• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی اور ایران کے تعلقات کبھی پاکستان اور ترکی جیسے تعلقات کی طرح استحکام حاصل نہیں کرسکے ہیں اور نہ ہی ان تعلقات میں کبھی گرمجوشی دیکھی گئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دونوں ممالک کا ماضی میں عظیم سلطنتوں اور ریاستوں کا مالک ہونا اور عظیم ثقافت، علم، ادب اور تاریخ سے گہرا لگائو رکھنا ہے۔ ترکی اور ایران کے درمیان تعلقات کی بنیاد دونوں ممالک کے عوام کی جانب سے مذہب اسلام قبول کرنے کے بعد ہی پڑی تھی۔ دسویں صدی میں ایران بھی ہندوستان کی طرح سلطان محمود غزنوی کے زیر اثر آچکا تھا اور اس کے بعد علاقے میں سلجوقیوں نے ایران پر نہ صرف اپنا اثرو رسوخ قائم کرلیا بلکہ ترک زبان کو بھی ایران میں متعارف کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس عرصے کے دوران فارسی زبان میں بڑی تعداد میں ترکی زبان کے الفاظ شامل ہوگئے اور ایران کے نصف حصے پر ترکوں نے ہجرت کرتے ہوئے مستقل طور پر رہائش اختیار کی اور ایرانی ثقافت، ادب اور علم پر بھی اپنی چھاپ لگا ئی۔ تاہم13 ویں صدی میں منگولوں کے حملوں کی وجہ سے ایران میں ترک حاکمیت کو شدید دھچکا لگا اور ملک مذہبی طور پر دو فرقوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ منگولوں کے حملوں کے بعد دونوں ممالک کی سرحدوں کا فیصلہ 1639ء میں دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے ’’قصر شیریں‘‘ سمجھوتے کے تحت ہوا اور اس وقت سے آج تک ترکی اور ایران کے درمیان سرحدوں کے تنازعے کے وقت اس سمجھوتے ہی کو بنیاد بناتے ہوئے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ انیسویں صدی کے آغاز میں روسیوں کے خطرات اور حملوں کی وجہ سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آگئے اور روس کے خلاف مشترکہ طور پر محاذ بنانے میں کامیاب رہے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے جنگ کرنے سے گریز ہی میں عافیت سمجھی اور ایران کے حکمران سلطنتِ عثمانیہ کے اصلاحاتی دور سے بڑے متاثر ہوئے اور انہوں نے عثمانی حکمرانوں کی تقلید کرتے ہوئے ایران میں بھی اصلاحات کو متعارف کروایا۔ ترکی میں سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے اور ایران میں پہلوی دور کے برسر اقتدار آنے کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ترکی کی جنگِ نجات کے دوران ایران نے ترکی کا سفارتی طور پر بھرپور ساتھ دیا اور ترکی کی علاقائی سالمیت کو بڑا اہم قرار دیا۔ ایران کی جانب سے انقرہ کی قومی حکومت کو تسلیم کرنے اور 1921ء میں روس کی کوششوں سے ترکی ، سوویت یونین افغانستان اور ایران کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے سے ترکی اور ایران کے تعلقات میں مزید قربت دیکھی گئی لیکن ترکی کے اتحادی ممالک سے جنگ میں شکست کھانے کے بعد ایران کی جانب سے پیرس امن کانفرنس، اس کے بعد سیور سمجھوتے کے ذریعے ترکی سے چند ایک علاقوں کے ایران کے حوالے کرنے کے مطالبے سے ترکی اور ایران کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوگئے۔
سلطنت عثمانیہ کے منتشر ہونے کے بعد ترکی میں جدید جمہوریہ کے قیام اور حکومتِ ایران کے درمیان سرحدی تنازعات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور اسکے ساتھ ہی ساتھ ترکی میں کردوں کی بغاوت نے سر اٹھانا شروع کردیا۔ 22 اپریل 1926ء میں جدید جمہوریہ ترکی اور حکومتِ ایران کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے اور سرحدی اختلافات کو دور کرنے کی غرض سے سیکورٹی اور دوستانہ سمجھوتے پر دستخط کئے گئے اور 1934ء میں ایران کے شاہ رضا پہلوی نے جدید جمہوریہ ترکی کا پہلی بار سرکاری دورہ کیا جس سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے اور قریب آگئے اور شاہ رضا پہلوی مصطفیٰ کمال کی اصلاحات سے بہت متاثر ہوئے۔ اس کے بعد ترکی ایران اور عراق نے اکتوبر 1935ء میں جنیوا میں سہ فریقی سمجھوتے پر دستخط کیے ۔ 1955ء میں برطانیہ کی قیادت میں ترکی، ایران، پاکستان اور عراق کے درمیان بغداد پیکٹ کے نام سے نیا اتحاد ابھر کر سامنے آیا۔ 1958ء میں عراق کے اس پیکٹ سے نکل جانے اور امریکہ کے اس پیکٹ میں شامل ہو جانے سے اس پیکٹ کو سینٹو کا نام دے دیا گیا جو 1979ء ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا۔ 1964ء میں ایران ترکی اور پاکستان تینوں علاقائی ممالک نے آپس میں اتحاد کرتے ہوئے آر سی ڈی کے نام سے نیا اتحاد قائم کیا جسے بعد ازاں وسطی ایشیائی ممالک کو بھی شامل کرتے ہوئے ECO کا نام دے دیا گیا ۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد دونوں ممالک کے رہنماؤں نے اپنے تعلقات میں احتیاط برتنا شروع کردی ترکی کسی بھی صورت اسلامی انقلاب کے اثرات ترک باشندوں پر مرتب نہ ہونے کا خواہاں تھا تو ایران ترکی کے سیکولر ازم کو اپنے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا۔ 1990ء میں ایران کی جانب سے ترکی کی دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کی حمایت کیے جانے سے دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے تاہم ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا اور ایردوان نے وزیراعظم کی حیثیت سے 2004ء میں ایران کا سرکاری دورہ کیا اور ایران اور ترکی کے درمیان تجارتی حجم میں سو فیصد کے لگ بھگ اضافہ دیکھا گیا۔ ایران اور امریکہ کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اور ایران پر لگائی جانے والی عالمی پابندیوں کے موقع پر ترکی نے بڑی دانشمندی سے امریکہ کو ناراض کیے بغیر ایران سے دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور فائیو پلس ون ممالک کے ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی بنیاد بھی فراہم کی۔ شام کے مسئلے میں ترکی اور ایران ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ ایران بشارالاسد کی حکومت کی حمایت کرتا رہا ہے جب کہ ترکی مخالف گروپوں کو ہر طرح کی مدد فراہم کرتا رہا ہے تاہم شام کے مستقبل کے حوالے سے دونوں ممالک فکرمند نظر آرہے ہیں اور اپنے تحفظات سے ایک دوسرے کو آگاہ بھی رکھے ہوئے ہیں ۔
عراق کے شمال میں کرد علاقائی انتظامیہ میں25 ستمبر کو ہونے والے ریفرنڈم کی علاقائی ممالک جس میں ایران، ترکی، عراق اور شام شامل ہیں نے شدید مخالفت کی ہے کیونکہ ان علاقائی ممالک کو خدشہ ہے کہ اگر شمالی عراق میں کرد اپنی علیحدہ ریاست بنانے میں کامیاب ہوگئے تو ان کے زیرقبضہ کرد علاقوں میں بھی علیحدگی پسندی کو ہوا ملے گی۔ریفرنڈم کے دس روز بعد ترک صدرایردوان نے پانچ اکتوبر کو اپنے دورہ ایران کے دوران کہا تھا کہ متنازع ریفرنڈم کے ردعمل میں عراقی کردستان کے ساتھ ترک زمینی سرحدوں اور فضائی حدود کو بہت جلد بند کر دیا جائے گا۔ طیب ایردوان اور ان کے ایرانی ہم منصب حسن روحانی نے عراقی کردستان کی علیحدگی کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کیا ہے۔ ترک صدر کا دورہ ایران دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کی جانب اشارہ ہے۔ یہ2015ءکے بعد ترک صدر کی جانب سے ایران کا پہلا دورہ ہے۔ اس موقع پر ایردوان نے خبردار کیا کہ اگر شمالی عراقی کرد علاقائی انتظامیہ نے اپنے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہ کی تو وہ سخت اقدامات کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ ایران اور ترکی نے عراقی کردستان کیساتھ تیل کی تمام مصنوعات کی تجارت روکنے کا حکم دے دیا ۔صدر ایردوان کے دورہ ایران کو دو پڑوسی ممالک کے درمیان، جو شام میں حریف گروپوں کی حمایت کرتے ہیں، تعلقات میں گرمجوشی لانے کی علامت سمجھا جارہا ہے۔ یاد رہے پوری دنیا میں ترکی وہ واحد ملک ہے جہاں ایرانی عوام بغیر ویزا جاسکتے ہیں۔

تازہ ترین