مصروفیت کی وجہ سے یہ کالم ادھورا چھوڑنا پڑا اور اب بقیہ کالم میں ساہیوال میں تقریب کے میزبان چودھری محمد مسعود کی رہائش گاہ کے وسیع و عریض لان میں مہمانوں کے عشائیے کے لئے سجے میزوں میں سے ایک میز پر بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ یہاں عبدالرزاق صدف کی ایک اور خوبی سامنے آئی اور وہ اس کا وقت کی قدر و قیمت کا احساس اور یوں ”پابندیٴ وقت“ کرنا ہے کیونکہ میں چودھری محمد مسعود، ان کی گریس فل بیگم شاد مسعود اور سینکڑوں دیگر معزز مہمانوں کے ساتھ گزشتہ ڈیڑھ گھنٹے سے صدف کا انتظار کر رہا ہوں اور وہ گزشتہ اتنی ہی دیر سے فون پر ہمیں بتا رہا ہے کہ وہ بس پانچ منٹ میں پہنچنے والا ہے۔ ”پابندیٴ وقت“ کے عادی دوسرے کروڑوں پاکستانیوں کی طرح یقینا وہ بھی ”ٹریفک“ میں پھنسا ہو گا۔ گاڑی ”؟پنکچر“ ہو گئی ہو گی۔ اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑ گیا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ ورنہ ہم لوگ کہاں لیٹ ہونے والے ہیں! خیر یہ بات تو بر سبیل تذکرہ یونہی درمیان میں آ گئی ورنہ صدف کی تمام خوبیاں اور خامیاں اپنی جگہ لیکن حقیقت ہے کہ ادبی مراکز سے دور ہونے اور غم روزگار کے طویل دورانیئے کے باوجود اس نے بہت اچھی شاعری کی ہے۔
تمہیں معلوم کیا گوشہ نشینو
عذاب آشنائی کیا بلا ہے؟
یہ شعر جدوجہد سے عبارت صدف کی پوری زندگی کا ترجمان بھی ہے اور اس کے شعری محرکات کا بھی پتہ دیتا ہے۔ مجھے علم ہے اس نے ابھی ترقی کی بہت سی منازل طے کرنا ہیں۔ اس کے شعر نے ابھی مزید نکھرنا ہے۔ اس نے زمانے سے ابھی وہ سارا خراج تحسین وصول کرنا ہے جو اس کی طرف DUE ہے لہٰذا میں باقی باتیں اس کے اگلے شعری مجموعے کے لئے محفوظ رکھ رہا ہوں۔ ویسے بھی صدف کی غائبانہ تقریب رونمائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ مقررین بھرپور طریقے سے اس کی شاعری کو سراہ رہے ہیں۔ اور ہاں، مائع لگے کڑ کڑ کرتے سفید شلوار کرتے اور بلیک واسٹک میں ملبوس عبدالرزاق صدف مجھے نظر آ گیا ہے، وہ تیز تیز قدم اٹھاتا سٹیج کی طرف آ رہا ہے۔ وہ یقینا سوچ رہا ہو گا کہ یہ کیسے جلد باز لوگ ہیں جو مہمان خصوصی کا انتظار بھی نہ کر سکے تاہم منکہ مسمی عطاء الحق قاسمی عرف صدر محفل حاضرین کی طرف سے معذرت خواہ ہے اور صدف کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہے!
(شہر مجید امجد میں عبدالرزاق صدف کے شعری مجموعے ”عذاب آشنائی“ کی تقریب رونمائی کے لئے لکھا گیا)