• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریہ پاکستان کے حوالے سے اگر کوئی یہ پوچھے کہ اس ملک کا سب سے بڑا ایشو کیا ہے تو درویش کا جواب ہو گا حریت فکر اور آزادیٔ اظہار کا فقدان۔ الحمدللہ یہاں وسائل کی کمی ہے نہ جھوٹ کی۔ وطنِ عزیز میں سچ بولنے والوں کو وہ تمام مشکلات پیش آتی ہیں جو دوسروں کو جھوٹ بولنے میں۔ اس لیے یہاں سچ کے معاملے میں بہت محتاط رہنا پڑتا ہے دیکھ بھال کے سوچ سمجھ کے اشاروں کنایوں اور استعاروں کے ساتھ اس اسلوب میں بولو یا لکھو کہ سب کے اوپر سے گزر جائے ورنہ آپ ہی کو نہیں آپ کے ادارے کو بھی اس کی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ حال ہی میں ایک میڈیا ہاؤس کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف کرپشن کے جو جھوٹے الزامات تکرار کے ساتھ لگائے گئے وہ اپنا اثر دکھا جاتے اگر چینی سفارت کار کی طرف سے اس کی واضح اور کھلی وضاحت نہ کی جاتی یہاں جھوٹے اور جعلی الزامات کے گھناؤنے پروپیگنڈے سے شرفا کو رذیل اور رذیلوں کو شرفا ثابت کیا جاتا ہے۔ ایسی اکھاڑ پچھاڑ اور تباہ کاریوں کی تحقیق میں پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے جبکہ سچ بولنے یا لکھنے کی پاداش میں آپ ملک عدم روانہ کیے جا سکتے ہیں۔ دہشت گردی اور شدت پسندی نے اس مملکت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ پوری دنیا ہم سے نالاں ہے لیکن ہمیں اندرونِ ملک اس کا ایسا چسکا لگایا گیا ہے کہ اس شیرینی کے بغیر لوگوں کو بات کرنے اور سننے کا مزا ہی نہیں آتا۔
جبر کی حکمرانی کے صدقے مظلومین اس ملک کے اندر بھی کم نہیں ہیں ایسے بدنصیب اور دکھیارے بھی مل جائیں گے جو اپنے ایمان اور عقیدے کی مطابقت میں بات کرنے پر یا ضمیر کی مطابقت میں اظہارِ خیال کرنے پر قابلِ گردن زدنی قرار پائیں گے۔ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کا ہمیں بلاشبہ بہت دکھ ہے اور ہونا بھی چاہیے۔ ہمارے سوشل میڈیا کے بہت سے دوست یہ چاہتے ہیں کہ او آئی سی یا 34ملکی فوجی اتحاد میانمار پر حملہ کر دے اس سلسلے میں انہیں ہمارے سابقہ چیف کا نام بھی بتایا جا رہا ہے جو اس اتحاد کی عسکری قیادت کر رہا ہے انہیں چاہیے کہ وہ استعفیٰ دے دیں یا پھر مسلمان مظلومین کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اسی طرح میانمار کے ہمسایہ ممالک پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ظالموں کو کچل ڈالیں۔ دوسروں پر الزام تراشیاں کرنے کی بجائے ہمیں اپنی خدمات پیش کرنی چاہئیں۔
وطنِ عزیز میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ سے بڑا کوئی مظلوم نہ ہو گا؟ ان کے بہیمانہ قتل پر جو فیصلہ دیا گیا ہے آج ارادہ تھا اس پر لکھنے کا، اسی طرح سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن پر جو قاتلانہ حملہ ہوا ہے اس حملے کے بعد کراچی میں جو بڑا دہشت گرد گروپ بے نقاب ہوا ہے یوں انتہا پسندی میں ملوث پڑھے لکھے لوگ سامنے آئے ہیں، یہ بھی کالم کا اہم موضوع تھا۔
وطنِ عزیز کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے مہذب دنیا کو ہم سے بہت سی شکایات ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ نے کہا کہ اب ہم پہلے واشنگٹن نہیں جائیں گے پہلے چین اور روس جیسے اپنے دوستوں کے پاس جائیں گے انہیں بتائیں گے کہ ہمارے خلاف مودی کے اشاروں پر غلط پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے لیکن یہ کیا ہوا؟ وہاں جانے کی نوبت آنے سے قبل ہی چین میں برکس کانفرنس کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اُس نے تو کوئی کسر رہنے ہی نہیں دی ہے۔ واضح رہے کہ اس تنظیم میں بھارت، جنوبی افریقہ اور برازیل ہی نہیں روس اور چین بھی شامل ہیں۔ ان پانچ ممالک کے سربراہوں کی نویں کانفرنس جو چین میں منعقد ہوئی ہے اس میں پہلی مرتبہ یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ طالبان لشکر طیبہ، جیشِ محمد، داعش اور حقانی نیٹ ورک جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جو پاکستان میں پائی جاتی ہیں، پاکستان ان کے خلاف موثر کارروائی کرے۔ بعدازاں چینی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی پریس بریفنگ میں مزید وضاحت کی کہ برکس ممالک نے جیشِ محمد اور لشکر طیبہ کی بڑھتی ہوئی پُرتشدد سرگرمیوں کے متعلق اپنے جن خدشات کا اظہار کیا ہے انہیں بجا طور پر مشترکہ اعلامیے میں شامل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس موقع پر چینی صدر شی جن پنگ نے کھل کر یہ بھی کہا کہ ان کا ملک انڈیا کے ساتھ اچھے اور مستحکم تعلقات کا خواہاں ہے ہم پائیدار دو طرفہ تعلقا ت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔دوسری طرف پاکستان نے برکس ممالک کے مشترکہ اعلامیے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے ٹھکانے پاکستان کے اندر نہیں افغانستان کے اندر ہیں۔ ہمارے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اس سلسلے میں افغانستان کے اندر موجود مختلف گروہوں کے نام بھی لیے ہیں۔
ہمارے وزیر دفاع نے یہ گلہ کیا ہے کہ عالمی براداری نے ہماری کامیابیوں اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو تسلیم نہیں کیا ہے جبکہ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ دنیا ہماری طرف انگلیاں اٹھا رہی ہے۔ معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو باور کروانا ہو گا کہ یہ تنظیمیں پاکستان سے آپریٹ کر کے پڑوسی ممالک میں کارروائیاں نہیں کرتی ہیں جب تک ان کے چہرے نظر آتے رہیں گے دنیا ہم پر یقین نہیں کرے گی۔

تازہ ترین