لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں ایم کیو ایم کے کنونشن میں الطاف حسین کے خطاب سے ذرا پہلے مجھے بھی لندن سے الطاف حسین صاحب کا فون آیا۔ بڑی گرم جوشی اور تپاک سے انہوں نے بتایا کہ اپنے ٹی وی ڈراموں اور سیریلز میں جس جرأت سے جاگیرداری نظام اور پاکستان میں غیرجمہوری رویوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہوں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میں ایم کیو ایم کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہوں۔
جس زمانے میں کراچی میں بہت قتل و غارت کابازار گرم تھا اور شہر رینجرز کے حوالے تھا۔ اس دور کا ایک واقعہ ہے کہ میرا سیریل ”چاند گرہن“ بہت پسند کیا گیا اور اس کے بہت سے شوز مقامی ہوٹلوں میں ہوئے۔ ایک شو سے فارغ ہوئے تو رات کے تین بج چکے تھے۔ ہوٹل میں کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ ہمیں بھوک لگ رہی تھی۔ کسی نے بتایا کہ فلاں جگہ صبح چار بجے نہاری پائے تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ مرحوم شفیع محمد ، سہیل اصغر اور میں گاڑی میں سوار ہو کر نکلے۔ ہمارے گلے میں اجرکیں موجود تھیں جو تقریب میں ہمیں پہنائی گئی تھیں۔ کراچی اس وقت سنسان پڑا تھا۔ ہمیں نہ کوئی خوف محسوس ہوا نہ کسی نے روکا۔ اچانک ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں رینجرز کا ناکہ لگا ہوا تھا۔ ہمیں اترنے کا حکم ہوا۔ ہم نہیں اترے تو وہ افسر گاڑی میں جھانکنے لگا۔ اس نے سب کو پہچان لیا ا ور کہا تم اس وقت جس علاقے میں کھڑے ہو یہاں وقفے وقفے سے فائرنگ چل رہی ہے اور کئی لوگ مارے جاچکے ہیں اور یہ جو تم نے اجرکیں گلے میں ڈال رکھی ہیں اس سے تم سندھی ڈاکو لگ رہے ہو یہ اتار دو اور جلدی یہ علاقہ چھوڑ دو۔ ہم نے نہاری کھانے کا ارادہ نہ بدلا اور پھر ایک ایسے علاقے میں پہنچ گئے جو ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ اچانک ہماری گاڑی کو چند نوجوانوں نے روکا۔ وہ مسلح تھے۔ جب وہ قریب آئے تو انہوں نے بھی پہچان لیااور کہا ڈرامے کے ڈائیلاگ سناؤ۔ شفیع محمد اور سہیل اصغر نے ڈرتے ڈرتے ڈائیلاگ سنائے۔ انہوں نے ایک گاڑی میں اپنے بندے ہمارے ساتھ بھیجے کہ ہمیں محفوظ مقام تک چھوڑ آئیں۔ وہ ہمیں ایک جگہ چھوڑ گئے جہاں سے ہم اپنے ہوٹل آئے۔ اس کے بعد سے اب تک ایم کیو ایم کے ساتھیوں سے ہماری دوستی اچھی خاصی نبھ رہی ہے اور میں نے انہیں نہ صرف لین دین میں کھراپایا ہے بلکہ ان میں راتوں رات امیر ہونے اور اپنا طبقہ بدلنے کی کسی خواہش کا سراغ بھی نہیں پایا۔
اب ہم پنجا ب میں ایم کیو ایم کے کنونشن پہ آتے ہیں۔ ان کانعرہ موروثی سیاست، جاگیردارانہ سیاست اور کرپٹ اسٹیبلشمنٹ اور اس سے ملحق طبقوں کے خلاف درمیانے طبقے کو مرکزی دھارے میں لانے کے حق میں ہے۔ جس درمیانے طبقے کی وہ بات کر رہے ہیں گزشتہ تین چالیس سالوں کے ظام نے اسی درمیانے طبقے کو نچلے درمیانے طبقے اور پھر نچلے طبقے میں تبدیل کرتے ہوئے غربت کی پٹی کے نیچے دھکیلنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی پذیر ملکوں کی معیشت، تعلیم اور معاشرت کا دارومدار درمیانے طبقے کی محنت، اخلاقیات اورعلوم و فنون سے دلچسپی میں مضمر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جتنی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں وہ سب اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط سے مضبوط تر کرتی رہی ہیں اس لئے کہ حکومتیں چلانے اور ان سے اپنے مفادات پر عمل کرانے والی یہ ایلیٹ رولنگ کلاس بہت سے بیوروکریٹس، ٹیکنوکریٹس، ماہرین اور فوجی وغیر فوجی مشیروں پر مشتمل ایک گروہ ہے۔ ان میں اگر کوئی درمیانے طبقے کاافسر یا ٹیکنوکریٹ کسی طرح پہنچ جاتا ہے تو وہ بھی راتوں رات اپنا طبقہ بدلنے میں مصروف ہو جاتا ہے بلکہ یہ سسٹم اسی پر اپنا رنگ چڑھا دیتا ہے یہ طبقہ کسانوں، مزدوروں، چھوٹے تاجروں، چھوٹے سرمایہ کاروں کے خلاف ایسی پالیسیاں بناتا ہے جس کا فائدہ غیرملکی کمپنیوں اور غیرملکی تاجروں اور کسانوں کو ہوتا ہے جیسا کہ چینی کی موجودہ پالیسی میں مخدوم امین فہیم نے چینی کی درآمد کے لئے 44اب روپے مانگ لئے ہیں۔
یہ اشرافیہ مختلف غیرجمہوری حکومتوں میں جمہوریت کا تڑکا لگا کے قرضہ دینے والے امیر ملکو ں کو مطمئن کرنے کے لئے طرح طرح کے آئیڈیاز فلوٹ کرتے رہتے ہیں مثلاً غیرجماعتی انتخابات، قومی حکومتیں، بلدیاتی انتخابات پر مشتمل حکومتیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے تصورات ملک سے سیاسی عمل کو بے دخل کرنے کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں۔ اس طرح کی رولنگ کلاس کے مفاد میں ہوتا ہے کہ ہر طرح کی پالیسی کی تشکیل ان ہاتھوں سے باہر نہ جائے۔ جب جمہوری دور آتے ہیں تو یہ طالع آزما سیاستدانوں سے طرح طرح کے ایسے کام کراتے ہیں جن سے وہ غیرمقبول ہونے لگتے ہیں اور یہ قطار میں لگی دوسری سیاسی جماعت کو ہلہ شیری دینے لگتے ہیں۔ یہ سیاستدانوں سے جب غیرقانونی کام کرالیتے ہیں تو پھر وعدہ معاف گواہ بن کر ان کے خلاف پیش ہوجاتے ہیں یا کچھ عرصے کے لئے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جو قومی سطح کی سیاست کرتی ہیں ان جماعتوں کو اپنے اپنے صوبوں تک محدود کرنے کے لئے بھی یہ عناصر سرگرم رہتے ہیں تاکہ کوئی جماعت تمام صوبوں سے اکثریت لے کر نہ آسکے اور کمزور حکومت بننے کی صورت پھر اصلی حکومت انہی کے ہاتھوں میں رہے۔
میں ان کرداروں پر کبھی کبھی ڈرامے لکھتا ہوں جن کا الطاف حسین صاحب ذکر فرما رہے تھے۔ اب موجودہ حالات پر نظر ڈالیں جس میں ایم کیو ایم نے پنجاب میں قدم رکھنے کا سوچا ہے۔ کیا یہ ان کے لئے مناسب وقت ہے یا قبل از وقت ہے۔ میری رائے میں اس سے زیادہ مناسب وقت ہو ہی نہیں سکتا۔ میں جغادری تجزیہ نگا رنہیں ہوں۔ لیکن ایک سادہ سی عقل والے کی حیثیت سے دیکھ رہا ہوں کہ پچھلے تین سالوں میں ایسے واقعات نے جنم لیا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اصولوں تک محدود ہوتی دکھائی دے رہی ہیں بلکہ اپنے صوبوں میں بھی صرف ایک حصے پر ان کی عملداری کاخواب یہ اسٹیبلشمنٹ دیکھ رہی ہے۔
نیشنل عوامی پارٹی صوبہ سرحد میں جو اب خیبرپختونخواہ بن چکا ہے میں ہزارہ ڈویژن سے بھی بے دخل کی جارہی ہے۔ اس کاعلاقہ اب پختون علاقوں تک محدود ہو جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) جو پہلے پورے ملک کی بڑی سیاسی جماعت تھی اسے پنجاب میں بھی جنوبی پنجاب سے محروم کرنے کاعمل کل پرویز الٰہی کی قیادت میں شروع ہوچکا ہے۔ میں نئے صوبوں کے بننے کا مخالف نہیں حامی ہوں۔ اس وقت بات صرف بڑی سیاسی جماعتوں کو مرکزی دھارے سے نکالنے والے عناصر کی کر رہا ہوں۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کو سندھ کے اندرونی علاقوں تک محدود کرنے کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس کا فائدہ نہ ملک کو ہوگا نہ جمہوریت کو۔ تو کس کو ہوگا؟ یہ سب جانتے ہیں۔ایسے میں ایم کیو ایم نے پہل کی ہے کہ خود کو لسانی اور مہاجر قومی نعرے سے باہر نکال کر قومی سطح کی سیاست میں شامل ہوجائے۔ شہباز شریف صاحب نے انہیں خوش آمدید کہہ کر سب جماعتوں کے لئے دوسرے صوبوں میں جا کر سیاست کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خود کراچی کادورہ کیا ہے اور ناراض مسلم لیگیوں کومنانے کاآغاز کر دیا ہے۔ آصف علی زرداری نے جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخواہ کا دورہ کرکے اسی ضرورت کومحسوس کرلیا ہے۔ نیشنل عوامی پارٹی نے کراچی میں بڑا جلسہ کرکے ایسی ہی کوشش کی ہے۔ سو اب کسی کو ایم کیو ایم کے پنجاب میں آنے میں کوئی مین میخ نہیں نکالنا چاہئے۔ یہ عوام کو سیاسی سرگرمی میں لانے کی ایک کوشش ہے اور سب جماعتوں کو اپنے اپنے صوبوں سے نکل کر سیاست کرنی چاہئے تاکہ مستقبل میں مضبوط حکومت قائم ہوسکے۔