اس ملک کی افراتفری کی فضا میں الطاف حسین ہی وہ واحد شخصیت نہیں ہیں جو انقلاب کی بات کرتے ہیں تاہم ان کا انقلاب کیلئے نسخہ یہ ہے کہ نہ صرف وہ شہری جو ایسے انقلاب کیلئے بے تاب ہیں اس میں حصہ لیں بلکہ وہ محب وطن جنرل بھی، جاگیرداروں اور بدکردار سیاستدانوں سے ملک کو نجات دلانے کے خواہشمند ہیں، اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اس سے پہلے جن فوجی افسران نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا وہ اتنے محب وطن نہ تھے کیونکہ وہ بداطوار سیاستدانوں اور اشرافیہ کے خلاف جو پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے، کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔ انہی جرنیلوں میں سابق صدر پرویز مشرف بھی شامل ہیں جن کو الطاف حسین کی غیر مشروط حمایت حاصل رہی۔
اگر ماضی پر نگاہ دوڑائی جائے تو سب ہی جرنیل خواہ ان کو آپ محب وطن یا غیرمحب وطن کہیں وہ غیراخلاقی سرگرمیوں میں مشغول سیاستدانوں، جاگیرداروں، صنعت کاروں اور سرکاری حکام کو بھی اقتدار کو طول دینے کا ذریعہ بناتے رہے ہیں۔ تاہم کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آئندہ بھی کوئی جرنیل قوم کا نجات دہندہ بن کر اقتدار پر قبضہ کرلے گا تو وہ ایسا نہیں کریں گے۔ فوجی انقلاب کے بعد جس راستے پر وہ چل سکتے ہیں اب بہت واضح ہوچکا ہے۔ عدلیہ پر دباؤ ڈالو اور اعلیٰ عدالتوں سے اپنے غیرآئینی اقدامات کا جواز حاصل کرو۔ اس کے علاوہ بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو موخر کرواتے رہیں۔ سیاسی جماعتوں میں اختلافات پیدا کئے جائیں اور مسلم لیگ کو ساتھ ملا کر ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی جائے اور موقع پرسب سیاست دانوں کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت کی جائے اور اگر ضرورت محسوس ہو تو بے شک ریفرنڈم بھی کروائے جائیں تاکہ اپنے غیرقانونی اقدامات کو جمہوری شکل دی جاسکے۔ احتساب پر بھی کچھ مدت کیلئے عملدرآمد کیا جاتاہے جس کا مقصد ہر ایک کو اطاعت پر مجبور کرنا ہے۔ ہر کسی کی یہ خواہش ہوگی کہ الطاف بھائی اس طرح کے انقلاب کو دعوت نہ دیں۔ نوازشریف اور شہباز شریف تنبیہ کرتے رہے ہیں کہ اگر عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی تو انقلاب کا راستہ نہیں روکاجاسکے گا۔ شہبازشریف اکثر اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ فیض احمد فیض کے انقلابی اشعار کا بھی اس سلسلے میں حوالے دیتے رہتے ہیں۔ شہباز شریف یہ تجویز کرتے ہیں کہ حکومت کو عوام کے مسائل حل کرنے چاہئیں اور یہ کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اس کے برعکس الطاف حسین کا کہنا ہے کہ زمینیں جاگیرداروں سے کسانوں کو دے دی جائیں۔ تاہم الطاف حسین کا یہ موقف ہوسکتا ہے کیونکہ ان کی جماعت شہری آبادی کی نمائندہ ہے جب کہ شریف برادران کی صفوں میں بہت سے جاگیردار شامل ہیں۔
بڑے پیمانے پر آنے والے سیلاب نے لوگوں کی بچت اور آمدنی کے ذرائع کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔اس صورتحال میں یہ تشویش ہوسکتی ہے انقلاب کیلئے حالات سازگار ہیں۔ ایسی صورت میں ممکن ہے شہبازشریف اور الطاف حسین کے بیانات محروم طبقوں کو تشدد کے ذریعے انقلاب کا راستہ اپنانے پر آمادہ کرنے کے موجب بنیں۔ تاہم مزدوروں اور کسانوں کا ایسا کوئی بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں ہے جو نچلی سطح سے ان کو منظم کرتے ہوئے نظام میں بنیادی تبدیلی پر آمادہ کرسکے۔ چھوٹی جماعتیں جو مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کیلئے کام کرتی تھیں، بہت کمزور ہیں۔ صنعتی اور تجارتی مزدوروں کا اتحاد بھی اس پوزیشن میں ہے کہ ان کی آواز پر کوئی ہڑتال کیلئے تیار ہی نہیں اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی باہم انتشار کا شکار ہیں۔ حقیقت میں یہی نظام ہے جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف اور متحدہ قومی موومنٹ کے الطاف حسین شامل ہیں۔ کبھی ترقی پسند کہلانے والی پاکستان پیپلزپارٹی کے صدر زرداری کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائیں گے فریاد اور مفلس کی جانب سے کسی بھی انقلابی شعور کو ریاستی طاقت کے ذریعے کچل دیا جائے تو یہ خود ان کے اپنے اور فوج کے مفاد میں ہوگا کہ نظام جوں کا توں رہنے دیا جائے، بجائے اس کے کسی انقلابی تبدیلی کی اجازت دی جائے۔ یہ ہر کسی کے مفاد میں ہے غریبوں کے حقوق کا واویلا پیٹاجائے لیکن خود زندگی کی آسائشیں عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے اپنے لئے یقینی بنائی جائیں اور ایسے قوانین اور حکمت عملی مرتب کی جائے جس سے ان کے اپنے مقاصد پورے ہوں۔
ایم کیو ایم کے کارکنوں کے بڑے مجمعوں سے جو ہمیشہ سے ہی ایک منظم جماعت کا منظر پیش کرتے ہیں۔ اپنے ٹیلیفونک خطاب میں الطاف حسین اکثر فرانس کے انقلاب کی بات کرتے رہے ہیں اور ممکن ہے ان کی جماعت کے لوگوں نے 1789ء میں برپا ہونے والے فرانسیسی انقلاب کے بارے میں پڑھنا بھی شروع کردیا ہو جس میں غریب فرانسیسیوں نے باسٹل پر دھاوا بول دیا تھا جہاں اسلحہ رکھا جاتا تھا اور لوگوں کو قید کیا جاتا تھا اور جو بادشاہت اور اشرافیہ کی طاقت کا نشان تھا۔ اس کے بعد بادشاہ لاؤس XVI کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور جاگیردار کو قانوناً ختم کردیا گیا۔ فرانسیسی انقلاب کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ کیتھولک کلیسا نے جس کے قبضے میں زیادہ تر زمینیں تھیں کسانوں پر ایک نیا ٹیکس لگادیا تھا۔ اس کے علاوہ دوسری وجوہات میں عوام کی شاہی خاندان کیلئے بڑھتی ہوئی نفرت اور عوام میں مذہبی آزادی کی شدید خواہش شامل ہیں۔ پاکستان بھی کچھ اسی قسم کے حالات اور ان کے ایسے ہی اسباب سے گزررہا ہے لیکن ملک کے اہم عناصر بشمول مسلح افواج، سیاسی اور مذہبی جماعتیں اور وہ جو تبدیلی لانے کے اہل ہیں وہ نظام کی موجودہ شکل میں ہی اپنی بقا جانتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 80ء کی دہائی میں ایرانی اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان میں بھی اسی طرز پر تبدیلی کی خواہش ظاہر کی جانے لگی تھی۔ امید یہ کی جارہی تھی کہ پاکستان میں موجود برسراقتدار عمائدین کو ختم کردیا جائے۔ جیسے امام خمینی نے ایرانی انقلاب کے ابتدائی دور میں کیا تھا تاکہ ماضی سے تعلق ختم کرکے نئی قیادت اقتدار میں لائی جائے تاہم ایرانی انقلاب نے اپنے قدم مضبوط کرلئے۔ اگر چہ مذہبی قیادت کا حامل ایک نیا طبقہ اقتدار میں آگیا جو مذہب سے سختی کے ساتھ وابستگی کے باوجود بھی عوام کی مالی اور معاشی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کوشاں ہے۔
پاکستان میں سیاسی اور فوجی حکومتوں سے مایوسی کے سبب لوگوں میں نظام میں انقلابی تبدیلی کی شدید خواہش پائی جاتی ہے لیکن ملک کے دگرگوں مسائل کے حل کیلئے عوام میں کسی بھی لائحہ عمل کیلئے ہم آہنگی نہیں ہے۔ اس تذبذب کا اظہار خود الطاف حسین کی تجویزکے مطابق سپریم کورٹ آئین کی شق 190 کے تحت مسلح افواج کو ملک سے کرپشن اور لاقانونیت کو ختم کرنے کیلئے استعمال کرے اور محب وطن جرنیل بداعمال سیاستدانوں اور جاگیرداروں سے قوم کو نجات دلائیں۔ بہرکیف یہ تجویز نہ تو جمہوری ہے اور نہ ہی ان مسائل کا حل جو ملک کو درپیش ہیں یہ ایک طرح سے ایک ملغوبہ ہے جس میں ماہرین، جج اور جرنیل مل کر اپنا اپناکردار ادا کریں گے لیکن اس کی کامیابی کیلئے تجویز کنندہ کی حیثیت سے الطاف حسین کو خود رہنمائی کرنی چاہئے اور ایم کیو ایم کو حکومت سے الگ کرکے انقلاب کی جانب پیش قدمی کی ابتدا کرنی چاہئے۔