• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ نے افغان مسئلے کے فوجی حل کے لئے وہاں امریکہ اور نیٹو کی فوجوں میں اضافے، بھارت کو زیادہ کردار دینے اور پاکستان پر دبائو بڑھانے کی جس غیر منطقی اور جارحانہ پالیسی کا اعلان کیا ہے اس کے تباہ کن اثرات سے خطے کو بچانے کی غرض سے پاکستان نے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے پائیدار سیاسی حل کے لئے جو مہم شروع کی ہے اس کے دوسرے مرحلے میں پیر کی شام وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ جواد ظریف سے ملاقاتیں کیں اور انہیں پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ علاقائی مسائل پر پاکستان اور ایران کی پالیسی ایک ہونی چاہئے جو موجودہ صورتحال میں برادر ہمسایہ اسلامی ملک سے پاکستان کے تعلقات میں ہم آہنگی کی خوش آئند علامت ہے۔ اس سے قبل وزیر خارجہ چین کا دورہ کر چکے ہیں جہاں انہوں نے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی سے ملاقات کی۔ ایران کے بعد وہ ترک قیادت سے بات چیت کے لئے انقرہ جائیں گے۔ اس کے بعد روسی وزیر خارجہ سے ملاقات کریں گے اور انہیں خطے میں انسداد دہشت گردی اور بحالیٔ امن کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں سے آگاہ کریں گے۔ اب تک اس مصالحتی عمل کے سلسلے میں ان کی کوششوں کے پاکستان کے نقطۂ نظر سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ چینی وزیر خارجہ نے خواجہ آصف سے ہونے والی بات چیت میں یقین دلایا کہ چین بدلتی ہوئی علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ دونوں رہنمائوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ یہ صرف سیاسی انداز میں مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ توقع ہے کہ اس سال پاک چین افغان وزرائے خارجہ ملاقات میں افغان مسئلے کے قابل عمل حل پر نتیجہ خیز گفتگو ہو گی۔ ایران نے اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کا عندیہ دیا ہے۔ ایرانی صدر نے خواجہ آصف سے ملاقات میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ افغانستان سمیت خطے کی مشکلات کا بیرونی مداخلت کے بغیر علاقائی حل ہی درست مداوا ہے اور ایران اس سلسلے میں تعاون کے لئے تیار ہے۔ خواجہ آصف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ امریکی افواج دو عشروں سے افغانستان میں موجود ہیں لیکن وہ وہاں امن قائم نہیں کر سکیں۔ درحقیقت امریکہ کی فوجی حکمت عملی میں افغانستان اور خطے کے مسائل کا حل موجود ہی نہیں۔ امریکی پالیسی کے حوالے سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ایک غیر ملکی خبر ایجنسی کو انٹرویو نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ امریکی پالیسی کے منفی پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان کے مسائل کا پاکستان کو ذمہ دار قرار دینا غیر منصفانہ ہے۔ امریکہ کو افغان جنگ کے نتیجے میں پاکستان کے جانی و مالی نقصانات اور35 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کا اعتراف کرنا چاہئے۔ پاکستان کے فوجی اور انٹیلی جنس حکام پر پابندی لگانے، فنڈز روکنے اور فوجی امداد مزید کم کرنے سے امریکہ کو ہی نقصان ہو گا۔ اس سے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ متاثر ہو گی۔ امریکی فوجی امداد میں کمی پاکستان کو چین اور روس سے ہتھیار خریدنے پر مجبور کرے گی۔ ہمارے پاس دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لئے دیگر آپشنز موجود ہیں۔ وزیراعظم کا یہ حقیقت پسندانہ تجزیہ امریکی انتظامیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ امریکہ افغانستان میں ناکام ہو چکا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے درست کہا کہ علاقائی بحرانوں کا حل علاقے ہی میں تلاش کرنا چاہئے باہر سے مسلط کردہ کوئی بھی حل علاقائی مشکلات کے خاتمے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی علاقے کے ملکوں کا مشترکہ مسئلہ ہے اس سے نمٹنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ صرف مصالحتی عمل ہی افغانستان اور خطے میں پائیدار امن کی ضمانت ہو سکتا ہے۔ پاکستان ایران چین اور روس اس سلسلے میں جو کوششیں کر رہے ہیں امریکہ کو ان کی حمایت کرنی چاہئے اور کابل حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہئے۔

تازہ ترین