ہمیں بتایا گیا کہ آرمی چیف نے سات گھنٹوں پر محیط کورکمانڈرمیٹنگ کی صدارت کی ہے ۔ جنرل صاحبان نے آرمی چیف کی کابل میں افغان صدر کے ساتھ گفتگو کے بعد خارجہ پالیسی کے معاملات پر بحث کی۔ بہت اچھی بات ہے ، لیکن ہم نے نہیں سنا کہ پر مغز بحث کے بعد وزیر ِ دفاع اور وزیر ِخارجہ، یا ملک کی جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کے وزیر ِاعظم کو بریفنگ دی گئی ہو۔
بات یہ ہے کہ مقتدرہ نے خارجہ پالیسی اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے ، اور اسے چلانے میں سویلینز کو کسی مداخلت کی اجازت نہیں ۔ درحقیقت نواز شریف ابھی تک اپنی بھارتی پالیسی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ اگرچہ وزرا کی طرف سے زوردار بیانات آتے رہے ہیں لیکن کوئی بھی افغان یا امریکی پالیسی پر قدم آگے بڑھانے کے لئے تیار نہیں۔
میٹنگ کا دوسرا حصہ مزید تشویشناک ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ملک میں آئین کے نفاذ کو یقینی بنائیں گے ۔ تیری آواز مکے اور مدینے ! پارلیمنٹ کو آئین کا محافظ خیال کیا جاتا ہے ۔ منتخب شدہ حکومت اور سپریم کورٹ مل کر اسے طالع آزمائوں اور ’’ریاست کے اندر ریاست ‘‘ قائم کرنے والوں سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے باوجودمقتدر قوتوں نے آئین اور قانون کو ایک آمر کا آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کرنے کی اجازت نہ دی ۔ حالیہ دنوں ڈی جی رینجرز نے کھلے عام سویلین اتھارٹی کو نظر انداز کیا، حالانکہ آئین کے تحت وہ سویلین احکامات کی پاسداری کے پابند ہیں۔
اس صورت ِحال کی وضاحت (جسے بڑی مہارت سے جواز کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے ) کرتے ہوئے ہمیں یاد دلایاجاتا ہے کہ آئینی اتھارٹی کو ہاتھ سے گنوانے کی ذمہ داری سویلینز کی غلطیوں پر عائد ہوتی ہے ۔ ایک دلیل دیتے ہوئے وزیر ِ داخلہ کو شرمندہ کیا جاتا ہے کہ جب نیب عدالت کے باہر رینجرز نے اُن کی اتھارٹی تسلیم کرنے سے انکارکردیا تو غصے سے کھولتے ہوئے وزیر نے دھمکی دی کہ اگر اُن کی آئینی اتھارٹی کو تسلیم نہ کیا گیا وہ استعفیٰ دے دیں گے (نوٹ کریں، وزیر حکم نہ ماننے والے جنرل کو عہدے سے فارغ کرنے کا سوچ بھی نہ سکے )۔
اس منطق کے ساتھ تو تمام منتخب شدہ نمائندوں کے مقدر میں شرمندگی ہی شرمندگی لکھی ہے کیونکہ وہ روز مرہ زندگی کے کسی شعبے میں بھی افسران کی عملداری کو چیلنج نہیں کرسکتے ۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اگر وہ کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرسکتے تو چلیں ریکارڈ کے لئے احتجاج ہی کرلیں، بجائے اس کے کہ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے خاموشی سے سرجھکا لیں۔ چوہدری نثار اور شہباز شریف سیاست میں ’’تلخ حقائق کو تسلیم کرنے‘‘ کی تھیوری کے حامی ہیں۔ میاں نواز شریف کی سوچ کچھ اور ہے ۔ اُن کا موقف ہے کہ الیکشن اورپارلیمنٹ کے کیا معانی ہیں اگر عوام کے نمائندوں نے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں افسرا ن کے سامنے سر ِتسلیم خم کرنا ہے ؟
متبادل بیانیہ یہ ہے کہ اگر منتخب شدہ نمائندے آئینی تقاضوں کے مطابق معیاری حکومت چلاتے تو اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کی اتھارٹی کے مقابلے میں زیادہ سیاسی اور اخلاقی اتھارٹی حاصل ہوتی ۔ دوسرے الفاظ میںلکیر کے دونوں طرف غاصب بھی ہیں اور مغضوب بھی ، لیکن فرق سے پڑتا ہے کہ آپ لکیر کے کس طر ف کھڑے ہوکر جانچ کررہے ہیں۔ یہاں معاملہ الجھ جاتا ہے ۔ آپ اسے جس زاویے سے مرضی دیکھ لیں، یہ صورت ِحال ملک اور آئین، دونوں کے لئے اچھی نہیں ۔ کسی نہ کسی مرحلے پر تنائو بریکنگ پوائنٹ پر پہنچ سکتا ہے ۔ایسی صورت میں مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بیٹھاہوا دشمن ہمسایہ ملک میں پھیلی افراتفری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ نیز سیاسی غیر یقینی پن معیشت کے لئے بھی نقصان دہ ہے ۔ ادائیگیوں کے توازن کو درپیش بحرانی کیفیت کی جھلک دکھانے والے ماہرین کی بات سنیں۔ یہ لوگ ’’ڈار معیشت‘‘ سے کبھی بھی مطمئن نہ تھے لیکن اب وہ کہیں زیادہ پریشان ہیں کہ اسحاق ڈار کی رخصتی سے پیدا ہونے والے خلامیں کیا ہوگا؟
نوازشریف ہار ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اب تو وہ قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے صدر بھی بن گئے ہیں۔ اگر وہ سپریم کورٹ اور مقتدر ادارے کے سامنے مزاحمت کا یہی انداز اپنائے رکھتے ہیں تو وہ مارچ میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے اپنی نااہلی کی سزا کو معطل کرالیں گے۔ تو جب دوبارہ نوازشریف اقتدار میں آئیں گے تو ان دونوں اہم اداروں کا رد ِعمل کیا ہوگا؟یادرہے کہ اُنھوںنے 1999ء میں اپنا تختہ الٹنے پر 2013 ء میں جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرتے ہوئے ردعمل ظاہر کردیا تھا ۔ اس مرتبہ ہوسکتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اختیارات بھی محدود کرنے پر کمر بستہ ہوجائیں تاکہ آئندہ عدالت منتخب شدہ پارلیمنٹ کے اختیار کو اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے ۔
آپ نواز شریف اور اُن کی بدعنوانی ، نااہلی اور موروثی سیاست کے رجحانات پر جتنے بھی دلائل دے لیں، آپ اسٹیبلشمنٹ اور فیصلہ کرنے والے اداروں کو پاکستانی معاشرے میں سرایت کرجانے والے مسائل سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔ مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ ان دونوںمقتدر اداروں میں سے کوئی بھی قانونی طور پر اور مزاج کے اعتبار سے پاکستان کو بہتر اور متحد رکھتے ہوئے چلانے کا اہل نہیں ہے ۔ درحقیقت ’’آگے بڑھ کر پاکستان کو بچانے‘‘ کی باتیں ایک خوشنما سراب کے سوا کچھ نہیں۔ ہماری تاریخ پر اس کور چشمی کی کھائی ہوئی ٹھوکروں کے نشانات ثبت ہیں۔دنیا بھر کی اچھی یا بری جمہوریتوں میں بیرونی دبائو سے سطح کو تبدیل نہیں کیا جاتا۔ پانی کو اپنی سطح ہموار رکھتے ہوئے بہنے کا موقع دیا جاتا ہے ۔ ہم فکری، عقلی، سائنسی اور سیاسی اصولوں سے اتنے نالاں کیوں ہیں؟