• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو وقت نزدیک آرہا ہے...نقش خیال…عرفان صدیقی

اپنے ہنر کی عظمت کا پاسبان اور غریبانہ خودی کا نگہبان، مزدور شاعر احسان دانش ہمیں بھولتا جا رہا ہے۔ عملاً مزدوری کرنے اور ساری عمر تنگ دستی میں گزارنے والے اس طرحدار شخص کا فقیرانہ استغنا کیا وجاہت رکھتا تھا کہ درباروں میں زلزلہ بپا رہتا تھا۔ دانش کا یہ شعر فریم میں جڑا میرے کمرے کی زینت ہے۔
صد شکر کہ افلاس کی یلغار میں دانش
فاقہ کوئی توہین ہنر تک نہیں پہنچا
غالباً ساٹھ کی دہائی میں، میں نے دانش کی ایک طویل انقلابی نظم پڑھی تھی۔ اس کے صرف ایک دو بند یاد رہ گئے گزشتہ ہفتے دانش مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر فیضان دانش نے بصد مہربانی دانش صاحب کے کلام کے تین مجموعے عزیزی کیپٹن (ر) طارق کے ذریعے مجھے ارسال کئے۔ تیس برس پہلے شائع ہونے والے مجموعے ”فصل سلاسل“ میں مجھے وہ نظم مل گئی۔ پینتالیس بندوں پر مشتمل اس طویل نظم کا عنوان ہے۔ ”جو وقت نزدیک آرہا ہے۔ (پیش بینی) یہ نظم غالباً ایوب خانی مارشل لا سے بھی پہلے کی ہے۔ نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن یوں لگتا ہے جیسے یہ نظم آج کہی گئی ہے۔کالم کی تنگ دامانی اجازت نہیں دے رہی ورنہ جی چاہتا ہے کہ جامد ہو کر مستقلاً ہمارا مقدر بن جانے والے موسموں کا یہ منظر نامہ اپنے قارئین کو بھی دکھاتا۔ احسان دانش نے نظام کے ہمہ پہلو بگاڑ، بد نظمی، کرپشن، عوام کی زبوں حالی، مزدور کی بے چارگی، غریب کی خستہ حالی اور خلق خدا میں پھیلتے اشتعال کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ایسے خونی انقلاب کی پیش بینی کی تھی جو اس استحصالی نظام کو اکھاڑ کے رکھ دے گا۔ دانش نے کہا تھا
اگرچہ مزدور دم بخود ہیں، کسان گردوں کو تک رہے ہیں
ضمیر صبح و مسا میں رہ رہ کہ سرخ کوندے لپک رہے ہیں
دلوں میں لاوے ابل رہے ہیں مواد سینوں میں پک رہے ہیں
زمیں کی پھولی ہوئی ہیں سانسیں ملوں کے سینے دھڑک رہے ہیں
ذرا کہیں سے اٹھا جو غوغا، تمام یہ شور و شر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے، کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
نہ جانے کس دن عوام بگڑیں، خواص ظلم و ستم بڑھا دیں
نہ جانے کس دن یہ جھونپڑوں کے مکین محلوں کو لڑکھڑا دیں
نہ جانے کس دن غریب گاہک دکانداروں کا زعم ڈھا دیں
نہ جانے کس دن خموش فوجیں نظام نو کا علم اٹھا دیں
نظام نو کا جو سیل روکے، مجال دیوار و در نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
یہاں جو انسان اینڈتے ہیں یہاں وہ انسان نہیں رہینگے
وفا کی مہلت نہیں ملے گی، جفا کے امکاں نہیں رہیں گے
یہ جنتیں منہ کے بل گریں گی، یہ قصر و ایواں نہیں رہیں گے
مسہریوں پر پڑے گا ملبہ یہ ساز و ساماں نہیں رہیں گے
جو سر ملا ہے تو دھڑ ہے غائب جو دھڑ ملا ہے تو سر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آ رہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے
اللہ کرے ایسا وقت نہ آئے لیکن کیا ملک کی نام نہاد اشرافیہ کو اندازہ ہے کہ وطن عزیز کے تہی دست لوگ کس آزار سے دو چار ہیں، کیا سرکار کو ان لوگوں کی بھی کچھ خبر ہے جو اس کی ملازمت میں عمریں گھلا رہے ہیں؟ میں اقتصادیات کے اسرار و رموز سے واقف نہیں۔ بجٹ آرہا ہے اور میں معاشی پیچیدگیوں کی گرہ کشائی کا ہنر نہیں جانتا۔ میرے پاس ایسا کوئی نسخہ بھی نہیں جو چشم زدن میں سارا منظر نامہ بدل ڈالے اور ہم احتیاج کے روگ سے نکل آئیں۔ لیکن میں اتنا جانتاہوں کہ پیمانے لبا لب بھر چکے ہیں اور چھلک جانے کو ہیں۔ آج ہی سوئٹزر لینڈ کی ایک ”معتبر این جی او“ دی سوس ایجنسی فارڈولپمنٹ اینڈ کوآپریشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی تقریباً نصف آبادی ناکافی خوراک کے مسئلے سے دوچار ہے۔ یہ رپورٹ، پاکستان کے دیہی علاقوں میں خوراک کی کمی اور ایس ڈی پی آئی کی رپورٹس کا تسلسل ہے جو 2003 اور 2004 میں جاری کی گئی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 131 اضلاع میں سے 80 (61 فیصد) قلت خوراک کے بحران سے دوچار ہیں۔ ان 80 اضلاع میں سے 45 اضلاع کے لوگ خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں رپورٹ مزید کہتی ہے کہ بہتر صورت حال کے حامل اضلاع میں بھی ترقی کا عمل جامد ہے اور لوگوں کے لئے دو وقت کی روٹی کمانے کے امکانات کم ہورہے ہیں۔

اسی سے منسلک ایک دوسری خبر پہ نظر ڈالئے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے، ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر برائے پاکستان نے انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ برس پاکستان میں دو کروڑ ٹن کے بجائے ایک کروڑ اسی لاکھ ٹن گندم کی کھپت ہوئی گویا تیس لاکھ ٹن گندم کم استعمال کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ اس کی وجہ لوگوں کی قوت خرید میں کمی ہے۔ آٹا خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث گندم کا استعمال کم ہوا۔ رپورٹ میں تو نہیں کہا گیا لیکن اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ دو روٹی کھانے والے نے ایک روٹی کھائی یا پھر کچھ گھروں میں فاقے پڑتے رہے۔
ایک مخلوق وہ ہے جسے سرکاری ملازم کہا جاتا ہے۔ برسوں سے انہیں پندرہ بیس فی صد کے عبوری ریلیف پر ٹرخایا جا رہا ہے۔ حکومت نے کبھی یہ جاننے کی زحمت نہیں کی کہ اس برائے نام اضافے کے بعد پٹرولیم، بجلی، گیس اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ عملاً کسی ملازم کو کتنا ریلیف فراہم کرتا ہے؟ سرکاری ملازم اگر اپنی تنخواہ میں سو فی صد اضافے کا مطالبہ کررہے ہیں تو وہ کلی طور پر حق بجانب ہیں۔ مجھے آج تک یہ منطق سمجھ نہیں آئی کہ جب بھی تنخواہوں پر نظر ثانی کی جاتی ہے یا کوئی ریلیف دیا جاتا ہے تو گریڈ ایک سے گریڈ 22 تک اس کی شرح یکساں کیوں رکھی جاتی ہے۔ ریلیف کے مستحق نچلے طبقے کے کم تنخواہ پانے والے ملازمین ہیں یا بھاری تنخواہیں پانے اور بے کراں مراعات رکھنے والی اعلیٰ بیوروکریسی؟
اس وقت میرے سامنے سرکاری ملازمین کے پے سکیلز کا ایک گوشوارہ ہے جو میں نے ابھی ابھی انٹر نیٹ سے لیا ہے اس گوشوارے کے مطابق گریڈ ایک کے ملازم کی بنیادی تنخواہ 2970 روپے اور گریڈ22 کے وفاقی سیکریٹری کی بنیادی تنخواہ 27680 روپے ہے۔ فرض کیجئے حکومت بیس فیصد اضافے یا ریلیف کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس صورت میں گریڈ ایک کے ملازم کو 594 روپے مزید ملیں گے جبکہ گریڈ 22 کے ملازم کی تنخوا میں 5536 روپے اضافہ ہوجائے گا۔ گریڈ 16/کے ملازم کو 1212 روپے اور گریڈ 20 کے افسر کو 4669 روپے ملیں گے۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کم درجے کے ملازمین کو جو شدید مشکلات کا شکار ہیں، خاطر خواہ فائدہ پہنچایا جائے اور انہیں نہ نوازا جائے جو پہلے ہی آسودہ حال زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی حال پنشنوں کا ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ عدلیہ میں ایک پنشن کا اصول رائج ہوچکا ہے۔ مثلاً آج ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ کے جج کو جو پنشن ملے گی، پندرہ سال پہلے ریٹائر ہونے والے جج پر بھی اس کا اطلاق ہوگا۔ یہ ایک منصفانہ اصول ہے۔ اگر آج گریڈ سترہ سے ریٹائر ہونے والے ملازم کو بیس یا پچیس ہزار پنشن ملتی ہے تو دس سال پہلے کے ملازم پر اس کا اطلاق کیوں نہ ہو؟ کیا دونوں نے اسی مارکیٹ سے اشیاء نہیں خریدنی؟ اسی معاشرے میں زندہ نہیں رہنا؟
حکومت کی شاہ خرچیاں عروج پر ہیں۔ بیرونی قرضے 60/ارب ڈالر کو چھو رہے ہیں۔ داخلی قرضوں کا حجم چالیس کھرب روپے تک چلا گیا ہے۔ صرف گزشتہ تین برس میں 4108 ارب روپے کے قرضے لئے گئے۔ صرف ایک برس کے اندر آئی ایم ایف سے 7.27 ارب ڈالر قرضہ لیا جاچکا ہے۔ مزید قرضے نہ بھی لئے جائیں تو 2015 تک ہمیں ہر سال دس ارب ڈالر صرف سود کی قسطوں میں ادا کرنا ہوں گے۔ 1990ء میں ہر پاکستان پر ایک روپیہ قرض تھا۔ آج یہ قرض 2700 روپے ہوچکا ہے۔ اللے تللے جاری ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن زوروں پر ہے اور خلق خدا غربت، مہنگائی، بے روزگاری کی چتا میں جل رہی ہے۔بجٹ کے اسرار و رموز جانیں اور حکومت جانے لیکن پیمانہ ہائے صبر چھلک جانے کو ہیں۔ جمہوری حکمران مجرمانہ تغافل سے کام لے رہے ہیں۔ وہ ایڑیاں اٹھا اٹھا کر انہونی کو آواز دے رہے ہیں۔ میں ان کی خدمت میں حضرت احسان دانش کی اسی پرسوز نظم کا ایک بند پیش کررہا ہوں۔
اگر مناسب خیال کرتے ہو، امن کا اہتمام کرلو
زبوں نظامی اگر غلط ہے درست اپنا نظام کرلو
جو پالیسی میں نہ فرق آئے تو ملک کا انتظام کرلو
تمہی پہ اب فیصلہ ہے اس کا، مٹو کہ خود کو دوام کرلو
یقین کرلو کہ زندگی میں کوئی عمل بے ثمر نہیں ہے
جو وقت نزدیک آرہا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں ہے


تازہ ترین