• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برما حکومت اور وہاں کے بودھ مت انتہا پسندوں کے انسانیت سوز مظالم کے نتیجے میں لاکھوں لٹے پٹے روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں ان کی اکثریت بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ ہجرت کر گئی لیکن بڑے دکھ کی بات ہے کہ کوئی بھی ملک انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں بنگلہ دیش سے نکالے جانیوالے کچھ لوگوں نے بھارت کے مختلف علاقوں میں پناہ لی اب بھارت نے اپنی ریاستی حکومتوں سے کہا ہے کہ ان روہنگیائی مہاجروں کی شناخت کرکے انہیں بھارت سے نکال دیا جائے جس پر احتجاج کرتے ہوئے بھارت میں انسانی حقوق کے قومی کمیشن نے حکومت کو نوٹس بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ چار ہفتے کے اندر اس بارے میں ایک تفصیلی بیان جاری کرے کمیشن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اس انسانی مسئلے کے ہر پہلو کو مدنظر رکھا جانا لازمی ہے اقوام متحدہ کے ترجمان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ایک بار مہاجرین جہاں رجسٹرڈ ہو جائیں وہاں سے انہیں ان ممالک میں واپس نہیں بھیجا جا سکتا جہاں انہیں جان و مال کا خطرہ ہو روہنگیا مسلمانوں کا تعلق برما کے صوبہ اراکان سے ہے جو ملک کے جنوبی حصے میں شمالاً جنوباً پھیلا ہوا خلیج بنگال کے مشرقی ساحل پر واقع ہے یہ لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں زیادہ تر کا پیشہ ماہی گیری ہے 1400ء میں محنت مزدوری کیلئے وہ مغربی بنگال سے برما کے علاقے اراکان میں آباد ہوئے تھے 1785ء میں جنوبی حصے سے تعلق رکھنے والے بودھوں نے صوبہ اراکان کو فتح کیا تو وہاں سے روہنگیا مسلمانوں کو نکال دیا 1826ء میں جب انگریزوں نے برما کا کنٹرول سنبھالا تو اپنے کام کاج کرانے اور محنت مزدوری کیلئے انہیں واپس بلا لیا یہ سلسلہ انگریزوں کے قیام تک جاری رہا 2012ء کے بعد سے برما میں روہنگیا مسلمانوں پر بودھوں نے پھر ظلم ڈھانا شروع کر دیئےاب تک ہزاروں افراد کوقتل کیا جا چکا ہے ان کا مستقبل اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے لئے ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہےیہ لوگ نہ برما میں رہ سکتے ہیں اور نہ ہی برما سے باہر۔ عالمی برادری کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان کے محفوظ مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہئے۔

تازہ ترین