• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی ملازمتوں میں صوبوں کا کوٹہ مختص کیے جانے کا نظام 1973میں دستور کے تحت دس سال کے لیے رائج کیا گیا تھا تا کہ اس مدت میں ملک کے تمام علاقوں میں یکساں تعلیمی سہولتیں فراہم اور معیار تعلیم و معیار زندگی بلند کرکے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لے آیا جائے اور اس کے بعد تمام تقرریاں میرٹ کی بنیاد پر کی جائیں تاکہ کاروبار مملکت چلانے کے لیے قوم کے اہل ترین افراد کو بروئے کار لاکر ملک کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنایا جاسکے۔صوبہ سندھ میں اسی وقت دیہی اور شہری کوٹہ سسٹم بھی رائج کیا گیا جس کی رو سے حکومت کے زیر اہتمام پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں اور صوبائی ملازمتوں میں دس سال کے لیے ساٹھ فی صد حصہ دیہی علاقوں اور چالیس فی صد شہری علاقوں کے لیے مختص ہوا۔ تاہم عملاً ہوا یہ کہ اس نظام میں بار بار توسیع کی جاتی رہی حتیٰ کہ 2013ء میں کوٹہ سسٹم کے چالیس سال مکمل ہوگئے۔ اس کے بعد اس نظام میں توسیع تو نہیں ہوئی لیکن کوئی متبادل نظام بھی متعارف نہیں کرایا گیا لہٰذا چار سال سے یہ معاملہ معلق چلاآرہا تھا۔ تاہم اطمینان بخش بات ہے کہ گزشتہ روز وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کوٹہ سسٹم کی موجودہ صورت حال پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور کسی نئی حکمت عملی کی تشکیل کے لیے اس معاملے کو پارلیمنٹ اور مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں واضح اورد وٹوک موقف اپناتے ہوئے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ کوٹہ سسٹم کو چالیس سال سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن اس سے مطلوب نتائج برآمد نہیں ہوئے، یہ سلسلہ یوں ہی جاری نہیں رہ سکتا، دیکھنا ہوگا کہ حالات میں بہتری کیوں نہیں آئی اور بہتر متبادل راستے کون سے ہیں جنہیں اپنایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم نے کابینہ کے ارکان اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو متبادل نظام پر جامع حکمت عملی اور پالیسی بناکر کابینہ کو پیش کرنے کی ہدایت کی۔کوٹہ سسٹم میں اصلاحات، ترامیم اور میرٹ پر مبنی پالیسیوں کے حوالے سے صوبوں سے مشاورت کرکے سفارشات مرتب کرنے کی تاکید بھی وزیر اعظم کی جانب سے کی گئی۔کابینہ کے اجلاس میں کوٹہ سسٹم کے حوالے سے بیشترارکان کا کہنا تھا کہ ترقی سے محروم علاقوں کی موجودگی کو اس سسٹم کا جواز بنانے کا سلسلہ اب ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ اس سے ان علاقوں کے عوام کی حالت میں کوئی قابل لحاظ بہتری نہیں آئی ہے جبکہ یہ نظام اہل افراد کی حق تلفی کا سبب بنتا ہے۔کابینہ کے ارکان نے سی ایس ایس کے امتحانات اور ملازمتوں کے حوالے سے واقعاتی صورت حال کی نشان دہی کرتے ہوئے واضح کیا کہ کوٹے کے تحت بلوچستان اور فاٹا کی اکثر سیٹیں خالی رہ جاتی ہیں یا دوسرے علاقوں کے افرادناجائز طریقوں سے ان اسامیوں پر قابض ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اب کم ترقی یافتہ اور سہولتوں سے محروم علاقوں کے حالات کو اہلیت کی حوصلہ شکنی کرنے والے علاقائی کوٹے کے نظام کا جواز بنائے رکھنے کے بجائے پسماندہ علاقوں کے عوام کے معیار ندگی کو بلند کرنے کے لیے عملی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ نفاذ دستور کے وقت وفاقی ملازمتوں میں صوبائی کوٹے اور سندھ میں دیہی اور شہری کوٹے کا جو نظام دس سال کے لیے اس خیال سے رائج کیا گیا تھا کہ اس مدت میں پسماندہ علاقوں کو اچھی تعلیم کے مواقع اور بہتر نظام زندگی کے اعتبار سے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لے آیا جائے گا ،اس میں کوئی حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ لہٰذ اب ا اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پسماندہ علاقوں میں جنگی بنیادوں پر تعلیم کے فروغ اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کا کام کیا جائے۔ معیاری تعلیمی اداروں کے قیام کے علاوہ پسماندہ علاقوں میں صنعتیں لگاکر روزگار کے نئے مواقع بڑے پیمانے پر پیدا کرنے اور انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر بھرپور توجہ دی جائے تاکہ ملک کے ہر حصے کے لوگ اہلیت کی بنیاد پر زندگی کے تمام میدانوں میں آگے آسکیں اور اس کے لیے انہیں کوٹہ سسٹم کی بیساکھی کی ضرورت نہ رہے جو درحقیقت معذور کی معذوری دور کرنے کا نہیں بلکہ اسے ہمیشہ معذور رکھنے کے نظام کا نام ہے۔

تازہ ترین