عشق رسول ﷺ ایمان کی بنیاد ہے، کوئی کلمہ گو اس پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا
(قسط نمبر 2)
جسٹس شوکت عزیز صدیقی
مزید براں عدالت نے قرار دیا کہ وزارت انفارمیشن اینڈٹیکنالوجی محض ایک خاموش تماشائی کا کردار اداکرنے کے بجائےموثر کارکردگی کا مظاہرہ کرے اورمقدمہ کو مورخہ 31-07-2017کے لیے ملتوی کر دیا گیا ۔
5۔مورخہ 31-07-2017کو اس مقدمے کی آخری سماعت ہوئی اور عدالت نے ایک مختصر فیصلہ سنایا ۔ جو کہ حسب ذیل ہے:
I۔"فاضل اٹارنی جنرل نے جناب وزیر اعظم پاکستان کو بھجوائی گئی سمری مع ڈائریکٹر لیگل ، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام ڈویژن) کی جانب سے سیکرٹری ، وزارت داخلہ اسلام آباد کو ارسال کیےگئے خط مورخہ 30-07-2017کی کاپی عدالت میں پیش کی جس کی رو سے یہ استدعاکی گئی کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کے باب15 میں درج جرائم کو ایف آئی اے ایکٹ 1974ء کے شیڈول میں شامل کیا جائے ۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آبادنے بھی اپنی رپورٹ پیش کی"۔
II۔تفصیلی وجوہ کو مؤخر رکھتے ہوئے عدالت اس آئینی درخواست کا فیصلہ درج ذیل احکامات کے ساتھ کررہی ہے ۔
i.فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی اس مقدمے کی تفتیش بمطابق قانون بالکل میرٹ پر کرے ۔ معاملے کی حساسیت اس امر کی متقاضی ہے کہ کسی نئی شکایت / درخواست کی صورت میں اس کا ابتدائی انکوائری کے لیے اندراج کیا جائے اور قانون کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھایا جائے ۔
ii.پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے ) ایک جامع اور مربوط تفصیلی ضابطہ کار وضع کرے جس کے تحت گستاخانہ صفحات / ویب سائٹس کی نشاندہی ہو سکے ، اور بلاتاخیر ضروری اقدامات کیے جا سکیں ۔ چیئر مین پی ٹی اے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ایک سائنسی طریقہ کار وضع کریں جس کے تحت عامتہ الناس کو گستاخی رسول ؐ اور فحش مواد کے سنگین فوجداری نتائج سے آگاہ کیا جا سکے ۔
iii.سیکرٹری وزارت داخلہ متعلقہ محکموں اور افراد کے تعاون سے ایک پینل / کمیٹی تشکیل دیں جو سوشل میڈیا سے گستاخانہ موادکے خاتمے کےلیے ایک جامع مہم چلائے او ر ایسے افراد کی نشاندہی کرے جو ایسے قبیح جرائم میں ملوث ہیں اور ایسے افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے ۔
iv.چونکہ اٹارنی جنرل نے گستاخی رسول ﷺ وغیرہ اور فحش مواد کی تشہیر جیسے جرائم کو انسدادِ برقی جرائم ایکٹ 2016ء اوردوسروںپر گستاخی کے جھوٹے الزام عائدکرنےکے مرتکب افرادکے حوالے سے قانون سازی کی بابت اقدامات شروع کر دیئے ہیں لہذا یہ توقع کی جاتی ہے کہ متعلقہ عہدیدار معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس حکم یعنی2017- 03-31 سے ایک ماہ کے اندر ضروری اقدامات کریں گے ۔
v.جہاں تک ان پانچ بلاگرز کا تعلق ہے ، جو پاکستان سے جاچکے ہیں ، تو اس معاملے میں ایف ائی اے کو ہدایت کی جاتی ہے کہ قانون کے مطابق پیش رفت کرے اور اگر کوئی قابل گرفت شہادت میسر ہے تو ان بلاگرز کو واپس لایا جائے تاکہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو سکے لیکن اس معاملے میں قانون کے مطابق سلوک کے اصول کو مد نظر رکھا جائے ۔
vi.وزارت داخلہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ملک میں کام کرنے والی ایسی NGO’sکی بھی نشاندہی کریں ، جو ملک میں گستاخانہ مواد اور فحش مواد کی اشاعت و تشہیر کے ایجنڈا پر گامزن ہیں ، بلاشبہ ایسی این جی اوز بیرون اور اندرون ملک سے مالی امداد کے ذریعے کام کر رہی ہیں ، تاکہ ایسی این جی اوز کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکے۔"
درج بالا مختصر فیصلہ کی تفصیلی وجوہات زیرِ نظر پیش ہیں ۔
6۔ یہ امر انتہائی لائق تشویش ہے کہ ُملک ِ خداداد میں بیرونی امداد سے چلنے والی NGO’sاور نام نہاد دانشور انتہائی مکرو ہ فعل کو ایک منظم سازش کے تحت اسلام دشمن ایجنڈا پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نبی محترم حضرت محمدﷺ کی پاکیزہ و مننّرہ شخصیت پربے ہودہ ، شرمناک اور گھٹیا الزامات لگا کر اُن کے مقام کو کم کرنے کی سعی لا حاصل کر رہے ہیں اور دوسری جانب Saint Valentine جیسے بدنام اور فحاشی کی علامت کو نوجوان نسل کا ہیروبنا کر پیش کیا جاتاہے افسوس کہ ریاستی ادارے اور میڈیا بھی اس بھیانک عمل کا حصہ بن چکے ہیں، گستاخی رسولﷺ میں تمام حدیں پھلانگ جانے والوں اور انکی عظمت و توقیر کو تار تار کرنیکی کوشش کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروا ئی کا مطالبہ نحیف جبکہ کسی ردعمل کا شکار ہو جانےوالے کیلئے موم بتیوں کو روشن اورپھولوں کو بکھیر کر میڈیا پر ظلم کا عنوان بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ عدالت کسی بھی غیر قانونی فعل اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی۔ لیکن ایسے واقعات اُسی صورت رُک سکتے ہیں جب گستاخی رسولﷺ کے مرتکب عناصر کے خلاف بروقت اور دیانتدارانہ کارروائی ہو۔ ایسے مکروہ فعل کے خلاف پوری پاکستانی قوم مدعی ہوتی ہے اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار۔ پاکستانی قوم کا نبی محترم ﷺ کی محبّت، اُن سے عشق اور تمام رشتوں سے اعلٰی اور بلند مُقام دینا ایمان کی بنیادہے جس پر نہ کو ئی مصلحت کام آتی ہے اور نہ ہی کوئی دلیل کارگر ثابت ہوتی ہے۔ یہ وہ پُر کیف لذت ہے جس پر کو ئی کلمہ گو سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔
سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کی تضحیک و ہرزہ سرائی کے مسئلے کو پاکستان کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بالخصوص اخبارات اور ملک کے ممتاز کالم نگاروں ، صحافیوں نے بھر پور انداز میں اجاگر کرتے ہوئے نہ صرف اپنی آواز بلند کی بلکہ قوم کے جذبات کی عکاسی کی ۔ اس عدالت میں مقدمہ کی کارروائی کے دوران بھی اہل علم اور دانشور حضرات نے اپنے اپنے طورپر مسئلے کی سنگینی سے ارباب اختیار و اقتدار کو متنبہ کرنے کی کوشش کی ۔الیکڑانک میڈیا میں بھی اس مسئلے کو شدت کے ساتھ موضوع بحث بنایا گیا اور تقریباًہر نشریاتی ادارے نے اس موضوع پر علماء ، دانشوروں ، مفکرین ، سیاستدانوں اور مختلف طبقوں کے معززین اور بااثر شخصیات کے احساسات ، آرا اور افکار کو مختلف پروگراموں کے ذریعے نشر کیا ۔یہ تمام عمل بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مسئلہ نہ صرف مفاد عامہ سے متعلق ہے بلکہ ملک کا ہر مسلمان شہری سوشل میڈیا پر مذموم گستاخانہ مہم پر دل گرفتہ ہے ۔
اس دوران صرف چند دنوں میں مختلف اخبارات ، رسائل اور جرائد میں تخریب اور شر انگیزی کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا جس کا یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ۔ تاہم بطور حوالہ چند اقتباسات نقل کرنے ضروری ہیں تاکہ معروضی حالات و واقعات سے بھی مفاد عامہ کا پہلو اجاگر ہو سکے ۔ روزنامہ جنگ نے اپنے " اداریے "میں سوشل میڈیا پر ہرزہ سرائی پر متنبہ کرتے ہوئے لکھا :
" اظہار رائے کی آزادی کے نا م پر مغرب کے جو حلقےمسلمانوں کی مقدس مذہبی شخصیات کی شان میں گستاخیوں کے ارتکاب کو جائز قرار دیتے ہیں ان کے موقف کے بودے پن کو ظاہر کرنےکےلیے پوپ فرانسس کے یہ الفاظ کافی ہیں کہ اگر تم کسی کی ماں کو گالی دو توجواباًاپنے منہ پر تھپڑ کھانے کو تیار ہو جاؤ۔ تاہم مسلمانوں کو دل آزاری اور شر پسندی کے مذموم کھیل کے پیچھے چھپے اصل مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے رد عمل کے اظہار کے طریقوں کا تعین کرنا چاہیے ۔اس اشتعال انگیزی کا مقصد مسلمان عوام کو پُر تشدداحتجاج پر اکسانا ہوتا ہے تاکہ اسلام کو دہشت گردی کاعلم بردار قرار دے کر بد نام کیا جائے ۔ " (جنگ ، 26 مارچ ، 2017)
نوائے وقت نے اپنے "اداریے " بعنوان " سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد پھیلانے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے " میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو متوجہ کرتے ہوئے نہ صرف سخت تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے بلکہ سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے نظام کو وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لکھا :
" پاکستا ن کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم ہوا ، انبیائے کرام بالخصوص رسول اکرم ﷺ ، صحابہ کرام اور اولیائے کرام اور اہل بیت(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کا احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اس کی پاسداری حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے ۔ بد قسمتی ہے کہ نام نہاد ترقی پسند اور لبرل ہونے کے دعویداروں نے اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں اسلام اور قابل احترام مذہبی ہستیوں اور سیاسی جماعتوں کے اکابرین کے تمسخر کو اپنا مشن بنا لیا ہے اور سوشل میڈیا پران کے خلاف توہین آمیز کلمات اور مواد سے مسلمانوں کے جذبات بھڑکا کر معاشرے میں نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں ۔ یہ اسلام اورپاکستان کے خلاف سازش کے مترادف ہے ۔آزادی اظہار کے نام پر مقدس ہستیوں کی تضحیک کرنے والوں کی سرگرمیاں ناقابل برداشت ہیں ۔ حکومت کو اس کے خلاف سخت تادیبی اقدام اٹھانا چاہیے ۔ اب تک اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہ ہونا افسوس ناک ہے ۔ وزارت داخلہ کو سوشل میڈیا کی مانیٹرنگ کے نظام کو مؤثر و فعال بنا کر آپریشن ردالفساد کے ذریعے گستاخی کے مرتکب افراد اور ان کے سہولت کاروں کو نکیل ڈالنا چاہیے تاکہ سوشل میڈیا پر جاری اس شرمناک مہم کو لگام دی جائے ۔" (نوائے وقت : 29اپریل ، 2017)
سوشل میڈیا پر گستاخانہ مہم کو فتنہ انگیزی ، شرنگیزی اور اشتعا ل انگیزی کی شرمناک کارروائی قرار دیتے ہوئےجناب انصار عباسی (معروف صحافی / کالم نگار/ تجزیہ نگار ) لکھتے ہیں :
’’یہ قانون تو ریاست کو گستاخی کے الزام پر کارروائی کی ہدایت دیتا ہے ۔ جو کچھ حال ہی میں عدلیہ ، پارلیمنٹ اور حکومت نے سوشل میڈیا پر سے گستاخانہ مواد کو ہٹانے کے لیے کیا وہ انتہائی قابل تعریف اقدام ہے اور اس کا مقصد ایک ایسے فتنہ پر قابو پانا ہے جو کسی بھی اسلامی معاشرے میں اشتعال انگیزی ، نفرت اور غم و غصہ کا باعث بنتا ہے ۔ کسی ایک واقعہ کا بہانہ بنا کر کوئی اگر یہ چاہے کہ blasphemy-law کو ہی ختم کر دیا جائے یا کوئی آزاد ئ رائے کے مغربی معیارات کو یہاں لاگو کیا جائے تو ایسا ممکن نہیں ہو سکتا کیوں کہ اس سے فتنہ بڑھے گا ۔"
حکومت اور ارباب اقتدار کو گستاخانہ مواد کی تشہیر سے روکنے اور مرتکبین کو قرار واقعی سزا دلوانےکےلیے مزید لکھتے ہیں :
"اسی طرح سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر کو روکا جائے اور ایسا کرنے والوں کو سزائیں دی جائیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دوسروںپر توہین مذہب کے جھوٹےالزامات لگا نے والوںسے بھی سختی سے نپٹا جائے ، انہیں سزائیں دی جائیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے مواد (جھوٹے الزامات ) کو بھی سوشل میڈیا پر بلاک کیا جائے اور میڈیا پر اس کی تشہیر کوسختی سے روکا جائے ۔ ہمیں نوجوانوں اور بچوں کو یہ تعلیم بھی دینی چاہیے کہ وہ نہ صرف ہر صورت میں اپنے دین اور مقدس ہستیوں کا احترام کریں بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق دوسروں کے مذاہب کو بھی بُرا مت کہیں ۔"
اپنے ایک اور کالم میں جناب انصار عباسی میڈیا پر شرانگیزی کی روک تھا م کے لیے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے اور اسے ایک ضابطہ کار کا پابند بنانے کی ضرورت کا اعادہ کرتے ہوئے تجاویز اور مطالبات پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :۔
"اگر میڈیا اور سوشل میڈیا کو فتنہ بازی ، شر انگیزی سے روکنا ہے تو پھر اس کے لیے ان ذرائع ابلاغ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ریاست کو ضروری اقدامات کرنے ہوں گے جس کا ساتھ ہم سب کو دینا ہو گا ۔ ایک مربوط لائحہ عمل کے تحت سختی سے توہین مذہب سے متعلقہ ہر قسم کے مواد کو روکنا ہو گا کیوں کہ گستاخانہ مواد فتنہ اور شر کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اسی طرح توہین مذہب کے جھوٹے الزامات کے لیے بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کو استعمال سے سختی سے روکا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسا مواد جو ہمارے بچوں کو دہشتگردوں کی طرف راغب کرے یا اُن کے اخلاق ، کردار کو تباہ کرے اور انہیں فحاشی و عریانیت کے راستے پر چلانے کا ذریعہ بنے تو اُسے بھی میڈیا اور سوشل میڈیا پر روکا جانا چاہیے۔"
سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے بعدگستاخانہ مواد پر اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے معرو ف کالم نگار محترم جاوید چوہدری لکھتے ہیں :
’’دنیا میں ہر چیز کے اچھے پہلو بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی ، سوشل میڈیا میں بھی درجن بھر خرابیاں موجود ہیں ان سب خرابیوں میں بڑی خرابی سنسر شپ کی کمی ہے۔آپ سوشل میڈیا کے کسی بھی پیج پر کوئی بھی مواد چڑھاسکتے ہیں، دنیا کا کوئی شخص آپ کو روک نہیں سکتا۔ یہ خرابی خوفناک ہے اور اسلامی دنیا اس وقت اس خرابی کا بڑا ہدف ہے ، دنیا کے چند منافق مسلمان ، چند عاقبت نا اندیش پاکستانی ، چند شر پسند غیر مسلم اور چند ننگ افلاس قادیانی اس خرابی کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں ، یہ سوشل میڈیا پر روزانہ گستاخانہ مواد چڑھا دیتے ہیں جو ہم مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔پاکستان میں ایسے 70گستاخ ہیں ، ایف آئی اے نے گیارہ لوگوں کا اایک ایسا گروپ بھی پکڑا جو مسلسل یہ مکروہ حرکت کر رہا تھا ، یہ لوگ پاکستان سمیت پوری دنیا میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔‘‘
پاکستان کے کروڑو ں لوگوں کی بے بسی کی کیفیت کے بارے میںجناب اوریامقبول جان رقمطراز ہوئے کہ :۔"پاکستان کی عدلیہ میں اس فقرے کی گونج ( آبروئے مازنام مصطفیٰ است ) اس مملکت خداداد میں بسنے والے ان کروڑوں لوگوں کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے جو گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے روز اپنی بے بسی پر ماتم کرتے ہیں ، خون کے آنسو روتے تھے ، ایسا تو دنیا ئے اسلام کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا کہ ہر روز ایک گروہ جو خود کو سیکولر اور لبرل کہتا ہو وہ فیس بک ، ٹوئٹر اور ویب سائٹس پر روزانہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی توہین کرے ، سید الانبیا ء ﷺ کی توہین کرے ، سید الانبیاءﷺ کی شان میں گستاخانہ جملے لکھے ، کارٹون بنائے، اہل بیت ِاطہارؓ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرے اور کوئی ان کا گریبان نہ تھامے ، انہیں روکنے کی کوشش نہ کرے، ان پر نفرت انگیزی جیسے نرم قانون کے تحت بھی مقدمہ درج نہ ہو ۔ سب سے زیادہ پریشان وہ لوگ تھے جو دن رات سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ان بد بختوں کا مقابلہ کرتے تھے ۔"
سینئر صحافی محترم ہارون الرشید سوشل میڈیا پر گستاخانہ عوامل کے تناظر میں اپنے جذبات کا اظہار قوتِ عشق محمدﷺ کی نسبت سےکرتے ہوئے رقم طراز ہوئے کہ :
"ایمان ایک قلبی واردات بھی ہے جس نے اس کا ذائقہ نہیں چکھا ، وہ کبھی نہیں جان سکتا کہ کن کیفیات سے وہ دوچار کرتا ہے ۔ انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی تو بات دوسری ہے ، زندوں کی حکایات سنے تو حیرت ہوتی ہے کہ حب رسول ﷺ نے ادراک کے کیسے کیسے چراغ ان میں روشن کئے۔اسد اللہ خان غالب نے نعت کا قصدکیا تو عالم حیرت میں رہا ۔ کہا تو کہا :
غالب ثنائے خواجہ بہ یزدان گزاشتیم آں ذات پاک مرتبہ دانِ محمد ؐ است
آپ ﷺ کی مدح میں نے پروردگار کے سامنے کی ۔ وہی ایک ذات ہے جو رحمۃ اللعالمین کے مقام و مرتبے پر سے آشناء ہے ۔
چودہ سو سال بیت چکے مدحت کا سلسلہ جاری ہے۔ علامہ اقبالؒ نے تواپنا اعزازہی نبیؐ محترم کی مدح سرائی کوقرار دیا:
خیمہ افلاک کاایستادہ اسی نام سے ہے نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے"
محترم خورشید ندیم سوشل بلاگرز کے فتنہ سےخبردار کرتے ہوئے یہ تو جہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ :
"یہ (سوشل میڈیا ) تہذیبی کشمکش کا نیا میدان ہے ۔ فکر و نظر کی وہ بحث جو اس سے پہلے ابلاغ کے دوسرے ذرائع تک محدود تھی ، اب یہاں منتقل ہو رہی ہے ۔ اس فورم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اپنی شناخت کو مستور رکھتے ہوئے وہ کچھ کہا جا سکتا ہے جو شناخت کے ساتھ کہنا مشکل ہے ۔ ہر ایجاد دودھاری تلوارہے ۔ یہ اگر اناڑیوںکے ہاتھ لگ جائے تو خیرپر شر غالب آجاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہو گیاہے۔اگر یہ انسانوں کے ہاتھوں میں رہتا تو فکر و نظر کا اختلاف شاید فساد میں تبدیل نہ ہوتا ۔ بد قسمتی سے کچھ بھینسے بھی اس طرف آنکلے ہیں ۔ انہوں نے یہاں وہی کچھ کیا ہے جو ایک بے مہاربھینسا کسی کھیت میں گھس کر ، کرسکتا ہے ۔کوئی جتنا غیر جانب دار ہو ، انسانیت کے شرف سے تو دست بردار نہیں ہو سکتا ۔ اختلاف رائے کا دفاع تو کیا جا سکتا ہے ، بد تہذیبی کے دفاع کا مطلب شرف انسانیت سے دست برداری ہے۔"
جناب مشتاق احمد قریشی سوشل میڈیا پر ناموس رسالت ﷺ کے باب میں انتظامیہ کی خاموشی اور غفلت پر آواز بلند کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"سوشل میڈیا ہو ، برقی ذرائع ابلاغ ہوں یا اخبارات سب جگہ ناموس رسالت ﷺ کے بارے میں طرح طرح کے بیانات و اعلانات ہو رہے ہیں لیکن متعلقہ افراد کی کہیں کوئی گرفتاری نہیں ہو رہی اور نہ ہی سوشل میڈیا پر کسی قسم کی قدغن لگائی جارہی ہے بلکہ طرح طرح کے بیانات سے اہل ایمان کے جذبات کو مجروح کیا جار ہا ہے ۔اللہ اور رسولﷺ سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے ۔اللہ کے رسول ﷺ پر تو ہماری جان بھی قربان ۔ ناموس رسالتﷺ کا مسئلہ خالص دینی معاملہ ہے ، دیگر تمام معاملات چاہے سیاسی ہو ں ، معاشرتی ہوں ، ثانوی حیثیت رکھتے ہیں ۔"
پاکستان کے ممتاز عالم دین ، چیئرمین رویت ہلال کمیٹی پاکستان محترم مفتی منیب الرحمٰن نے ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے انتہائی مدلل انداز میں اپنے احساسا ت کا اظہار کیا ہے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جہاں مسلمانوں کو اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہے
"مغربی دنیا میں وقفے وقفے سے توہین رسالت مآب ﷺ کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان واقعات سے امت مسلمہ کو روحانی اذیت پہنچتی ہے اور اُن کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔یہ محض اتفاق نہیں ہے ، بلکہ دیدہ و دانستہ طورپراسلام اور مسلمانوں کے خلاف اُن کے خبث باطن اور نفرت کا اظہار ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے اس مسئلے میں اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل ہے ۔"
اس حوالے سے مزید لکھتے ہیں:
"ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ، رسول ﷺ ، قرآن کریم کی ناموس اور شعائرِ دین کی حرمت مسلمانوں کے لیے انتہائی حساس مسئلہ ہے ۔ پہلے ایسی فضا پیدا کی جاتی ہے کہ مسلمان مشتعل ہوں اور پھر اُن پر انتہا پسندی ، نفرت انگیزی اور جذباتیت کی چھاپ لگا دی جائے اور جی بھر کر ملامت کی جائے ۔ کئی دنوں سے ان بد نصیب بلاگرز کا مسئلہ چل رہا ہے ،لیکن ان لبرل حضرات نے اس پر کوئی آواز نہیں اُٹھا ئی او ر نہ ہی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ۔ اگر کسی حساس ادارے کے بارے میں کوئی اس طرح کی حرکت کر بیٹھے تو اسے غائب کر دیا جاتا ہے ، لیکن ناموسِ رسالت ﷺ جن پر ہمارے ماں باپ اور ہم سب کی جانیں قربان ہوں ،کے حوالے سے اداروں کو بھی کسی کارروائی کی توفیق نہیں ہوتی ۔ مذہبی انتہا پسندی کا رونا رویا جاتا ہے ، لیکن لبرل اور سیکولر انتہا پسندوں کے بارے میں کوئی آواز نہیں اُٹھا تا ، انہیں فتنہ انگیزی ، عصبیت اور انتہا پسندی کی کھلی اجازت ہے ۔ پس ہماری گزارش ہے کہ قبل اس کے کہ مسلمان سڑکوں پر آ جائیں اور اُن کے جذبات بے قابو ہو جائیں ، آئی ٹی کی وزارت کے حکام ، انٹیلی جنس ادارے اوردیگر حساس مراکز فوری اقدام کر کے عوام کے جذبات مشتعل ہونے سے بچائیں۔"
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مجلس شوریٰ جو کہ دستور کی رو سے باشندگان پاکستان کی نمائندہ اور ان کے احساسات ، منشاء اور خواہشات کی حقیقی ترجمان ہے ، اس اہم مسئلے سے قطعاًغافل نہ رہی ۔ اس عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران جس طرح پاکستان کے باقی طبقات کے نمائندہ حضرات نے ہر فورم پر اس مسئلے کی نزاکت کو اجاگر کیا ، بعینہ مجلس شوریٰ نے بھی اپنے فرائض کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر معمولی نوعیت کی قرار دادیں منظور کیں جن میں انتہائی شدید الفاظ میں مجرموں کےخلاف 295-C تعزیرات پاکستان کے تحت کارروائی کے ساتھ ساتھ اُن کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیا اور سوشل میڈیا سمیت تمام ذرائع ابلاغ پر ایک سخت مانیٹرنگ سسٹم قائم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ نے مورخہ 10 مارچ 2017 کو قرارداد نمبر 317 متفقہ طور پر منظور کی جس کا متن حسب ذیل ہے :
" پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو لا الہ الااللہ محمد ؐرسو ل اللہ کی بنیادپر قائم ہوا ۔ پاکستان کا قانون تمام انبیاے کرام، بالخصوص امام الانبیاءو خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد ﷺ ، صحابہ کرامؓ ، اہل بیت عزامؓ ، تمام مقدس شخصیات اور شعائر ِ اسلام کے تحفظ کی ذمہ داری لیتاہے ، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ C-295 انہی مقدس شخصیات اور شعائر اسلام کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہے۔ جبکہ حالیہ دنوں میں کچھ ناعاقبت اندیش اس قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے شعائر اسلام کی عموماً اور امام الانبیاء ، خاتم الانبیاء والمرسلین جناب محمد مصطفیٰ ﷺ ، صحابہ کرام ؓ، اہل بیت عزامؓ ، کی خصوصی توہین کر کے اپنے ناپاک عزائم کو فروغ دیتے ہوئے فسادات کی آگ کو بھڑ کانے کی پوری کوشش میں مصروف ہیں ۔ اور امت مسلمہ کے ایمان پر سنگین حملے کر کے پاکستان میں نئے فسادات کو جنم دینےکےلیے کوشاں ہیں ۔ ہمارا آئین اور قانون جہاں ہر قسم کی آزادی ِ اظہار رائے کا حق دیتا ہے وہاں تمام انبیاء کرام، صحابہ کرامؓ ، اہل بیت عزامؓ ، سمیت کسی بھی مقدس شخصیت کی توہین کی قطعاًاجازت نہیں دیتا ۔ اللہ ذوالجلال اور خاتم الانبیا ء و المرسلین حضرت محمد ﷺ کو راضی کرنےکےلیے ضروری ہےکہ ایسے گستاخانہ افعال کو روکنے کے لیے متعلقہ محکمہ دفعہ C295 کے تحت ایسے افراد اور ان کے سہولت کاروں کو نشان عبرت بنائیں اور سوشل میڈیا دیگر تمام ایسے ذرائع کے حوالے سے انفارمیشن ٹیکنالوجی پر ایک سخت مانیٹرنگ سسٹم قائم کریں۔"
اسی طرح پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے اتفاق رائے سے مورخہ14 مارچ 2017 کو ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے حکومت سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ :
"یہ ایوان سوشل میڈیا اور دوسرے تمام ذرائع ابلاغ پر مسلسل توہین رسالت کی اشاعت کی بھرپور مذمت کرتاہے اور حکومت سے پُر زور مطالبہ کرتا ہے کہ مملکت اسلامی میں مسلمانوں کے جذبات و احساسات اور ان کے دین اور پیغمبر خاتم النبیین نبی برحق ﷺ کے خلاف توہین آمیز مواد کی اشاعت کو روکنےکےلیے فوری اقدامات کیےجائیں ۔ "
پاکستان کی مجلس شوریٰ کی قراردادیں ، اہل علم و دانش کی تحریریں ، اخبارات کے اداریے اور ملک میں عوامی اضطراب اور بے چینی اس امر کی غماز ہے کہ یہ مسئلہ پاکستان کے تحفظ، سلامتی ، دفاع اور نظریاتی اساس سے تعلق رکھتا ہے ۔ آئین پاکستان عوام کو جو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اس میں حق زندگی اورزندگی کو احسن انداز میں گزارنے کاحق بھی شامل ہے ۔ یہ عدالت سمجھتی ہے کہ پاکستان کی عوام اس حالت میں اپنے حق زندگی سے ہر گز استفادہ نہیں کر سکتے جب تک اُن کی سب سے محبوب ہستی ﷺ کے نامو س کی حفاظت نہ ہو ۔اسی طرح آئین میں بنیادی حقوق کے باب میں دفعہ19 میں آزادئ ِ تقریرکے ضمن میںاسلام کی عظمت کی حفاظت کی جو ضمانت دی گئی ہے اس پر کما حقہُ عمل درآمد میں کوتاہی اور غفلت عوام کے بنیادی حقوق پر براہ راست حملہ ہے جس پر وہ اس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر کلی طور پر حق بجانب ہیں ۔ آرٹیکل 199 کے تحت یہ عدالت اتنی اہمیت کے حامل عوامی مفاد کے مسئلے پر اپنے دائرہ کار کو سکیڑنہیں سکتی ۔ یہ اختیار پاکستان کے عوام کی امانت ہے اور اسے عوامی منشاء جو کہ دستور میں واضح کی گئی ہے ، کے مطابق ہی استعمال کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام فریق جو اس مقدمے میں عدالت میں پیش ہوئے کسی نے بھی عدالت کے اختیار سماعت پر اعتراض نہیں کیا ۔ علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ کے بے شمار نظائر کی روشنی میں یہ ایک مسلمہ قانونی حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی ، حفاظت اور ادائیگی کی غرض سے عدالت ِ عالیہ اپنے دستوری اختیارات کو برو ئے کار لاتے ہوئے مناسب احکامات بمطابق قانون صادر کر سکتی ہے۔
7۔نبی مہربان ﷺکی ذات گرامی ہر قسم کے عیب سے مبرا ہے ، ہر قسم کی تنقیص سے بالا تر ہے ، ہر قسم کی تنقید سے ماورا ہے ، ہر قسم کی خطا ء سے معصوم ہے ، لہذا اسلام کسی شخص یا گروہ کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ذات ، صفات اور منصب کو ہدفِ تنقید و ملامت بنائے ۔
جو لوگ برگزیدہ ، معصوم اور منزہ عن الخطاء اور محبوب کبریا ہستی ﷺ کو ذہنی یا جسمانی کسی قسم کی اذیت پہنچائیں ان کے بارے میں قرآن حکیم کا صریح حکم اور اعلان ہے کہ
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّه وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا ۔
بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اذیت دیتے ہیں اُن پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی طرف سے پھٹکار ہے اور ان کے لیے رسواء کن عذاب مہیا کر دیا گیا ہے ۔ اسی طرح رسول اللہﷺ کو اذیت دینے والوں کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے کہ وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ O ‘‘ "اور جو لوگ رسول اللہ ﷺ کو ایذا دیتے ہیں ان کےلیے درد ناک عذاب ہے" اور رسول خدا ﷺ کو اذیت دینے والوں کو یہ بتلا دیا گیا کہ وہ مَلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًاO' ۔" ان پر پھٹکار برسائی گئی، جہاں کہیں ملیں پکڑے جائیں اور گن گن کر قتل کئے جائیں" یعنی دنیا میں انکی سزا قتل اور آخرت میں درد ناک اور رُسوا کن عذاب ہے ۔ یہ آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول ؐ کو ایذا دینا ، رنج پہنچانا اور معمولی تکلیف اور اذیت پہنچانا نہ صرف کفر ہے بلکہ موجب قتل ہے ۔ امام خطابیؒ نےواھب اللدنیۃ میں لکھا ہے کہ آیات میں مذکور لفظالأذی کے معنی الشرالخفیف کے ہیں ۔ اور شر خفیف اگر بڑھ جائے تو ضر ر کہلاتا ہے ۔
امام تقی الدین السبکی ؒ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف "السیف المسلول علیٰ من سبَّ الرسول ؐ "میں لکھا ہے کہ خدا کے رسولؐ کی عظمت کا تقاضا ہے کہ انہیں تھوڑی سی تکلیف پہنچانا بھی کفر ہے۔ اس کے علاوہ دیگر آیات جن سے علماء و محققین نے ناموس رسالت پر حرف گیری کی سزا قتل اور گستاخ رسول کے یقینی کفر کے حکم کا استنباط کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:
اول : سورۃالتوبہ آیات 61 تا 69
اس سلسلے میں سورہ توبہ کی آیات 61 تا 69 اس معاملے میں واضح نصوص ہیں ۔ " سورۃ التوبہ کی آیات 61 تا 69 مدینہ کے منافقین کے جوڑ توڑ کے بارے میں اُتریں ۔ ان کی حرکات آنحضرت ﷺ کو اذیت پہنچاتی تھیں ۔ ان کی طعنہ زنی اور بیہودہ گفتگو جو وہ لوگ آنحضور ﷺ کے خلاف کرتےتھے انہیں کفر و الحاد کی گہرائیوں میں گرادیتی تھی جس پر وہ سزا کے مستوجب تھے ۔ انہیں آگاہ کیا گیا ہے کہ ان کے اعمال و افعال اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بے ثمر قرار دیے گئے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی تضحیک کرتے تھے ۔مسلم قانون دان اس فیصلے پر پہنچے ہیں کہ اچھے اعمال و افعال اس دنیا میں او ر آخرت میں بے ثمر بنا دیا جانا بے معنیٰ ہو کر رہ جاتا ہے اگر فعل فوجداری جرم تصور ہوکر سزائے موت کا مستوجب قرارنہ دیا جاتا ۔ گو یا ان مسلم قانون دانوں کے نزدیک آنحضور ﷺ پر طعنہ زنی کرنے کے فعل کی سزا، سزا ئے موت سے کم نہیں ہو نی چاہیے"۔ (قانون توہین رسالت ایک سماجی ،سیاسی ،تاریخی تناظر ،ص: 25از ڈاکٹر محمود احمدغازی )۔
(جاری ہے)