شریف گھرانے میں پڑنے والی دراڑ اب نمایاں دکھائی دے رہی ہے۔ نواز اور مریم ، شہباز شریف اور حمزہ سے فاصلے پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اوّل الذکر ریاست اور حکومت کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے سامنے مزاحمت کرنا چاہتے ہیں۔ ثانی الذکر اس ’’محاذ آرائی ‘‘ کو سیاسی خود کشی سے تعبیر کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی طے کردہ حدود کے اندر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اس اختلاف کا پہلا عوامی اظہار این اے 120 کے ضمنی انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آیا جب حمزہ شہباز سامنے سے ہٹ گئے اور مریم نواز کو انتخابی مہم چلانی پڑی۔ اس سے پہلے یہ حلقہ حمزہ شہباز، جو پنجاب میں پی ایم ایل (ن) کی انتخابی مشینری چلارہے ہیں، کی نگرانی میں تھا۔ این اے 120 کے ضمنی انتخابات میں فتح کے مارجن نے شہباز شریف کے موقف کو درست ثابت کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصاد م کی راہ سے گریز بہتر ہے ۔ باپ اور بیٹی سیاسی طور پر ’’شہادت اور مظلومیت ‘‘ کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے بھاری انتخابی کامیابی کی امید لگائے ہوئے تھے ، لیکن ایسا نہ ہوا۔
پی ایم ایل (ن) کے ووٹ کو سہ رخی پیش رفت نے نقصان پہنچایا۔ ایک ، اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکائو رکھنے والی دو مذہبی جماعتیں سیاسی اکھاڑے میں اترتے ہوئے پی ایم ایل (ن) کا کم از کم دس فیصدووٹ بنک لے اُڑیں۔ دوسری، پی ایم ایل (ن) کے اہم کارکنوں، جو الیکشن کے مواقع پر ووٹروں کو تحریک دے کر گھروں سے باہر نکالنے کی مہارت رکھتے ہیں، کی اچانک ’’گمشدگی‘‘ ، اور تیسری، دودرجن کے قریب ایسے امیدواروں کا الیکشن میںحصہ لینا جن کے ووٹ چند ہزار سے زیادہ نہیں تھے لیکن اگر وہ نہ ہوتے تو یہ ووٹ مجموعی طور پر پی ایم ایل (ن) کے امیدوار کو ملتے ۔
اب حمزہ نے ٹی وی پر آکر شریف خاندان میں نمایاں ہونے والے اختلافات کا اعتراف کیا ہے ۔ تاہم وہ اور مریم اب ہونے والے نقصان کی تلافی کی کوشش کررہے ہیں۔ حمزہ کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلافات ایسی خلیج نہیں جسے پُر نہ کیا جاسکے ، نیز اُنہیں اور ان کے والد صاحب (شہباز شریف ) کو امید ہے کہ وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں نوازشریف اور مریم کو تصادم اور محاذآرائی کے راستے سے گریز پر قائل کرلیں گے ۔ دوسری طرف مریم کا کہنا ہے کہ اُنھوںنے اپنے چچا، شہباز شریف اور کزن، حمزہ کے ساتھ چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک شاندار سہ پہر گزاری ، نیز خاندان میں اختلاف کی خبریں مخالفین کی خواہش تو ہوسکتی ہیں لیکن ان میںحقیقت کا کوئی عنصر موجود نہیں۔
اس دوران اسٹیبلشمنٹ کا موڈ جارحانہ ہے ۔ نوازشریف کو عہدے سے ہٹانے کے بعد اب یہ ان ٹی وی اینکروں اور چینلوں کی آواز خاموش کرارہی ہے جو نواز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں، یا ریاسست کے بیانیے کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے ۔ کیبل آپریٹروں پر دبائو ڈالنے سے لے کر پریشانی پیدا کرنے والے چینلوں کی نشریات روکنے تک، ہر قسم کا حربہ استعمال کیا جارہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوںکی حب الوطنی کو مشکوک بناتے ہوئے اُنہیں غیر ملکی طاقتوں کا ایجنٹ قرار دیا جارہا ہے ۔
حالیہ دنوں ایک غیر معمولی مداخلت بھی دیکھنے میں آئی ہے ۔ آرمی چیف نے عوامی سطح پر دئیے جانے والے ایک بیان میں ’’بیمار معیشت ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا کہ اس سے ’’نیشنل سیکورٹی ‘‘ کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ معیشت کی خراب صورت ِحال کوئی نئی بات نہیں، کئی عشروں سے ہمیں اسی ’’بیماری ‘‘ کا سامنا ہے ۔ تاہم آج معیشت کی صورت ِحال اتنی خراب نہیں جتنی ماضی میں کئی ایک مواقع پر تھی۔ شریف حکومت اور اس کے فنانس منسٹر اسحاق ڈار پر اسٹیبلشمنٹ کے توپچیوں کا لگا یا جانے والا ایک الزام یہ بھی ہے۔
پی ایم ایل (ن) کو فخر ہے کہ اس نے نہ صرف معیشت کی حالت بہتر کی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے بھی امکانات پیدا کیے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے انچارج، وزیر ِد اخلہ احسن اقبال نے دوٹوک انداز میں ان الزامات کو مسترد کردیا، جبکہ وزیر ِاعظم عباسی نے فوراً ہی آرمی چیف سے ملاقات کی اور اُنہیں حقیقی صورت ِحال کے متعلق بریفنگ دی اور معیشت کے بارے میں اُن کے خدشات رفع کیے ۔ تاہم ایک بات نوٹ کی جاسکتی ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت چند سال پہلے کی جانے والی مداخلت سے کم اہم نہیں جب سندھ کی سیاسی اشرافیہ پر کئی بلین ڈالر بدعنوانی کے الزامات تھے ( جو ثابت نہ ہوسکے ) اور اس بدعنوانی کا تعلق دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے نتیجے میںآصف زرداری کے کچھ اہم معاونین کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ، ایک چیف منسٹر کو عہدہ چھوڑنا پڑا اور صوبے پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط ہوگئی ۔
لیکن اگر نوازشریف کے لیے سیاسی موسم خراب ہے تودوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی براہ ِراست مارشل لا لگانے کی پوزیشن میں نہیں۔ تمام تر افواہیں اپنی جگہ پر ، لیکن اب اسلام آباد میں ’’ماہرین ‘‘ کی حکومت مسلط کرنا کسی کے بس میں نہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس بات کو یقینی بنائے بغیر کہ کیا پی ٹی آئی اگلے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرلے گی، دونوں مرکزی جماعتوں، پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی ناراضی مول لے رکھی ہے ۔ درحقیقت یہ دومرکزی دینی جماعتوں، جماعت ِاسلامی اور جے یو آئی پر بھی مکمل طور پر تکیہ نہیں کرسکتی ۔ پی ایم ایل (ن) میں فارورڈ بلاک بنانے کی اس کی کوششیں کامیاب ثابت نہیں ہورہیں۔ نہ ہی یہ براہ ِراست مداخلت کے لیے موجودہ عدلیہ کی تائید پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرسکتی ہے ۔ انتہائی کھولتے ہوئے عالمی حالات میں اقتدار کی سیج کانٹوں کا بستر ہے ۔ چنانچہ مارشل لا کو خارج ازامکان سمجھیں۔
موجودہ حالات میںٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ آئین میں اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ تھیوری کے اعتبار سے صرف ایک صورت میں ایسا ہوسکتا ہے جب پارلیمنٹ کو تحلیل کردیا جائے اور ایک نگران حکومت قائم کی جائے جس کی توثیق عدلیہ کردے ۔ لیکن آج کے ماحول میں اس کی کوشش وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلق کو نقصان پہنچائے گی،اور یہ اقدام ریاست، معاشرے اور معیشت کے لیے تباہ کن ہوگا۔ قوم کا المیہ یہ ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کا احتساب کرنے والے خود احتساب سے ماورا ہیں ۔ چنانچہ اعتماد کا فقدان اپنی جگہ پر موجود ہے ۔