• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب جانتے ہیں کہ ’’ نیوٹن ‘‘ سیب کے درخت کے نیچے آرام کر رہا تھا کہ ایک سیب درخت سے ٹوٹ کر گرا جسے دیکھ کر نیوٹن سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ سیب نیچے گرنے کی بجائے اُوپر کی جانب کیوں نہیں گیا ، اِسی سوچ اور ذہن میں جنم لینے والی ’’ کیوں ‘‘ نے کشش ثقل کی دریافت کرنے میں نیوٹن کی مدد کی ،درختوں کی چھاؤں میںبہت سے لوگ آرام کرتے ہیں اُن پر سیب بھی گرتے ہوں گے لیکن یہ تو کسی بھی عمل کو دیکھ کر سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ جس کی وجہ سے کشش ثقل سمیت انسان نے دوسری کئی ایجادات کیں اور زندگی کو آسان اور پُر آسائش بنایا ۔6دسمبر 2016کی ٹھنڈی صبح ، لاہور پولیس لائن سے کانسٹیبل محمد ریاض سیکورٹی کی ڈیوٹی کرنے سی سی پی او آفس لاہور آیا ، دوران ڈیوٹی اُسے سینے میں درد محسوس ہوا ، اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ آپ آرام کریں اور چھٹی کر لیں ، محمد ریاض نے کہا کہ نہیں میں عوام کی سیکورٹی پر مامور ہوںڈیوٹی پوری کرکے ہی چھٹی کرونگا ،7دسمبر 2016 کو سی سی پی او آفس میں تعینات ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز سلیم ڈیوٹی کے لئے اپنے آفس آتے ہیں تو اُنہیں سیکورٹی انچارج اطلاع دیتا ہے کہ کانسٹیبل محمد ریاض آج ہارٹ اٹیک کی وجہ سے وفات پا گیا ہے۔ ایس ایس پی ایڈمن سیکیورٹی انچارج کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ریاض کو آپ لوگوں نے ڈاکٹرز کو کیوں نہیں دکھایا ، اُسے اسپتال کیوں نہیں لے کر گئے ؟ اِن سوالوں کا جواب سیکورٹی انچارج کے پاس نہیں تھا۔ غم اور غصے کے ملے جلے تاثرات اپنے چہرے پر لئے رانا ایاز سلیم اپنے آفس میں جاکر بیٹھ گئے ،گھنٹی بجا کر اپنے اردلی سے کہا کہ ابھی کسی کو اندر نہ بھیجا جائے ، اردلی واپس گیا تو ایس ایس پی ایڈمن اپنے آفس کی چھت کی جانب گھورتے ہوئے اپنے بارے میں سوچنے لگے کہ جب 13مئی 2015کو وہ چالیس برس کے ہوئے تھے تو انہوں نے ہر تین ماہ بعد اپنے تمام ٹیسٹ کرانے شروع کر دیئے تھے ، محمد ریاض بھی چالیس سال کا ہو چکا تھا لیکن اُس نے اپنے ٹیسٹ کرانے کیوں شروع نہ کئے ؟ جومیرے لئے ہے وہ سہولت محکمہ پولیس کے ایک کانسٹیبل کومیسر کیوں نہیں ؟ کیا وہ انسان نہیں ؟ وہ ایک باپ، بھائی یا بیٹا نہیں؟ بس یہی وہ سوالات اور ’’ کیوں ‘‘ تھی جس نے پولیس ملازمین کی سہولت کے لئے POL CARE کا عمل یقینی بنایا لہٰذا آئندہ ماہ پول کیئر کام کرنا شروع کررہا ہے ۔پول کیئر کے ذریعے لاہور پولیس کے تمام ملازمین کا ڈیٹا HRMISکے تحت اکھٹا کیا گیا ہے جس کے مطابق 40سال سے زیادہ عمر کے ملازمین کی تعداد 8500 ہے، اِس ڈیٹا بیس کے مطابق جونہی کوئی ملازم چالیس سال کا ہوگا اُسے آٹو میٹک پیغام مل جائے گا کہ آپ اپنے ’’ بیس ٹیسٹ ‘‘ کا عمل شروع کر دیں اور ہر چھ ماہ بعد سی سی پی او آفس لاہور آپریشن روم میں آکر اپنے ٹیسٹ کرائیں ۔ویسے تو لاہورمیں گورنمنٹ کی جانب سے کافی اسپتالوں میں مفت علاج معالجہ کی سہولت موجود ہے لیکن پولیس لائن میں ملازمین کے لئے علیحدہ سے ایک اسپتال بنا دیا گیا ہے ۔زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن جب چالیس سالہ ملازم کو فون جائے گا کہ آپ اپنے ٹیسٹ کرا لیں تو اُس کے دِل میںاپنے محکمے میں تحفظ کے احساس کومزید تقویت ملے گی۔میںاسپین سے لاہور آیا تو ایس ایس پی ایڈمن سے ملاقات کا پروگرام بنایا تاکہ پولیس ملازمین کو مہیا کی گئی سہولتوں کے بارے میں تفصیلی آگاہی حاصل ہو ،آئی جی پولیس پنجاب ، ایڈیشنل آئی جی ،ڈی آئی جی آپریشن اور ڈی آئی جی ڈسپلن و انکوائری پنجاب کو ملنے کے بعد ہم ایس ایس پی ایڈمن کے آفس پہنچ گئے ۔دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ پول کیئر سے پہلے ہم نے WELFARE EYE کے نام سے ایس ایم ایس رُوم پروجیکٹ شروع کیا ہوا ہے یہ گروپ دوران ڈیوٹی ، دوران سروس وفات پانے یا زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ کے لئے سہولتیں مرتب کرتا ہے ۔اِس سوفٹ ویئر میں لاہور کے 295شہداء اور اُن کے اہل خانہ کا ڈیٹا فِیڈ کیا گیا ہے ،شہداء کی بیگمات کے لئے ایس ایم ایس رُوم میں لیڈیز آپریٹرتعینات کی گئی ہیں تاکہ پیغام آتے ہی لیڈیز آپریٹر شہداء کی بیگمات سے بات کریں کیونکہ کئی مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیگمات صرف خواتین سے ہی بیان کر سکتی ہیں،شہداء کے بچوں کی تعلیم ، طبی سہولتیں اور 18سال عمر ہونے پر اُن کے لئے محکمانہ نوکری کا فوری انتظام کیا جاتا ہے ۔تاکہ انہیں کبھی یہ احساس نہ ہو کہ اُن کا باپ دنیا میںنہیں بلکہ وہ سمجھیں کہ محکمے کی شکل میں اُن کا باپ زندہ ہے ،اِسی طرح شہداء کی بیگمات کو گروپ انشورنس ، پنشن ، بقایا جات ، انعامی رقم ،جہیز فنڈ ، 365دنوں کی مخصوص تنخواہ میں تاخیر کا سدباب بھی فوری کیا جاتا ہے ۔شہدائے پولیس کے اہل خانہ کے لئے ایسا کوئی فورم نہیں تھا جہاں وہ اپنے مسائل بیان کر سکتے اور انہیں فوری مدد دی جا سکتی لیکن ویلفیئر آئی نے ایک پیغام پر یہ سہولیات مہیا کرنے کا اہتمام کیا ہے ۔رانا ایاز سلیم انتہائی جذبات میں باتیں کر رہے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ میںنے یہ آئیڈیا دیا ، محکمہ پولیس کے تمام آفیسرز ، ڈی سی او لاہور ، سیکرٹری صحت ، وزیر صحت نے اِس آئیڈیا کو عملی جامہ پہنایا ، میں اِس سیٹ پر رہوں یا نہ رہوں لیکن شہداء کے اہل خانہ اور پولیس ملازمین کو طبی سہولتوں کے حوالے سے جو سسٹم بن گیا ہے اُسے کوئی بند نہیں ہونے دے گا کیونکہ یہ سب کچھ نیک نیتی اور ملازمین کی خدمت اور اُن کے وقار کا کام ہے ۔یہ سسٹم اُس لہو کو خراج پیش کرنے کی ایک کوشش ہے جو شہداء نے عوام اوراپنی دھرتی ماںکی حفاظت کرتے ہوئے نچھاور کر دیا ۔ایس ایس پی ایڈمن بات کر رہے تھے اور مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اُن کی آواز بہت دُور سے آ رہی ہے ،میں محکمہ پولیس کے زندہ اور شہید ہونے والے ملازمین کو سلام پیش کرتے ہوئے ویلفیئر آئی اور پول کیئر سسٹم پر فخر محسوس کر رہا تھا ، میرا دھیان اِس طرف چلا گیا کہ محکمہ پولیس نے اپنے ملازمین کی مدد کے لئے خود ہی سسٹم بنا لئے ہیں دوسری طرف حکومت پاکستان بھی توپاکستانی عوام کے لئے ایک ادارہ ہے وہ مہنگائی ، دہشت گردی ، لاقانونیت اور غربت کے خاتمے کے لئے ایسا کوئی سسٹم کیوں نہیں بناتی ؟پاکستان کو دیوالیہ بنانے والوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا ؟پاکستان کو لوٹنے والے ڈاکواور لُٹیرے قانون کی گرفت سے دُور کیوں ہیں ؟ایک لُوٹ لے تو وہ دوسرے کو لوٹنے کا موقع دے کر بیرون ملک کیوں فرار ہو جاتا ہے ؟ پاکستان میں سب کا احتساب کرنے کا رواج کب ہوگا ؟عدالتوں کی تاریخیں ،ثبوت ،تصدیق اورگواہان کی گواہی کا سست روی پر مبنی سسٹم کب ختم ہوگا ؟حکومت پاکستان کو عوام کے لئے ویلفیئر آئی اور پول کیئر جیسے سسٹم بنانے کا خیال کب آئے گا ؟ یہ سوچتے ہوئے ہم ایس ایس پی ایڈمن سے اجازت لے کر روانہ ہو گئے ۔

تازہ ترین