قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر178کی ضمنی انتخابی مہم میں کرپٹ، بے ایمان اور قانو ن شکن سیاست کی علامت کی حمایت میں پر جوش تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے جس ''کارخیر''کا جواز یہ پیش کیا ہے ''کسی ملک میں انتخابی امیدوار بننے کے لیے ڈگری کی شرط نہیں ہوتی ۔ ''سوال یہ ہے کہ کیا کسی مہذب ملک میں کوئی جعلی ڈگری ہولڈر انتخابی امیدوار بن سکتا ہے؟اور کیا وہ اپنی جعلی ڈگری بنوانے کا جرم ثابت ہونے پر جیل سے باہر رہ سکتا ہے ؟ اتنے قانون تو پسماندہ ملکوں میں بھی بڑے محترم ہیں کہ جعلی تعلیمی سند تیار کر نے کا مر تکب سزاسے نہیں بچ پاتا ۔مظفر گڑھ کے حلقہ انتخاب میں بیمار سیاسی نظام کے مارے بے دست و پاووٹروں کوپیپلز پارٹی کے دستی کی کامیابی کی بشارت دیتے ہوئے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ''مشرف دور میں ڈگری کی شرط نواب زادہ نصراللہ خان کو پارلیمنٹ سے باہر رکھنے کے لیے عائد کی گئی تھی ۔'' بات تو ان کی درست ہی ہوگی ۔اگر ایسا ہی ہے تو بلاشبہ مشرف حکومت کا یہ اقدام خوف پر مبنی اور غیر جمہوری تھا ، لیکن مظفر گڑھ کی نمائندگی کے لیے دستی کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے سے (ایسا نہیں ہے)لیکن یوں لگا کہ جس طرح مشرف نے نواب صاحب مرحوم کو اسمبلی سے باہر رکھنے کے لیے امیدوار کے لیے بی اے کی ڈگری کی شرط رکھی تھی ، اسی طرح موجودہ حکومت نے صرف جمشید دستی کو دوبارہ اسمبلی میں لانے کے لیے ڈگری کی شرط ختم کراوئی۔ گویا ''خوف ''پیپلز پارٹی اور مشرف حکومت کی قدرمشترک ہو ہے۔مشرف کو نواب زادہ نصرا للہ جیسے قد آور اور جمہوری قائد کا خوف تھا ،اور پیپلز پارٹی کو یہ کہ مظفر گڑھ سے کوئی بے داغ ، با کردار اور اہل امید وار رکن اسمبلی نہ بن جائے ۔یقینا اس حلقے میں ان صلاحیتوں کے حامل پیپلز پارٹی کے کار کن ایک نہیں کئی ہو نگے لیکن ایسا کار کن اسمبلی میں پہنچ جائے تو وہاں موجود بڑی تعدادمیں جعلی ڈگری ہولڈرسے بر تر معلوم دیتا ہے ۔ حاوی سیاسی قوتیں حکومتی و سیاسی نظام میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا رونا تو روتی ہیں ، لیکن پارلیمنٹ میں انہیں صاف ستھرے اور اہل اراکین کا غلبہ برداشت نہیں کہ ''اپنی دکان داری متاثر ہوتی ہے۔''ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے ثابت شدہ جعلی ڈگری ہولڈر کے انتخابی جلسے میں وزیراعظم گیلانی کی ببانگ دہل جمشید دستی کی حمایت پر جب اسمبلی میں تنقید ہوئی تو ، انہوں کے اس کا دفاع اس طرح بھی کیا کہ ''جمشید کو ٹکٹ پارٹی نے دیا ہے ، اور وہ اس لیے بھی دستی کی حمایت میں سر گرم ہیں کہ اسی نشست سے ان کے اپنے بھائی مجتبی گیلانی بھی جمشید دستی کے اسمبلی رکنیت سے استعفی دینے پر انتخاب لڑنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے تھے ، بلکہ اس کے لیے انتخابی مہم بھی شروع کر چکے تھے۔ '' اس کا کوئی تصور نہ تھا کہ اب ڈگری کی شرط ختم ہونے کے بعد بھی دستی امید وار بن سکیں گے ۔سپریم کورٹ میں ان کا جعلی ڈگری ہولڈر ہونا ثابت ہو چکا تھا اور وہ بے بس ہو کر اسمبلی کی رکنیت کھو بیٹھے تھے، لیکن دستی حکمران جماعت کا دست و بازو ہے ۔ اس لیے اس کا ہر حالت میں اسمبلی میں پہنچنا ضروری تھا ۔سو ، مجتبی گیلانی کو دستی کے حلقے سے دست بردار کرا کر شجاع آباد کے حلقے میں ضمنی انتخاب کا امیدوار بنایا گیا ۔ ستم یہ ہے کہ وہاں ان کے مقابل مسلم لیگ ن کی امید وار نغمہ مشتاق صاحبہ پر بھی الزام ہے کہ وہ بھی جعلی ڈگری ہولڈر ہیں ۔ ان کے مقابل امیدوار وزیر اعظم کے بھائی چیخ چیخ کر ووٹرز کو بتا رہے ہیں کہ نغمہ مشتاق کی بی اے کی ڈگری جعلی ہے ، اور وہ امیدوار بننے کی اہل نہیں ،وزیر اعظم گیلانی نے دستی کو دوبارہ اسمبلی رکنیت کا امیدوار بنانے پر اسمبلی میں تند و تیز تنقید کا جواب اور جواز پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ''ایم کیو ایم کے علاوہ تمام جماعتوں کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں کہ ان کے اراکین اسمبلی کی ڈگریاں جعلی ہیں ۔' ' پھر یہ بھی فرمایا کہ ''پارٹیاں جعلی ڈگری والوں کو ٹکٹ کیوں دیتی ہیں ؟ میں تو پارٹی کے فیصلے کے مطابق دستی کی حمایت کر رہا ہوں ۔''گویا وزیر اعظم گیلانی نے پارٹی کے کھلے غیر اخلاقی اور جمہوریت کے سینے پر مونگ دلنے والے فیصلے کے سامنے اپنی جس بے بسی کا اظہار کیا ہے ، یہ یقینی طور پر ان کی سیاسی مصلحت ہے ۔اس پر انہوں نے قانون و اخلاق کے احترام کو بھی قربان کر دیا ، اور جمشید دستی سے زیادہ خود ہدف تنقید بن گئے ۔ بلاشبہ پارٹی فیصلے کی تابعداری میں وہ بہت آگے گئے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ملک و قوم اور جمہوریت کدھر جائیں ؟ یہ تو ہمارے امیج کا سوال نہیں ؟ کیاجعلی ڈگری ہولڈر ز کی اسمبلی سے ملک و قوم کو نا قابل تلافی نقصان نہیں پہنچے گا؟ پیپلز پارٹی کے تعلیم یافتہ ، باکردار اور بے داغ کارکنوں سمیت ملک کے حقیقی جمہوریت پسند شہریوں پر جعلی ڈگری ہولڈر کو دھڑلے سے ٹکٹ دینے اور اس کے دفاع سے جو مایوسی ہوئی ، کیا وہ جمہوری نظام پر ان کے یقین کو ڈگمگا نہیں دے گی؟وزیر اعظم گیلانی کو یہ بھی دکھ ہے کہ ''جعلی ڈگریوں کے حوالے سے اسمبلی کی تذلیل کی جا رہی ہے ۔''یہاں انہوں نے میڈیا پر کوئی براہ راست الزام لگا ئے بغیرمزید کہا کہ'' میں نے بھی جرنلزم میں ماسٹر کیا ہے ۔'' انہوں نے مکمل اظہار خیال کیے بغیر اصل میں میڈیا سے شکایت کی کہ وہی اراکین اسمبلی کی جعلی ڈگریوں کے حقائق کو بے نقاب کر کے پارلیمنٹ کی تذلیل کا مر تکب ہو رہا ہے ۔ کالم نویسی میں اپنے ذاتی حوالوں کا تذکرہ بہتر صحافتی قدر نہیں ۔ اگر یہ زیادہ ہو تو یہ بیمار صحافت کی واضح علامت ہے ، لیکن کبھی کبھی یہ متعلقہ اور ضروری ہو جاتا ہے ۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ( قارئین سے معذرت کے ساتھ) بتانا چاہتا ہوں کہ یوسف رضا گیلانی پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے جرنلزم میں میرے کلا س فیلو تھے ۔1974-76ء کے تعلیمی سیشن میں ایک شریف النفس طالب علم کے ساتھ ساتھ پر نکالتے سیاست دان کے طور پر بھی ان کی شخصیت واضح تھی ۔اس وقت کے سیاسی شعور میں وہ فقط قائد اعظم سے بے حد متاثر تھے ۔ایک سچے پکے نظریاتی مسلم لیگی کا رنگ ان پر غالب تھا ۔ وہ لیفٹ اور پیپلز پارٹی کے فسطائی اندازحکومت کے سخت ناقد تھے ،لیکن یونیورسٹی میں سر گرم اسلامی جمعیت طلبا سے بھی دور دور رہتے تھے ۔سو ،سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات میں جمعیت والے ہم (صالح ظافر ، سرور منیر راؤ ، خالق سر گانہ،آغا منیر ، آغا مسعود ، راجا ریاض ،قمر ، ارشاد احمر اور میں )جیسے کلین شیو کو یوسف رضاء کا ووٹ لینے کیلئے آگے کرتے ۔ انتخاب میں جمعیت سے باہر جمعیت کے حامی پولنگ ڈے پر پکے مسلم لیگی کلاس فیلو کی آمد کو یقینی بنانے کے لیے سار ا زور اس پر لگاتے کہ ''مقابلہ پی پی سے ہے جس کے عوامیت کے نام پر غیر جمہوری رنگ بہت واضح ہیں ۔'' یوسف رضاء ہمیں یہ جتا کر ہی ووٹ دینے کا وعدہ کرتے کہ میں اول و آخر مسلم لیگی ہوں ۔ وہ خود کوقائد اعظم کا پیرو کار ہونے پر بڑا فخر کرتے ۔ پھر وہ اپنا وعدہ پورا کرتے اور پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے امیدوار کو ہرانے کے لیے ضرور آتے ۔ یوسف رضاء گیلانی میدان سیاست میں اترے تو انہوں نے اپنی کمٹ منٹ کے مطابق قائد اعظم کی جماعت کا ہی انتخاب کیا ۔ وہ اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے ملتان کے میئر ، قومی اسمبلی کے رکن اور وفاقی وزیر بنے ، پھر حوادث سیاست انہیں پیپلز پارٹی میں لے گئے ۔جس نے انہیں قومی اسمبلی کا سپیکر بنایا ۔ ہم یار دوستوں کی ملاقاتوں میں جب کبھی یوسف رضاء گیلانی کی سیاست کا تذکرہ ہو ا ،سب اسی پر متفق رہے کہ ''یہ پیپلز پارٹی میں مسلم لیگی ہے ۔جو کبھی پورا پپلیاہو ہی نہیں سکتا ۔ '' ان کی سیاست اور جماعت سے ہم سب کے اب تک موجود اختلافات کے باوجود ہم یاران یونیورسٹی کو یہ گمان ہمیشہ رہا کہ یوسف پر پی پی کا وہ مخصوص رنگ کبھی نہیں چڑھے گا جسے وہ ''عوامی ''کہتی ہے ، لیکن یہ عوام مخالف اور جمہوریت کش ہی رہا ۔گیلانی صاحب !اب عوامی عدالت کی بات خطرناک ہو گی جبکہ عدلیہ آزادی اور غیر جانبداری کی جانب گامزن ہے۔پی پی نے ہمارے ملک میں جو نظام سیاست وحکومت تشکیل دیا ہے ، یہ اس کا ''کمال ''ہے کہ اس نے یوسف رضاء گیلانی جیسے نظریاتی مسلم لیگی کو بھی اپنے رنگ میں رنگ دیا ، جس کے قلب و ذہن میں قائد اعظم کی سیاست کا نقش ان بلٹ تھا ۔جسے ہم نے زمانہ طالب علمی میں دیکھا ۔ جعلی ڈگری ہولڈر کی انتخابی مہم چلا کر انہوں نے یہی ثابت کیا ، حالانکہ وہ اب مکمل، بااختیار اور طاقت ور وزیر اعظم ہیں۔ سوچیں! گیلانی صاحب ۔