• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی....ناتمام…ہارون الرشید

جج اور جرنلسٹ فرشتے نہیں لیکن اگر وہ بھی آزاد نہ رہے تو اس ملک اور معاشرے کا انجام کیا ہوگا؟
جناب اکرم شیخ سکرین پر نمودار ہوئے لیکن ان کی طبیعت شاید حاضر نہ تھی۔ انہوں نے کچھ بدمزہ سی گفتگو کی۔ کوئی تراشیدہ جملہ، تشبیہ نہ استعارہ۔ شیخ صاحب ایسے ہی واقع ہوئے ہیں۔ کبھی ایسی بات کہہ دیں گے کہ گھنٹوں آپ سر دھنتے رہیں۔ نواب زادہ نصر اللہ خان وہ نہیں کہ آہنگ ہمیشہ برقرار رہے لیکن کبھی ایسا بر محل شعر پڑھ دیتے ہیں کہ ایک پورا دن ، ایک پوری شب جگمگااٹھتی ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر پیر زادہ کے ایک پروگرام میں، جب میں شریک ِ گفتگو تھا، صدر زرداری کے عہدِ اقتدار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔
اس کے عہدِ شباب میں جینا
جینے والو ، تمہیں ہوا کیا ہے
وہ خود جھومے اور پورا ماحول جھومتا رہا، ان کے سوا جنہیں حسِ لطیف میں سے کوئی حصہ نہیں ملا۔آج مگر ان کی گفتگو پھیکے خربوزے ایسی تھی، گوارا کر سکو تو گوارا لیکن پھر کچھ دیر کے بعد وفاق کے وکیل ڈاکٹر عبدالباسط دکھائی دئیے۔۔۔اور چورہ طبق روشن ہوگئے۔
ذہن ابھی تک طلعت حسین اور ان کے ساتھیوں سمیت ان چھ سو جانبازوں میں الجھا ہوا تھا، جو مجروح فلسطینیوں کو مرہم پہنچانے گئے اور ایسے ستم کا شکار ہوئے، جس کا انجام معلوم نہ تھا۔ ابھی کچھ دیر میں وزیر خارجہ کو بروئے کار آنا اور یہ ارشاد کرنا تھا"ہم ان (امریکہ) سے اپنی تشویش اور اضطراب کا ذکر کردیں گے"ایک کے بعد دوسرا نابغہ، ایک کے بعد دوسری اذیت۔ ساڑھے چار بجے، تقریباً اسی وقت جب نصرت جاوید کو اپنے ذرائع سے اطلاع ملی ، میں نے لاہور میں اپنے دوست سہیل ظفر کو مطلع کیاکہ ہمارے ٹی وی کے طرح دار ساتھی کی زندگی محفوظ ہے۔ ساڑھے چھ بجے سیّد مشاہد حسین نے تصدیق کر دی لیکن ہمارے محترم وزیر خارجہ کو سوا آٹھ بجے تک اطلاع نہ تھی ۔ خارجہ امور کے وزیر سے کن اوصاف کی امید کی جاتی ہے۔ الفاظ کے انتخاب میں احتیاط اور خارجی معاملات میں باخبری۔صدر زرداری کی مہربانی سے شاہ محمود قریشی ، ذوالفقار علی بھٹو کے جانشین ہو گئے۔
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
ادھر وزیر اطلاعات رنجیدہ اخبار نویسوں سے الجھتے رہے، صبر کی جنہیں تاب نہ تھی اور جن میں سے بعض نے بے شک گنوار پن کی انتہا کردی۔
سورج غروب ہوا اور رات ڈھلنے لگی تو لاہور کے جناح ہسپتال والے خونیں ڈرامے کا آغاز ہوا۔ اس افسر کو میں نے ٹی وی کیمروں کے روبرو دیکھا، اپنے تقرر کے ہنگام ، جس نے میاں محمد نواز شریف سے کہا تھا: اگر یہ منصب مجھے سونپ دیا گیا تو عمر بھر میں شریف خاندان کا وفادار رہوں گا۔ اگرچہ ان کی بات معقول تھی کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں زندگیاں قربان کرتے پولیس والوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے۔ ایک سوال مگر مسلسل پریشان کرتا رہا کہ جہاں اس طرح کے مثالی افسر پائے جاتے ہوں ، وہاں زندگیا ں نذر کرنے کا حوصلہ کتنا ہوگا اور کب تک برقرار رہے گا۔ نپولین کا قول یاد آیا کہ شیروں کا وہ لشکر شکست سے دوچار ہوگا، جس کی رہنمائی ایک گیدڑ کے ہاتھ میں ہو اور گیدڑوں کی فوج کامیاب ہو سکتی ہے، اگر ایک شیر ان کا رہنما ہوجائے۔۔۔یا رب اس ملک میں ہر کہیں قیادت گیدڑوں کو کیوں بخش دی گئی؟
چودہ گھنٹے پر پھیلی نشریات میں ڈاکٹر عبدالباسط کا چہرہ بار بار ابھرتا اور ڈوبتا رہا ۔ بہت دور سے ، جیسا کہ اکثر انہیں دیکھا ، وہ کیسے معقول اور متین نظر آتے تھے لیکن آج انہوں نے کیا کیا؟ خود اپنے ساتھ، اپنے مئوکل کے ساتھ، عدالت عظمیٰ کے ساتھ، اس قوم کے ساتھ ، جن کے دل پہلے ہی بہت دکھے ہوئے ہیں ، سب سے بڑھ کر اپنے ساتھ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا"What is character? it is self respect" حسن کردار کیا ہے؟ فقط عزت نفس کا شعور۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بارے میں اوّل انہوں نے یہ کہا کہ وہ انہیں ایشیا کا عظیم ترین جج سمجھتے ہیں، پھر یہ فرمایا کہ اعتراضات تو وہ اٹھا رہے ہیں مگر اپنے موکل کی ہدایت پر۔ ان کے بقول یہ ہدایات انہیں ایوان صدر سے ملیں تھیں، صدرِ ذی وقار کے عالی مرتبت پرنسپل سیکرٹری سلمان فاروقی کے توسط سے۔ سلمان فاروقی نے کہ حکمران طائفے کی اہم ترین شخصیت ہیں، اپنے کسی کارنامے کا سراغ کبھی نہ چھوڑا جس پر قانون گرفت کر سکے۔ آج بھی اوّل ٹیلی فون پر ، اس کے بعد تحریری طور پر تردید کردی تو ڈاکٹر عبدالباسط نے غلطی کا اعتراف کر لیا۔ تسلیم کیا کہ وہ قصور وار ہیں او رسزا کے مستحق لیکن اب اخبار نویسوں کے سامنے وہ ایک اور ہی راگ الاپ رہے تھے۔ مطلع کیا کہ فل بنچ کے سترہ ججوں میں سے صرف جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے اور جسٹس افتخار محمد چوہدری ان سے سوالات کرتے رہے۔ کیا سترہ کے سترہ جج کیا کرتے ہیں؟ عدالت کیا مچھلی بازار ہوتی ہے؟پھر الزام لگایا کہ چیف جسٹس نے صدر اور وزیر اعظم کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کی ،کیا یہ پوچھنا کہ ہدایات کہاں سے لی گئیں، سازش ہوا کرتی ہے؟ ابھی کچھ دیر پہلے جو مرد کار ایشیا کا عظیم ترین منصف تھا، خود اسی کو توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا اور دھمکی دی کہ وہ ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ، صدرِ پاکستان سے ان کی شکایت کریں گے۔کیسے کیسے عجیب طائفے کو اقتدار میں دیکھ لیا، بزدلی اور بہادری کا کیسا نادر امتزاج ۔ پنجابی کی ایک بولی کا سادہ سا ترجمہ یہ ہوگا۔
میں تھانیدار کی سالی ، قید کرادوں گی
سر زمین شام میں آج بھی ملّانصیرالدین کا مزار ان کے مضحک کردار کی دلچسپ یادگار ہے ۔ دروازے پر تالا پڑا ہے اور داخلے پر پابندی مگر دیواروں میں اتنے بڑے شگاف ہیں کہ زائر بے تکلف زیارت فرما سکتے ہیں۔ داستان کے مطابق پڑوسی قاضی کی خدمت میں حاضر ہوا کہ عاریتاً لی ہوئی شیشے کی صراحی توڑ ڈالی ہے ۔ ملّا کا جواب یہ تھا: میں نے صراحی لی ہی نہیں ، ثانیاً میں نے ثابت و سالم لوٹائی ، مزید یہ کہ جب مجھے دی گئی تو اسی وقت تڑخی ہوئی تھی۔
وزیر اطلاعات جناب قمر الزمان کائرہ اور وزیر قانون(؟) بابر اعوان دوسروں کو قصور وار ٹھہرا سکتے ہیں مگر اس ناچیز کونہیں۔ چیف جسٹس نے رچرڈ ہالبروک سے ملاقات کی تو میں نے اعتراض اٹھایا ۔ ایک سول جج پر تنقید کی تو لکھا کہ وہ فیصلہ صادر کر سکتے ہیں مگر عدالت کے باہر اظہار خیال نہیں ۔ جسٹس خواجہ شریف اور خود جناب چیف جسٹس نے بعض مواقع پر بیانات جاری کیے تو لفظ چبائے بغیر عرض کیا کہ جج گفتگو نہیں کیا کرتے ، فقط ان کے فیصلے کلام کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اس کے مخالفین میں کبھی امتیاز روا نہ رکھّا ۔ الحمد للہ قاف لیگ، نون لیگ، متحدہ مجلسِ عمل، اے این پی اور ایم کیو ایم ، سبھی کو ایک ہی ترازو میں تولا اور باٹ کبھی نہ بدلے۔ ڈاکٹر عبدالباسط کے طرز عمل کا مگر کیا کیجیے ، کوئی ادنیٰ ساجواز بھی نہیں، کس طرح دل کو تسلی دیجئے؟
ملک میں پارلیمان کا حقیقی وجود ہے، جمہوری سیاسی جماعتوں اور نہ قانون نافذ کرنے والی حکومت کا ۔ ٹیکسوں میں وصولی کی شرح نصف سے کم ہے ، مالی بے قاعدگیاں اور کرپشن ایک ہزار ارب روپے سالانہ کے لگ بھگ ؛چنانچہ امریکہ کی خوشہ چینی اور خوشامد۔دہشت گردی ، بدامنی ، بھوک ، بے روزگاری ، پٹوار ، سرکار اور استعمار۔خلقِ خدا گویا بھیڑیوں کے رحم وکرم پر ہے۔ طویل اور اذیت ناک جدوجہد کے بعد پاکستانی عوام نے دو ادارے تشکیل دئیے ہیں۔ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا۔ منتخب جمہوری حکومت ان دونوں کے درپے ہے اور ہر چیز کے لیے انہی کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے ۔ جج اور جرنلسٹ فرشتے نہیں لیکن اگر وہ بھی آزاد نہ رہے تو اس ملک کا انجام کیا ہوگا؟
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے



تازہ ترین