(تیسری قسط)
ساتھیوں کو تہجد کے وقت مسجد اقصیٰ پہنچنے کاپروگرام دیاگیاتھا ،لیکن ان کو جمع ہوتے ہوتے کافی دیر لگ گئی ،مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والا شہریروشلم کا دروازہ ہمارے ہوٹل سے پیدل صرف پانچ منٹ کے فاصلے پرتھا( جسے ہم اب تک مسجد اقصٰی کا گیٹ سمجھتے رہے تھے) سمت کا صحیح تعین نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے رہنما مخالف سمت چلے گئے۔ تھوڑے سے تردد کے بعد صحیح راستہ مل گیا۔ لیکن کچھ مزید تاخیر ہوگئی۔ یروشلم کے ہیروڈیس گیٹ پر اسرائیلی گارڈز مسلح گنوں کے ساتھ متعین تھے، ہمارے ساتھ کوئی تردد نہ کیا گیااورہم یروشلم میں داخل ہوگئے۔ ہیروڈیس گیٹ کاتعارف ہم پہلے کروا چکے ہیں۔ ہیروڈیس کا نام ہم نے بچپن میں(مروجہ انجیل میں) ولادت عیسیٰ علیہ السلام کے اور حضرت یحیٰ علیہ السلام کے سفاکانہ قتل کے ضمن میں پڑھا تھا۔اور ہمارے دماغ میں یہ نام چپکا ہواتھا۔آج اس کودیکھ کرعجیب سا ناقابل بیان احساس پیدا ہوا۔
ہیروٖڈیس کون تھا؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جس دور میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے میں یروشلم پر رومیوں کا قبضہ تھا، جنہوںنے ایک مقامی فلسطینی شخص کووہاں اپنا نمائندہ بنا رکھاتھا یہ تھا ہیروڈیس، جو یہودی تھا لیکن بنی اسرائیل میں سے نہیں حضرت یعقوب کے بھائی عیسو کی نسل سے تھا۔ بنی سرائیل ہمیشہ اس نسل والوں کے مخالف رہے، لیکن ہیروڈیس نے مسجد اقصیٰ یا ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جس کے بنی اسرائیل بھی معترف رہے۔ دوسری طرف غالباً یہی وہ بادشاہ ہے، بقول طبری جس نے اپنی کسی محرم عورت( بھانجی یا بھتیجی) سے شادی کرنا چاہی تھی۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام ( جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خالہ زاد تھے) نے اس امرکی مخالفت کی جس پر ان کے قتل کاحکم دے دیا گیا اور انہیں بیت المقدس میں صخرہ پر ذبح کرکے ان کاسر کاٹ کر دمشق میں اس بدکارعورت کی خدمت میں پیش کیا گیا ۔حضرت عیسیٰ کے رفع الی السماء کے بعد 70سال تک اس کی قائم کردہ ہیکل کی بلڈنگ قائم رہی تاآنکہ رومیوں نے فلسطین پر چڑھائی کردی اور طیطوس نے ساراہیکل تباہ کردیا۔ صرف ایک دیوار بچی ۔ یہودی اس ہیروڈیس کی بنائی ہوئی دیوار کے سامنے جا کر روتے اور یہودی دورکی یادیں تازہ کرتے ہیں ۔ اسی دیوار کے ساتھ نبی ﷺ نے معراج کے موقع پربراق باندھا تھا۔جس کی وجہ سے اسے دیوار براق کہاجاتاہے۔ ہم اسی ہیروڈیس گیٹ سے داخل ہوکر نشیب کی طرف اترنا شروع ہوگئے ۔ قدیم چکنے پتھروں سے بنا ناہموار راستہ خاصا طویل تھا مگرسبھی اس ناہموار راستہ پر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔کئی سو فٹ نشیب میں واقع مسجداقصیٰ کادروازہ باب حطہ ہے ( غالباًیہ قرآنی لفظ وقولوا حطۃ نغفرلکم سے ماخوذ ہے )اس دروازے کے باہر بھی اسرائیلی دستے بلٹ پروف جیکٹیں پہنے اورسنگینیں تانے چاق و چوبند کھڑے تھے۔ مسجد کے دروازے پر پہنچے تو اذان تہجد بلند ہورہی تھی۔اذان کے ترنم سے کچھ اتنے مسحور ہوگئے جیسے ہم مسجداقصیٰ میں نہیں کسی نئی دنیا میں داخل ہورہے ہیں۔ دعائے دخول مسجدپڑھ کر داخل ہوئے تومسلمان گارڈزنظرآئے جن کے پاس اسرائیلی فوجیوں کی طرح کوئی اسلحہ نہ تھا صرف واکی ٹاکی تھی۔ ہم نے انہیں سلام کیا انہوں نے کھڑے ہوکر ہمیں اھلاً وسہلاً و مرحبا کہا۔ہم نے بھی عقیدت و محبت کے ملے جلے جذبات سے بھرپورجواب دیا۔ انہوں نے ہم سے ہمارے نام اور ملک بارے پوچھا۔ ہمیں لگاجیسے ہم اپنے حقیقی بھائیوں سے مل رہے ہیں۔ سچ ہے انما المومنون اخوۃ۔آگے بڑھنے سے پہلے ہم مسجداقصیٰ کے دروازوں کی آپ کو سیر کراتے ہیں ۔
مسجد اقصیٰ کے دروازے
یاد رہے کہ مسجداقصیٰ کے 14دروازے ہیں۔ باب حطہ۔باب الاسباط۔باب الجنائز۔باب الرحمہ۔باب فیصل۔ باب الغوانم۔باب الناظر۔ باب القطانین۔باب المطہرۃ۔ باب السلسۃ۔ باب المغاربۃ ۔باب المزدوج۔ باب الثلاثی اور باب المفرد۔ ان میں سے پہلے تین دروازے کھلے ہیں ، اندرونی دروازوں پر ہمیں جانے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ اس لیے ان کے بارے میں یقینی طور پرکچھ نہیں کہہ سکتے ۔باب الرحمہ بالکل بند ہے، مشہور ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس دروازے سے داخل ہوں گے۔باب الجنائزسے ملحقہ مسلمانوں کا قبرستان ہے جہاں کئی صحابہ کرام کی قبور مبارکہ ہیں۔ باب المغاربہ یہود کیلئے خاص ہے جہاں سے دیوار براق کو راستہ جاتا ہے ،جسے انہوں نے دیوار گریہ کا نام دے رکھا ہے۔کئی دروازے مستقل طور پر بند رکھے جاتے ہیں۔اب مسجداقصیٰ کی تھوڑی سی تاریخ بھی پڑھ لیجئے ۔
مسجد اقصیٰ کی مختصر تاریخ
سرزمین فلسطین کی طرف سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے ہجرت کی تھی ۔ان کے تقریباًًٰ600سال بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قوم فرعون کی غلامی سے نجات دلا کراس بابرکت زمین میں جگہ دی۔ پھر مزید اڑھائی تین سو سال بعد حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ اسلام کو اس علاقے کی بادشاہت عطا ہوئی 620ء میں نبی ﷺ جبرئیل علیہ السلام کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے اور وہاں سے معراج آسمانی کیلئے تشریف لے گئے ۔بیت المقدس… مسلمانوں کا قبلہ اول…یامسجد اقصیٰ …اسی میں قبۃ الصخراء واقع ہیں ۔کہاجاتاہے پہلی صدی (ق م) میں جب رومیوں کا قبضہ ہوا تو انہوں نے اسے ایلیا کانام دیا تھا ، مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کافاصلہ تقریباً سوا آٹھ سو میل ہے۔ یروشلم کے جنوب میں بیت اللحم اور الخلیل اور شمال میں رملہ ہے ۔ بیت المقدس کئی پہاڑیوں پر واقع ہے۔ ایک پہاڑی کانام کوہ صیہون (Zion) ہے، جس کے نام پر یہودیوں کی عالمی تحریک صیہونیت قائم کی گئی ہے ۔مسجد اقصیٰ کی بنیاد حضرت یعقوب علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے رکھی تھی۔ اور اس کی وجہ سے شہر یروشلم آباد ہوا۔ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت داؤدعلیہ السلام نے اس کی توسیع کی ۔ان کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے(961ق م) میں مسجد اورشہر کی تحدید کی۔
ہیکل سلیمانی کی تباہی
حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ مسجد جسے ہیکل سلیمانی کانام بھی دیا جاتا ہے ۔اس کو(586ق م) میں بابل (عراق) کے بادشاہ بخت نصر نے مسمار کردیاتھا۔ اور دس لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیاتھا ۔ بیت المقدس کے اس بربادی کے دور میں حضرت عزیز علیہ السلام کایہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے اس شہر کو مردہ پایا اور تعجب ظاہر کیا کہ کیایہ شہر دوبارہ آباد ہوسکتاہے؟ اس پر اللہ نے انہیں سوسال تک کیلئے موت دے دی ۔ سو سال کے بعد وہ جاگے تو یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بیت المقدس پھر آباد اور پررونق شہر بن چکاہے( سورہ بقرہ آیت 249)بخت نصر کے بعد( 539ق م ) میں شہنشاہ فارس …سائرس اعظم …نے بابل فتح کرکے بنی اسرائیل کو فلسطین واپس جانے کی اجازت دے دی تھی اورانہوں نے بیت المقدس اور شہر پھر سے تعمیر کرلیے تھے۔ یروشلم پر دوسری تباہی رومیوں کے دور میں نازل ہوئی۔ رومی جرنیل طیطوس نے70میں یروشلم اور ہیکل سلیمانی دونوں برباد کردیے ۔
اسلامی عہد میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر
137(ق م) میں رومی بادشاہ ہیڈریان نے شوریدی سر یہودیوں کو بیت المقدس اور فلسطین سے جلاوطن کردیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں رومیوں نے عیسائیت قبول کرلی اور بیت المقدس میں گرجاتعمیرکیا۔ جب نبیﷺ معراج کو جاتے ہوئے بیت المقدس پہنچے تو اس وقت یہاں کوئی باقاعدہ مسجدتھی نہ ہیکل ( بچے کچھے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا) مفسرین کرام کے مطابق قرآن کریم نے اسی جگہ کو مسجد اقصیٰ کہا ہے ۔ جہاں حضرت یعقوب علیہ السلام نے مسجد بنائی تھی ۔17ہجری یعنی639ء میں عہد فاروقی میں عیسائیوں سے کئے گئے ایک معاہدے کے تحت بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔اوریہاں مسجد تعمیر کی گئی جس میں لکڑی کا استعمال زیادہ کیاگیاتھا۔ خلیفہ عبدالملک کے عہد میں مسجداقصیٰ کی باقاعدہ تعمیرعمل میں لائی گئی اور صخرہ معراج پر قبۃ الصخراء بنایاگیا1099ء یعنی 492ھجری میں یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر حملہ کرکے70ہزار مسلمانوں کوشہید کردیا۔1187ء یعنی583ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو عیسائیوں کے قبضے سے چھڑایا۔
بیت المقدس پر یہودیوں کاقبضہ
پہلی جنگ عظیم کے دوران ستمبر1917میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کویہاں آباد ہونے کی عام اجازت دے دی ۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کردیا اور جب 14مئی1948کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑگئی ۔اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے78فیصد رقبے پر قابض ہوگئے تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس ) سمیت غرب اردن کا علاقہ اردن کے قبضے میں آگیا تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون1967) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا مسلمانوں کا قبلہ اول اب یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ 70عیسوی کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کاکچھ حصہ بچاہواہے ۔ جہاں یہودی زائرین آکر روتے ہیں اسی دیوار کے ساتھ نبیﷺ نے براق کو باندھا تھا۔اس لیے اس کا نام دیوار براق ہے ۔ مسجد اقصی کا موجودہ کمپلیکس ایک لاکھ چوالیس ہزار سکویر میٹر یا 144ایکڑ (انگریزی میں acress اورعربی میں دونم کہا جاتا ہے)پر مشتمل ہے ۔یہ سارا علاقہ مسجداقصیٰ ، القدس یا بیت المقدس ہی کہلاتاہےجس دور میں رسول اللہ ﷺ معراج کیلئے تشریف لائے تھے اس دور میں بعض واقعہ نگاروں کے مطابق یروشلم میںرومی بادشاہ ہیڈریان کی حکومت تھی اسی نے یہاں ہیکل کے تمام آثارمٹاکر رومی دیوتا پیٹرکی پوجاکیلئے ایک مندر تعمیر کیاتھا۔ لیکن قرآن کہتاہے کہ نہ تو وہاں کوئی مندرتھانہ کوئی ہیکل بلکہ مسجداقصیٰ اس وقت موجود تھی ۔ سیرت پر لکھی گئی دوسرے تیسرے درجے کی کتابوں سے تو ثابت ہوتا ہے کہ یروشلم میں بیت المقدس موجود تھا جہاں آنحضور نے نمازپڑھائی اور(روحانی طور پر)انبیاء کی امامت کروائی تھی ۔
نماز فجرکی ادائیگی
باب حطہ کے بائیں طرف وضو خانے ہیں ، جن کی صفائی قابل رشک نہیں ہے کیونکہ اسرائیلی گارڈز کوئی چیز مسجد کے اندر لانے کی اجازت نہیں دیتے ، تعمیرتو دور کی بات کوئی چیزمرمت بھی نہیں کی جاسکتی ،باب حطہ کے سامنے تقریباً پچیس تیس گزتک ایک ہی لیول ہے اوراس پورے ایریے میں زیتون اور شاہ بلوط کے بے شمار درخت بڑی خوبصورتی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ کچھ درخت کالی مرچ کے بھی ہیں ۔ پچیس تیس گزکے بعد پھر چند سیڑھیاں ہیں اور اس کے بعد ایک لمبا احاطہ ہے جہاں قبۃ الصخراء ہے ۔اس قبۃ الصخراء کوہی مسجد اقصی کاسیمبل سمجھا جاتاہے۔ جب ہم اس کے پاس سے گزرے تو پوری تاریخ نگاہوں میں گھوم گئی۔ ایسے لگا جیسے ہم صدیوں پہلے کی دنیا میں سانس لے رہے ہیں، اسی تقدس کے ہالے میں لپٹے ہوئے ہم نے صحن قبۃ الصخرا عبورکیا۔کیونکہ تہجدکی اذان کے بعد اذان فجر میں کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوتا ۔صحن قبۃ الصخراء کو عبور کرکے پھر نیچے سیڑھیاں اترتی ہیں جہاں سے مسجد اقصی میں جایاجاتاہے۔ یہ بلڈنگ جانب جنوب واقع ہے ۔ کعبۃ اللہ کی طرف رخ ہونے کی وجہ سے اسے مسجد قبلی کہاجاتاہے ۔ (جاری ہے)