اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں مشرف حکومت کو بینظیر بھٹو کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے بے نظیر کی حفاظت کے لئے مناسب اقدامات نہیں کئے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام رہی ناکافی حفاظتی اقدامات نہ ہوتے تو اس قتل کو روکا جا سکتا تھا۔ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو مونیز نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ صرف حکومت ہی کو اس ناکامی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پی پی پی کا اپنا سکیورٹی نظام بھی ناکام ثابت ہوا اور بالخصوص سکیورٹی کے انچارج مناسب انتظامات نہ کرسکے جائے قتل کو فوری طور پر دھو دیا گیا۔ سکیورٹی میں یہ ناکامی اتفاقیہ نہ تھی بلکہ حکومت کے پاس کوئی مناسب پلان ہی نہ تھا۔ تحقیقات میں ناکامی اور تاخیر کے حوالے سے حکومت کا کوئی عذر قابل قبول نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ راولپنڈی پولیس بالخصوص واقعہ کے بعد تحقیقات کے لئے کوئی موثر اقدام نہ کر سکی۔ تحقیقات کے دوران 250 افراد کے انٹرویو لئے گئے سینکڑوں دستاویزات کا جائزہ لیا گیا لیکن کمیشن کا کام تو صرف حقائق کو سامنے لانا ہے کسی کو سزا دینا نہیں پاکستانی پولیس نہ صرف ناکام رہی بلکہ بعد میں اس نے قتل کے شواہد اور ثبوت بھی مٹا دیئے۔ اگر راولپنڈی پولیس مثبت اور تعمیری کردار ادا کرتی تو بے نظیر بھٹو کی جان بچائی جا سکتی تھی حکومت کی بھی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ سابق وزیراعظم کو تمام خطرات سے آگاہ رکھتی ۔ ان کا قتل ایک بڑے نیٹ ورک کا منصوبہ تھا جس پر بھاری رقوم خرچ کی گئیں۔ کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم اپنی تحقیقات پر مطمئن ہیں کمیشن مکمل خود مختار تھا ہم بلاوجہ کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بینظیر کے قتل میں صدر زرداری یا محترمہ کے خاندان کا کوئی فرد ہرگز ملوث نہیں یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں۔ محترمہ کے قتل کے وقت 15 سال کے ایک نوجوان نے خود کش دھماکہ کیا اور بے نظیر کو گولی لگنے کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ پاکستان کے عوام اور بالخصوص پی پی پی کے کارکن بے نظیر بھٹو کے جانثار اس بات کے منتظر رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ جلد از جلد منظر عام پر آئے اور بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا پتہ چلے مکمل رپورٹ ہمارے سامنے نہیں ہے البتہ اخبارات اور مختلف ٹی وی چینلز سے رپورٹ کے مندرجات دیکھنے میں آئے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ مزید تفصیلات اور مختلف شواہد منظر عام پر آئیں گے لیکن اب تک یہ بات قدرِ مشترک کے طور پر سامنے آئی ہے کہ محترمہ کی حفاظت کے لئے کئے گئے انتظامات نہ صرف ناقص بلکہ ناکافی بھی تھے تحقیقاتی رپورٹ میں صرف اداروں کا نام لیا گیا ہے ذمہ دار افراد کی نشاندہی نہیں کی گئی ۔ اقوام متحدہ کے کمشنر کا کہنا تھا کہ ان کا مشن صرف تحقیقات تک محدود تھا صرف حالات کا تعین کرنا تھا۔ مجرموں کی تلاش ان کی ذمہ داری نہ تھی ہم یہ کہنا چاہیں گے حالات اور ارادے کھل کر سامنے آ گئے ہیں تو یہ موجودہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تحقیقات کا دائرہ مزید آگے بڑھایا جائے اس میں ذمہ دار افراد کی نشاندہی کی جائے ۔اس بات کا تعین کیا جائے کہ جن اداروں کا نام لیا گیا ان کے کون سے افراد ڈیوٹی پر تھے جو غفلت کے مرتکب ہوئے اس کا ذمہ دار کون تھا اور اس نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا اور جہاں تک پی پی پی کے حوالے سے بے نظیر کی حفاظت کی ذمہ داری کا تعلق ہے اس میں کوتاہی کا مرتکب کون تھا؟ انہوں نے اس معاملے میں تغافل کا مظاہرہ کیوں کیا؟ انہیں بھی اس پس منظر میں قانون کی گرفت میں لایا جانا ضروری ہے۔ جائے حادثہ پر قتل کے جو نشانات تھے وہ کیوں مٹائے گئے۔ذمہ دار کون تھا؟ کس کے حکم پر ایسا کیا گیا اور بالخصوص راولپنڈی کے جنرل ہسپتال میں ان کا پوسٹ مارٹم کیوں نہ کرایا گیا؟ اس راہ میں کون رکاوٹ بنا؟ پولیس اور ضلعی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ بلاتاخیر ان سب کو قانون کی گرفت میں لے۔ اس المناک سانحہ کے حوالے سے اس کی مکمل تحقیقات اور اس میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ماضی میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، جنرل ضیاء الحق اور ان کے ساتھ دو درجن کے لگ بھگ فوجی جرنیلوں اور اعلیٰ فوجی حکام کی شہادت کے علاوہ کئی اعلیٰ سرکاری حکام کی شہادت کا معاملہ اور اس کے پس پردہ عوامل آج تک عوام کے سامنے نہیں لائے گئے اور ابھی تک اصل وجوہات کو منظر عام پر نہیں لایا جا سکا اس لئے بے نظیر بھٹو کی شہادت کے باب میں یہی خدشہ تھا کہ اسباب اور افراد کا علم نہیں ہو سکے گا لیکن اتنی پیش رفت اب کے ہوئی ہے کہ اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آ گئی ہے اس لئے آسانی ہو گئی ہے کہ آگے بڑھا جا سکے ۔ اگر اقوام متحدہ کے کمیشن کی طرف سے تحقیقات کے معاملے میں کسی خاص حلقے نے خاص طور پر پولیس یا کسی خفیہ ایجنسی نے کوئی رکاوٹ پیدا کی تو اس کا بھی سراغ لگانا اور منظر عام پر لانا ضروری ہے کہ آئی ایس آئی، ایم آئی، آبی بی نے کمیشن سے تعاون کیوں نہیں کیا اس کا ازالہ حکومت کی ذمہ داری ہے کیونکہ کمیشن کی ذمہ داری صرف مکمل اور غیر جانبدارانہ تحقیقات تک محدود تھی وہ کسی کو قانون کی گرفت میں لانے کا ذمہ دار نہ تھا۔ حکومت کو بالخصوص یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ عوام بے نظیر بھٹو شہید کے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کو جلد از جلد منظر عام پر دیکھنے کے متمنی تھے اور انہوں نے بے نظیر سے دلی محبت اور عقیدت کے حوالے سے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں وہ گزشتہ تین برس سے محترمہ کی شہادت کے بنیادی اور اصل اسباب و علل جاننے کے متمنی اور منتظر ہیں اکثریت کو اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے دائرہ کار کا بھی علم نہ تھا یہ بات شائد حکومت نے اس لئے اخفاء میں رکھی کہ عوامی سطح پر تحقیقات کے معاملے میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہونے پائے اور محترمہ کی شہادت کے حوالے سے مختلف خیالات و نظریات حقائق کو متاثر نہ کریں۔ البتہ اس رپورٹ کے اجراء کے بعد عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ موجودہ حکومت متعلقہ اداروں اور ایجنسیوں کے ذریعے مزید تحقیقات جلد از جلد مکمل کرے اور اس کے لئے ایسا موثر، ٹھوس اور نتیجہ خیز لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ اصل قاتلوں کی نشاندہی ہو اس میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ ملکی قوانین کے مطابق انہیں سزا دی جائے انہیں اس طرح قانون کے کٹہرے میں لایا جائے کہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ عبرت بن جائیں اس وقت ملک کی عدلیہ بھی آزاد اور خود مختار ہے اور عوام کو اس سے بھی بڑی توقعات وابستہ ہیں کیونکہ ایک آزاد خود مختار عدلیہ کی موجودگی میں کسی مجرم کا بچ نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔انہیں یقین ہے کہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ کے لئے ان کی جدوجہد رنگ لائے گی۔
18ویں ترمیم منظور۔ اب عوام کو ریلیف بھی دیں
جمعرات کو سینٹ میں 18ویں ترمیم متفقہ طور پر منظور ہوگئی تاہم صوبہ سرحد کے نئے نام خیبر پختونخوا کی مخالفت میں 12ووٹ ڈالے گئے۔ ہزارہ ڈویژن میں ہنگاموں اور صوبہ کے مطالبہ پر اس خدشہ کا اظہار کیا جارہا تھا کہ مسلم لیگ (ق)، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس مسئلہ پر مخالفت کی جائے گی لیکن ان جماعتوں کی قیادت نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور 18ویں ترمیم میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جبکہ صوبہ کے نئے نام پر بھی مخالفت میں ووٹ نہیں دیئے۔ صرف مسلم لیگ (ق) کی جانب سے ایسا کیا گیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے متفقہ طور پر ترمیم کی منظوری کو ملک کی آئینی تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ قرار دیتے ہوئے عوام کو مبارکباد دی ہے۔صدر آصف زرداری 20اپریل کو اس ترمیمی بل پر دستخط کریں گے اور اس کے بعد ملک میں مکمل طور پر پارلیمانی نظام بحال ہو جائے گا۔ اس ترمیم کے تحت صدارتی اختیارات وزیراعظم کو منتقل ہو جائیں گے اور صوبائی خودمختاری کی جانب اہم پیش رفت ہوگی۔ وزیراعظم گیلانی نے سینٹ سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ عوام کی مشکلات کے سدباب کیلئے اقدام کئے جائیں گے جبکہ سینٹ میں قائد حزب ِ اختلاف وسیم سجاد نے کہا کہ اب حکومت کے پاس کوئی حیلہ بہانہ نہیں ہے۔ قوم کو اس وقت بدترین لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا سامنا ہے۔ بیروزگاری بڑھ رہی ہے۔عوام مصائب و مشکلات سے دوچار ہیں۔ ملک بھر میں لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہر صورت درست ہے کہ حکومت کو اب عوام سے کئے ہوئے وعدوں پر توجہ دینی ہوگی۔ دو سال قبل وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں وزیراعظم گیلانی نے عوام کے لئے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا لیکن ریلیف تو د ور کی بات بجلی اورپٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں تقریباً سوفیصد اضافہ کیا گیاہے اور بدترین لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ حکمرانوں کو عوام کی مشکلات پر توجہ دینی ہوگی۔ اس حوالے سے مزید تاخیر کی گنجائش نہیں اگرایسا نہ ہوا تو 18ویں ترمیم کا جشن ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔