• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور کا حلقہ این اے120ملکی سیاست میں فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کے بعد قومی اسمبلی کی یہ نشست خالی ہوئی تھی۔ اس حلقے میں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سابق وزیراعظم نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز الیکشن لڑرہی ہیں مگر خرابی صحت اور ملک میں عدم موجودگی کی وجہ سے اب ان کی صاحبزادی مریم نواز حلقہ این اے120میں انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ڈاکٹر یاسمین راشد اسی حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے گزشتہ عام انتخابات میں سابق وزیراعظم نوازشریف کا بھی مقابلہ کیا تھا اور مسلم لیگ(ن) کا گڑھ سمجھے جانے والے اس حلقے سے52ہزار ووٹ لئے تھے۔ موجودہ ضمنی انتخاب میں این اے120سے جماعت اسلامی کے امیدوار ضیاء الدین انصاری اور پیپلز پارٹی کے امیدوار فیصل میر بھی الیکشن جیتنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جیت کا سہرا کس کے سر پر سجتا ہے؟ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مگر لگتا یہ ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے لئے یہ ضمنی انتخابات خاصا مشکل ہوگا کیونکہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی چھوڑی ہوئی اس سیٹ پر حکمراں پارٹی کی اخلاقی ساکھ دائو پر لگی ہوئی ہے۔ اگر مسلم لیگ(ن) اپنی اس سیٹ سے ہار گئی تو ملک بھر میں اسے بہت بڑا سیاسی دھچکا لگے گا۔
پانامالیکس کیس میں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد دکھائی یہ دے رہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) حلقہ این اے120سے بمشکل جیت پائے گی۔ اس وقت این اے120میں سرکاری وسائل اور ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔ حتیٰ کہ سرکاری ٹی وی بھی مریم نواز کے روزانہ دوروں اور پروگراموں کی کئی گھنٹوں تک کوریج کررہا ہے۔ سرکاری ٹی وی ریاست کی ملکیت ہوتا ہے اور اس پر حکومت اور اپوزیشن سب کا یکساں حق ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت نے سرکاری ٹی وی کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ کردی ہے۔ چیئرمین پی ٹی وی کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ البتہ حلقہ این اے120میں نجی ٹی وی چینلز نے انتخابی سرگرمیوں میں الیکشن میں حصہ لینے والی سب پارٹیوں کو سرکاری ٹی وی کی نسبت بہتر کوریج دی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے ساتھ تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو اچھی کوریج دی جارہی ہے۔ جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی، عوامی مسلم لیگ اور دیگر امیدواروں کو بھی مناسب کوریج ملنی چاہئے۔ کسی کی حق تلفی نہیں ہونی چاہئے۔ اگر ڈاکٹر یاسمین راشد نے این اے120میں بیگم کلثوم نواز کو ہرا دیا تو یہ بڑا اپ سیٹ ہوگا کیونکہ مسلم لیگ لاہور کو اپنا سیاسی قلعہ سمجھتی ہے۔ سپریم کورٹ میں نوازشریف کی نااہلی کے بعد اس سیاسی قلعے میں دراڑیں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ جماعت اسلامی کے ضیاء الدین انصاری بھی این اے 120میں ایک مضبوط امیدوار سمجھے جارہے ہیں کیونکہ اس حلقے میں جماعت اسلامی کا اچھا خاصا ووٹ بنک موجود ہے۔ جماعت اسلامی اگر اُسے کیش کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یہ بھی مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے لئے مشکلات کا باعث بنے گا۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ این اے120میں الیکشن مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہوگا مگر ضیاء الدین انصاری بھی اس حلقے میں دو بڑے اور مضبوط امیدواروں کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ ضیاء الدین انصاری وکیل ہیں اور زمانہ طالبعلمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے لاہور میں معروف رہنما رہ چکے ہیں۔ اگر امانت ودیانت اور اچھی شہرت و کردار کے حوالے سے دیکھا جائے تو ضیاء الدین انصاری حلقہ این اے 120میں سرفہرست نظر آتے ہیں۔ وہ لاہور کی سیاسی وسماجی شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔ 17اکتوبر کو این اے 120کے عوام کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ سامنے آ جائے گا۔ بہر کیف اس حلقے کا الیکشن مسلم لیگ(ن) کے لئے ایک کڑا امتحان ثابت ہوگا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا! 11ستمبر کو لاہور کے حلقہ این اے120میں داتا دربار چوک پر جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس میں سابق وزیراعظم کی نااہلی ایک تاریخی فیصلہ تھا مگر ابھی ہماری تحریک احتساب جاری ہے۔ پاناما لیکس میں شامل باقی 436 پاکستانیوں کا بھی کڑا احتساب ہونا چاہئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں کرپشن کے خلاف سب سے پہلے جماعت اسلامی نے تحریک احتساب شروع کی تھی۔ اُس وقت یہ کہا جارہا تھا کہ پاکستان سے کرپشن کیسے ختم ہوگی؟ لیکن پاناما لیکس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کی طرف سے سب سے پہلے پٹیشن دائر کرنے اور بعدازاں پاناما لیکس کا فیصلہ آنے کے بعد کرپشن فری پاکستان کا سلوگن اب ایک عوامی تحریک بن چکا ہے۔ سینیٹر سراج الحق ملک میں واحد پارٹی سربراہ اور سیاستدان ہیں جو کہ کرپشن کے مکمل خاتمے اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کی بات کررہے ہیں۔ جناب سراج الحق کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملک میں کرپشن کے لئے بھرپور آواز اٹھائیں کیونکہ ان کے دامن پر کرپشن کی کوئی چھینٹ نہیں ہے۔ وہ دومرتبہ کے پی میں صوبائی وزیر خزانہ رہے۔ اربوں روپے ان کے ہاتھوں سے منظور ہوئے لیکن ان کی امانت ودیانت کا اعتراف اپنوں اور غیروں سب نے کیا۔ عالمی اداروں نے بھی ان کے شفاف اور اجلے کردار کی تعریف کی۔ مجھے 11 ستمبر کو لاہور سے اسلام آباد تک احتساب مارچ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ سینیٹر سراج الحق کا شاندار استقبال کیا گیا۔ جماعت اسلامی پنجاب کا سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد تک ’’احتساب مارچ‘‘ تاریخی اور قابل دید تھا۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ پنجاب کے عوام کرپٹ قیادت سے تنگ آچکے ہیں اور وہ اب صاف ستھری، دیانتدار اور باکردار قیادت چاہتے ہیں۔ داتا دربار لاہور، گوجرنوالہ، وزیرآباد، گجرات، کھاریاں سٹی، لالہ موسیٰ، جہلم، گوجرخان اور راولپنڈی میں تاریخی احتساب مارچ سے سینیٹر سراج الحق، لیاقت بلوچ اور دیگر مقررین نے خطاب کے دوران لوگوں کے دلوں کوخوب گرمایا۔ راولپنڈی میں مریڑ چوک کے ساتھ وارث خان روڈ پر احتساب مارچ کے اختتام پر عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے راولپنڈی اور اسلام آباد کے مکین اپنے گھروں سے نکل کر اس جلسہ عام میں آگئے ہیں۔ تاحد نظر انسانوں کا سمندر تھا جو اپنے قائد سراج الحق کو سننے کے لئے آیا تھا۔ یہ واقعی ایک تاریخی مارچ تھا۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنی نااہلی کے بعد اسلام آباد سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر ریلی نکالی تھی۔ نوازشریف کی نااہلی اور جماعت اسلامی کے احتساب مارچ میں ایک واضح فرق یہ تھا کہ جماعت اسلامی کی ریلی میں عوام اور کارکن بڑی تعداد میں نظر آئے لیکن نوازشریف کی جی ٹی روڈ پر ریلی میں سرکاری ملازمین اورحکومتی وسائل کا بے تحاشا استعمال کیا گیا تھا۔ بلکہ کئی جگہوں پر پنجاب پولیس کے اہلکار مسلم لگ(ن) کے کارکنوں سے زیادہ نظر آئے۔ احتساب مارچ کے شرکاء سے اپنے اختتامی خطاب میں سینیٹر سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ نیب آصف زرداری کی طرح نوازشریف کو بھی ایماندار ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ صرف نوازشریف ہی نہیں پاناما لیکس میں شامل تمام بدعنوان افراد کا احتساب کیا جائے۔ ابھی ہم نے کرپشن کے کئی بڑے سومنات گرانے ہیں۔ ہمارا مقصد اس ملک کو اسلامی مملکت بنانا ہے۔ جناب سراج الحق کا مطالبہ ’’احتساب سب کا‘‘ بجاطور پر درست ہے۔ پوری قوم اب قومی دولت لوٹنے والے لٹیروں سے نجات چاہتی ہے۔ احتساب اور انتخابات کا عمل ساتھ ساتھ چلنا چاہئے۔2018میں آئندہ عام انتخابات سے قبل کرپٹ افراد کو سیاست سے پاک کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔

تازہ ترین