• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر آصف علی زرداری نے بدھ کے روز بہاولپور میں صنعتی مزدورں سے خطاب کے دوران روٹی کپڑا مکان کا نعرہ سچ کر دکھانے کا جو وعدہ کیا ہے، اس میں یہ اعتراف بھی پوشیدہ ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے عوام کو جو خواب دکھایا تھا، وہ چار عشرے گزرنے کے باوجود عملی تعبیر حاصل نہیں کرسکا۔ اگرچہ نظام کی بنیادی تبدیلی جیسے منشور اور وعدوں کی سو فیصد تکمیل عملاً انتہائی دشوار ہوتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ملک کے دو لخت ہونے کے سانحے، 90ہزار سے زیادہ جنگی قیدی حملہ آور ملک کے کیمپوں میں مقید ہونے اور مغربی حصے کا بھی خاصا علاقہ بھارت کے قبضے میں چلے جانے کے باوجود پیپلزپارٹی کے سربراہ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے مذکورہ سنگین مسائل کو حل کرتے ہوئے شکستگی و مایوسی کی شکار پاکستانی قوم کو نیا عزم اور حوصلہ دیا۔ مزدوروں اورکسانوں کو حقوق کا شعور دینے کے ساتھ ان کی فلاح و بہبود کے لئے قانون سازی سمیت ٹھوس اقدامات کئے۔ 1977ء میں جب فوجی مداخلت کے ذریعے بھٹو حکومت کا خاتمہ کیا گیا اس وقت روٹی، کپڑا، مکان کے نعرے کو عملی شکل دینے کے ٹھوس اقدامات بروئے کار لائے جارہے تھے۔ محنت کشوں کو کارخانوں کے منافع میں شراکت دار بنانے سمیت ان کے حقوق کے تحفظ اور صنعتی و زرعی ترقی یقینی بنانے کی سمت پیش رفت جاری تھی۔ اپوزیشن کی نو جماعتوں پر مشتمل پی این اے (پاکستان قومی اتحاد) کا 1970ء کی قیمتیں واپس لانے کا نعرہ تو ہوا میں تحلیل ہوا ہی۔ معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے، غریبوں کی حالت بہتر بنانے اور ملک کو اقوام عالم میں نمایاں مقام دلانے کی کوششوں پر بھی ضرب لگی۔ 1973ء کی مسلم سربراہ کانفرنس کے ذریعہ امت مسلمہ میں عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے پیدا ہونے والا جوش و جذبہ بھی برقرار نہ رہ سکا۔ افراط زر، کرنسی کے انحطاط، افغان جنگ کے اثرات سے سماجی و معاشی ڈھانچے کی تباہی کا ایسا عمل شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ بعدازاں آنے والی سیاسی حکومتوں کو اپنی بدنظمی و افراتفری کی پردہ پوشی کا موقع قبل از وقت جبری رخصتی کی صورت میں فراہم کردیا گیا۔ ملکی معیشت اس وقت تک تنزلی کی شکار نظر آرہی ہے۔ ریاستی انفرا اسٹرکچر خصوصاً سرکاری اداروں کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے قومی معیشت کو مفلوج اور لاکھوں گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردئیے ہیں۔ دریائی پانی کی کمی، غذائی بحران کے خدشات کا سبب بن رہی ہے۔ان حالات میں صدر مملکت روٹی، کپڑا، مکان کے خواب کو عملی تعبیر دینے کا پھر وعدہ کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے 2008ء کے انتخابی منشور کے ان نکات کا پورا احساس رکھتے ہیں جو ان کے اپنے بیان کے مطابق 80فیصد حصے پر عملدرآمد کے بعد باقی رہ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کو پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے دی گئی تو وہ نظام کو بدل کر رکھ دیں گے۔ مذکورہ وعدے اور اعلان کی روشنی میں یہ توقع بے محل نہیں ہوگی کہ عوام کو خوراک، لباس اور رہائش کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے بنیادی منصوبہ بندی، روڈ میپ اور ابتدائی کاموں کی صورت میں اتنی تیاریاں کی جاچکی ہوں گی کہ منزل کی سمت پیش قدمی کی جاسکے۔ صدر مملکت نے این ایف سی ایوارڈ، آغاز حقوق بلوچستان پیکیج، سیاسی جماعتوں میں وسیع تر مفاہمت اور 18ویں آئینی ترمیم جیسی کامیابیوں کے بعد اب جس ہدف کا اعلان کیا ہے اس کے لئے مہنگائی اور بجلی کا بحران دور کرنے، معیشت کو مستحکم بنیادیں فراہم کرنے، ملکی وسائل پر انحصار کرنے، حکومتی و نجی سطح پر سادگی و بچت کے رجحان کو پروان چڑھانے سمیت بہت سے پہلوؤں پر بیک وقت توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ مستعد ماہرین اور دیانتدار افراد پر مشتمل ٹاسک فورسز بنانی ہوں گی اور ہر شعبے میں نظم و ضبط کو یقینی بنانا ہوگا۔ عام حکومتی رویے کو دیکھتے ہوئے اگرچہ یہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے مگر ناممکن بہرحال نہیں ہے۔ شرط صرف ایفائے عہد میں اخلاص کی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کے نقطہ نظر میں اقتصادی ضرورتوں اور ترجیحات کے فقدان کا ہے۔ نقطہ نظر اقتصادی ہوتو زندگی کے رویے بدلتے ہیں۔ نظم و ضبط کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ وقت کے ایک ایک منٹ اور سیکنڈ کی قدر بڑھتی ہے۔ بچت کو آمدنی ہی کی ایک صورت سمجھ کر سادگی پر توجہ دی جاتی ہے۔نقطہ نظر کو اقتصادی بنانے کے علاوہ بدنظمی پر قابو پانا بھی ہماری اہم ضرورت ہے۔ سرکاری محکموں اور اداروں میں سیاسی وابستگی اور سفارشوں کی بنیاد پر تقرریوں نے پورا ڈھانچا کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ خالص فنی اداروں میں غیر فنی لوگ چھائے ہوئے ہوں اور کرپشن کی سرپرستی حکمرانوں اور سیاست دانوں کی سطح پر جاری ہوتو اچھی سے اچھی کارکردگی کے حامل اداروں کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ریلوے، جو کبھی منفعت اور عوامی خدمات کے حوالے سے معیاری محکمہ تھا، انہی وجوہ سے اس مقام پر جاپہنچا ہے کہ اب 120ٹرینیں بند کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ پانی و بجلی کی وزارت، واپڈا اور دیگر متعلقہ اداروں کی کارکردگی خوفناک لوڈشیڈنگ کی صورت میں قومی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کررہی ہے۔ ان حالات میں صدر مملکت کو، جو حکمراں پارٹی کے شریک چیئرمین بھی ہیں، مرکزی و صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی اور سرکاری افسران کے طرز زندگی میں سادگی لانے کی مہم چلانی ہوگی۔ ان کے ملکی اور غیرملکی دوروں میں کمی کرنے، حج اور عمرے تک پر لاؤ لشکر کے ساتھ جانے کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔سادگی کا پہلو شادی بیاہ سمیت گھریلو تقریبات سے لیکر سرکاری امور تک میں نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے وزراء اور افسران کی تعداد بھی غیر معمولی ہے اور ان کے اخراجات کا تخمینہ بھی امیر ملکوں سے زیادہ بنتا ہے۔ منتخب نمائندوں کی ایک بڑی تعداد اتنے وسائل کی حامل ہے کہ انہیں سرکاری مشاہرے اور مراعات کی بجائے اپنے ذاتی اخراجات سے قومی خدمت کی مثال قائم کرنی چاہئے۔ دیگر ارکان کو بھی ملکی حالات کا ادراک کرتے ہوئے اپنے مشاہروں میں اضافے کی بجائے کمی کا رجحان ظاہر کرنا چاہئے۔ سرکاری ضیافتوں، استقبالیوں اور تقریبات کو پرتکلف کھانوں سے گھٹا کرکولڈ ڈرنک یا سادہ چائے تک محدود کیا جانا چاہئے۔ سرکاری ملازمین کی آرام طلبی کی عادت چھڑا کر وقت پر آنے اور ڈیوٹی کے اختتام تک کام کرنے کا کلچر رائج کرنا ہوگا۔ ائیرکنڈیشنروں، لائٹوں، ٹرانسپورٹ سمیت ہر مد میں سادگی کے ذریعے بچت پر زور دے کر، بیرونی قرضوں کی بجائے ملکی قدرتی وسائل بروئے لانے کی حکمت عملی اختیار کرکے روٹی کپڑے اور مکان کے وعدے سمیت عوامی بہبود کے بہت سے کاموں پر توجہ دی جاسکتی ہے۔ صدرمحترم اگر اس سمت میں پیش قدمی کرتے نظر آئے تو وہ غریبوں کی دعائیں بھی لیں گے اور ان کے دلوں میں زندہ بھی رہیں گے۔
صرف کوئلے سے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے
جنگ اکنامک سیشن میں ماہرین نے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بحران کے حوالے سے وسیع تر حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے جہاں عوام کے خدشات و تحفظات کو پوری طرح بے نقاب کیا وہاں خود حکومت کے لئے بھی یہ خیالات اس حوالے سے ایک رہنما اصول کا درجہ رکھتے ہیں کہ اب تک بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے کئے گئے تمام حکومتی وعدے اور دعوے نقش بر آب ثابت ہو چکے ہیں۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ 2012 ء سے پہلے ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ۔ پیداوار سے زیادہ مینجمنٹ کا مسئلہ ہے اس کے لئے صنعتی شعبہ اولین ترجیح کا مستحق ہے۔ ایک تجویز یہ بھی دی گئی کہ پیپکو کے ہیڈ آفس کو اسلام آباد منتقل کر کے وزارت پانی و بجلی کو زیادہ فعال بنایا جا سکتا ہے۔ نیز واپڈا اور پیپکو کو اپنے منصوبے شروع اور مکمل کرنے کے لئے مکمل بااختیار بنایا جانا ضروری ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ اب حکومت کو یہ فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے کہ اسے بجلی کے بحران کے حل کے لئے پبلک سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنی ہے یا نجی شعبہ میں۔ پبلک سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لئے اسے واپڈا کا انتخاب کرنا پڑے گا اور آئندہ بجٹ میں سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لئے رقم مختص کی جانی چاہئے۔ حقائق کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو پیپکو کے تھرمل پاور پلانٹس اپنی مدت پوری ہوجانے کے بعد ضرورت کے مطابق پیداوار دینے کے قابل نہیں رہے لیکن حکومت اس کمزوری پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں۔ حالانکہ صوبہ سندھ میں تھر کے مقام پر کوئلے کے جو بے پناہ ذخائر دستیاب ہوئے ہیں اگر صرف انہی سے صحیح معنوں میں استفادہ کرنے کی موثر پالیسی وضع کرکے اس پر عملدرآمد کیا جائے تو ملک کم و بیش ڈیڑھ سو سال تک بجلی کے کسی بھی بحران سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ دراصل بجلی کے بحران کا پائیدار حل نکالنے کیلئے مستقبل کی ٹیکنالوجی سے استفادہ اور اس کیلئے ٹھوس پالیسی وضع کرنا ضروری ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے مطابق صوبوں کو بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی اجازت دینا ایک اچھا فیصلہ ہے بشرطیکہ اس پر موثر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ کاش حکومت کوئلے کے مذکورہ ذخائر کے استعمال پر توجہ دے سکے۔
تازہ ترین