• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انصاف کی بروقت فراہمی ریاست و عدلیہ کا مشترکہ فرض ہے مگر ہمارے نظام کی فرسودگی کی وجہ سے یہاں پر مقدمہ کئی کئی نسلوں کو لڑنا پڑتاہے۔ انصاف میں تاخیر کی ایک وجہ ہمارا مجموعۂ تعزیرات ہے جو ڈیڑھ صدی سے بھی زیادہ قدیم ہے مگر آج تک اسی کے تحت فیصلے کئے جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اکثر کیسوں میں وقت اور پیسے کے بے تحاشا ضیاع کے باوجود فریقین انصاف کے حصول کے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ عمومی طور پر انصاف میں تاخیر کا الزام عدالتوں پر دھرا جاتا ہے جبکہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ ججوں کی کمی بھی ہے۔پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں ججوں کی 700اسامیاں خالی ہیں جبکہ مقدمات کی تعداد 13لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور ان کیسوں کو نمٹانے کے لئے محض 1700جج فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔حالانکہ پنجاب کی ماتحت عدلیہ میں طے کردہ ججوں کی تعداد 2400ہے اس طرح ججوں کی کمی کے باعث ہر جج کے پاس سماعت کے لئے تقریباً 767کیس موجود ہیں جس کے سبب بیشتر مقدمات کی سماعت ملتوی ہوتی رہتی ہے اور سائلین کو بروقت انصاف نہیں ملتا۔اگر اعلیٰ عدلیہ کی بات کی جائے توہر سال صرف لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کی 30ہزار سے زائد درخواستیں دائر کی جاتی ہیں جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ بھی مقدمات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔چند ماہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی پائلٹ کریمنل جسٹس پروجیکٹ کے حوالے سے منعقدہ سمپوزیم میں اربابِ اختیار کے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ پورے پاکستان میں اٹھارہ لاکھ سے زائد مقدمات زیرالتواء ہیں، صرف چار ہزار جوڈیشل افسران اور جج لاکھوں مقدمات کیسے نمٹائیں؟ بروقت انصاف کی فراہمی کیلئے جہاں ایک طرف عدلیہ کو وسائل مہیا کئے جانے چاہئیں، ججوں کی خالی نشستیں پُر اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہئے وہیں پولیس اور پراسیکیوشن کا نظام بھی بہتر کیا جانا چاہئے کیونکہ غیر ضروری گرفتاریاں اور ضمانتیں بھی عدالتوں پر اضافی بوجھ کا سبب بنتی ہیں۔

تازہ ترین