• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں آئے روز سخت حکومتی اقدامات کے باوجود ناقص، غیر معیاری اور زائد المیعاد ادویات کے استعمال سے اموات معمول بن چکا ہے۔ جعلی ادویات کے بڑھتے ہوئے کاروبار، بغیر لائسنس میڈیکل اسٹوروں میں اضافے اور جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کیخلاف موثر کارروائی کے باوجود بہتر نتائج برآمد نہ ہونے پر حکومت نے ایک خفیہ مانیٹرنگ ٹیم تشکیل دی تھی۔ اس ٹیم کی ایک انتہائی خفیہ رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب اور چیف سیکرٹری کو بھجوائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبے میں تعینات 121میں سے 72ڈرگ انسپکٹرز مبینہ کرپشن اور دیگر پیشہ ورانہ بددیانتی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ معیاری ادویات کے فروغ اور جعلی ادویات کے خلاف جب بھی کوئی آپریشن عمل میں لایا جاتا ہے تو ڈرگ انسپکٹرز کی میڈیکل اسٹور اور جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں کے مالکان سے ملی بھگت کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ وہ میڈیکل اسٹوروں کی چیکنگ کی بجائے ’منتھلی‘ وصول کرتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو نمونہ کے طور پر مہنگی ادویات اُٹھا لیتے ہیں اور دوسرے اسٹوروں پر فروخت کرتے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز کی مبینہ کرپشن اور ملی بھگت محض پنجاب تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ دیگر تمام صوبوں میں بھی کرپشن مافیا کی وجہ سے لوگ جعلی ادویات کے استعمال سے جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز اِن جعلی ادویات کی روک تھام کو یقینی بنانے کی بنیادی اکائی ہیں مگر ملک بھر میں جعلی ادویات کی کھلے عام فروخت ڈرگ انسپکٹرز کی بددیانتی اور نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ڈرگ انسپکٹرز سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اُن کا سروس اسٹرکچر بہتر بنانے کیساتھ ساتھ معاشی معاملات بھی بہتر کئے جائیں اور ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے کرپشن میں ملوث حضرات کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ بھرتیوں کے وقت اُن کی تعلیمی قابلیت کو بطورِ خاص مدنظر رکھا جانا چاہئے۔ جب تک پرانا کلچر تبدیل نہیں کیا جاتا تب تک ڈرگ انسپکٹرز سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔

تازہ ترین