• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوسف رضا گیلانی کا چیلنج قبول ہے.... سحر ہونے تک … ڈاکٹر عبدالقدیرخان

”عذر گناہ بد تر از گناہ“ بزرگوں نے شاید یہ بات اس لئے کہی ہے کہ گناہ کا ارتکاب خود ہی ایک مکروہ فعل ہے لیکن اسے درست قرار دینے کے لیے حیلے ،بہانے تراش کرکے جائز قرار دینے کی کوشش اوربھی زیادہ قابل نفرین فعل ہے۔گناہ کے بعد توبہ اور دوباہ اس گناہ کو نہ کرنے کاعزم ایک پسندیدہ عمل ہے ۔ہمارے معاشرے میں بد قسمتی سے اہل اقتدار طبقہ اول تواسے گناہ کہنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں اور اگر بات ان کی گرفت سے باہر ہوکر عام ہوجائے تو پھر ہر طرح کا عذر پیش کرنے لگتے ہیں ،اگر ندامت کا اظہار ہوتا ہے تو پھر عذرات کے ساتھ ۔اس طرح گناہ کی سنگین نوعیت کم نہیں ہوتی بلکہ زیادہ ہوجاتی ہے ۔اس کی تازہ مثال سابق آمر مشرف کی ہے جو اس پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔اپنی غلطیوں اور گناہوں کو درست ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کے ناقص دلائل پیش کر رہا ہے اور اس ناکام کوشش میں اپنی غیر موجودعقل و فہم کا بھانڈہ پھوڑ رہا ہے ۔اس نے جو کچھ کیا ہے اور ملک کو نقصان پہنچایا ہے اس سے سب واقف ہیں اور مجھے دہرانے کی ضرورت نہیں۔لاتعداد جرائم اور گناہ تو اظہر من الشمس ہیں اور لا تعداد یقینا ایسے ہیں جو وہ خود جانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعین کردہ فرشتوں نے لکھ لیے ہونگے اور ان گنا ہوں کی سزا بھی اللہ تعالیٰ ہی دے گا اور بلاشبہ اللہ کی گرفت اور عتاب بہت ہی دکھ دینے والے ہیں، پاکستان کے عوام حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے مشرف کوٹی وی پرندامت و تاسف کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا ،ہر شخص سوچنے لگا کہ”گویم مشکل و گرنہ گویم مشکل “ یعنی کچھ کہوں تو مشکل اور چپ رہوں تو مشکل ۔کچھ سمجھدار لوگوں نے اتنا ہی کہا کہ” چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی“ یعنی اے عقل مند ایسا کام کیوں کرتا ہے جس کی وجہ سے تمہیں شرمندگی اٹھانا پڑے ۔غور سے دیکھا جائے تو مشرف کو اپنے کسی فعل پر ندامت اور شرمندگی نہیں ہے بلکہ اس قسم کی باتیں کر کے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش ہے کہ کسی طرح ملک پر دوبارہ قبضہ کر سکے لیکن دنیا میں آج تک کوئی ڈکٹیٹر اقتدار سے نکالے جانے کے بعد دوباہ اقتدار حاصل نہ کر سکا ۔عوام جانتے ہیں کہ ” آزمودہ را آزمودن جہل است “ یعنی آزمائے ہوئے کودوبارہ آزمانا جہالت ہے۔
حضرت عیسیٰ  سے پہلے ہندووٴں کی مذہبی کتاب میں انسان کو زندگی گزارنے کے لئے چندطریقے بتائے تھے، بچپن و جوانی تحصیل علم میں،گرہستی یعنی خانگی زندگی اور اس کے بعد سنیاس یعنی عبادت وترک دنیا ۔پرویز مشرف اور ہمارے کچھ لیڈروں کو اب اقتدار کی تگ ودو میں پڑنے کی بجائے سنیاس اختیار کرنا چاہیے ۔جومشیر ایسے لوگوں کو اقتدار حاصل کرنے کا مشورہ دیتے رہے ہیں وہ ان کے خیر خواہ نہیں ہیں۔
قارئین جانتے ہیں کہ اہل اقتدار ایک طویل عرصہ سے غلط بیانی اور دروغ گوئی سے ان کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہے ہیں۔ان کے پاس ہر غلط کام اور نااہلی کو صیحح ثابت کرنے کے لیے دلائل کے ذخائر ہیں۔چینی کی قلت ،ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کے بارے میں پوری قوم حقائق سے واقف ہے مگر سبحان اللہ !حکومت کے پاس اس نااہلی کو صحیح ثابت کرنے کے ہزار دلائل موجود ہیں۔پچھلے اڑھائی سال سے عوام ایک خوش خبری سننے کو ترس گئے ہیں اور حکومت کی جانب سے وہی روایتی دعوے اور وعدے جاری ہیں ،نہ لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی نہ مہنگائی ،نہ بیروزگاری اور نہ ہی امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی،ہمارے یہاں بد قسمتی یہ ہے کہ اگرکوئی ٹھیک ٹھاک حکمران آبھی گیا تو ہمارے نہایت مکار و عیار،خوشامدی ،مطلب پرست لوگ اس کو جلدی اپنے رنگ میں ڈھال لیتے ہیں اور وہ پرانی ضرب المشل سچ ہو جاتی ہے کہ ”ہر شخص کہ درکانِ نمک رفت نمک شد“ یعنی جو بھی نمک کی کان میں گیا وہ نمک ہو گیا۔پاکستانی سیاست بھی نمک کی کان ہے جہاں ہر شخص نمک ہوجاتا ہے۔ کچھ حکمرانوں نے اپنے ابتدائی دور میں اچھے کام کئے مگر پھر کالک کی کوٹھڑی میں چہرے سیاہ کرکے واپس آگئے اور غیر مقبول ہو کرچلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بے چارے عوام تبدیلی کی خواہش اور دعا کرتے ہیں، جیسے کہاوت ہے کہ ”گو کچھ نہیں امید تو ہے انقلاب میں“ایک عربی ضرب المثل بھی یہی کہتی ہے کہ تبدیلی خواہ بری ہو لوگوں کو پسند آہی جاتی ہے ،ان کا خیال ہے کہ ساکت پانی گندہ اور بدبو دار ہو جاتا ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ تبدیلی اچھی ہے مگر بری نہ ہو بہتری کی جانب ہو۔ہمارے ملک میں بس بری ہی بری تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ دیکھئے ہر صاحب ِاقتدار غلام اسحق خان، جنرل اسلم بیگ،اور جنرل وحید کاکڑ نہیں ہوتا۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار یا تو اپنا کردار اور کارکردگی ٹھیک کریں ورنہ نااہلی کا اعتراف کرکے راستہ سے ہٹ جائیں۔اب گیلانی نے بھی اعتراف تو کیا ہے کہ بد انتظامی کی وجہ سے رشوت ستانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایک قدم آگے بڑھائیں اور راستہ چھوڑ کر دوسرے کو موقع دیں کہ بد انتظامی دور کریں۔دیکھیے حالات اس قدر بگڑ گئے ہیں کہ ایک عوامی سیلاب کسی بھی لمحہ آ سکتا ہے۔اور وہ جب آئے گا تو ساری خرابیاں خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔نااہل،تخریب کار، چور، لٹیرے، منافق سب چلے جائیں گے۔اور اگر اتفاقاً کوئی بچ بھی گیا تو لوگ اس کو دیکھ کر کہیں گے۔
”اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف ِبے کارواں ہو کر“
پچھلے اڑھائی سال سے عوام چاند کی طرف دیکھ رہے ہیں شاید ان کو مل جائے مگر حکومت نے چاند تو کیا مٹی کا ٹھیکرا بھی نہیں دیا۔ حال ہی میں حکومت نے یہ تاثر دیا کہ وہ رشوت ستانی اور بد انتظامی کا خاتمہ کرنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے ،پہلے رحمان ملک نے بیان دیا کہ بدعنوان اور رشوت خوروں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں گے اور گیلانی نے بھی کچھ ایسا ہی بیان داغ دیا۔ اب دیکھئے کہ نتائج کیا نکلتے ہیں،اس سے پہلے بھی ایسے ہی لاتعداد بیانات آچکے ہیں۔ بقول شاعر
یہ اور بات ہے کہ نہ ہو روشنی بہت
روشن چراغ بزم شبستاں ہوئے تو ہیں
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ عوام کو شک نہیں یقین ہے کہ حکمران راشی ہیں ،چور ہیں، جھوٹے ہیں ،نااہل ہیں اور ان کی موجودگی میں کوئی اچھا کام ممکن نہیں ہے گویا”چوں کفر از کعبہ ہر خیز دکجا ماندمسلمانی“ یعنی جب کعبہ سے ہی کفر پھیلے تو مسلمانیت کہاں رہے گی؟
کچھ عرصہ پیشتر وزیراعظم گیلانی نے پارلیمنٹ میں اعلی سوٹ پہن کر ہاتھ ہلاہلا کر چیلنج کیا تھا کہ ان سے بہتر کوئی حکومت نہیں چلا سکتااوراگر کوئی چلا سکے تو آگے آئے۔ محترم وزیراعظم صاحب !یہ خادم آپکا چیلنج قبول کرتا ہے لائیے نظام حکومت مجھے دیجئے (جو کہ آپ کبھی دیں گے نہیں)آپ اور پارلیمانی نمائندے قوانین بنائیں اور میری بتائی ہوئی تدبیروں پر عمل کریں۔آپ اڑھائی سال سے زیادہ حکومت کر چکے ہیں ۔ دوسال بعد ملکی اورغیر ملکی غیر جانبدار ریفریز،ججوں کا پینل بیٹھا کر ان سے فیصلہ کرالیں کہ نتائج کیا ہیں؟؟؟ایک حکمران یا وزیراعظم کو اہل ،نیک نیت اور مخلص ہونا چاہیے اور اٹھارہ کروڑ عوام پر اٹھارہ لاکھ یا اٹھارہ ہزار یا اٹھارہ سو حکمرانوں کی ضرورت نہیں ہے جتنی بڑی وزارت موجود ہے وہ اگر اہل ہو تی تو ملک کی حالت بدل جاتی۔میں اس کی آدھی تعداد سے وہ تمام کام نہایت خوش اسلوبی سے کر ادیتا ۔سول سوسائٹی اور افواج پاکستان میں لاتعداد قابل،ایماندار،باضمیر اشخاص موجود ہیں ۔کہوٹہ میں میرے پاس دونوں قسم کے افسران تھے اور انہوں نے معجزات سے کم کام نہیں کئے،اگر ہم سات سال میں ایٹم بم اور چار سال میں بیلسٹک میزائل مہیاکرسکتے تھے تو چینی کی فراہمی اورتقسیم ،سیلاب زدگان کی مدد اور تعمیر نو،بجلی کے بحران سے نمٹنا ہمارے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔ مجھے کسی قسم کی خوش فہمی یا غلط فہمی نہیں ہے بلکہ پورا یقین ہے کہ نہ صرف بزرگ اشخاص بلکہ اس قوم کا اثاثہ یعنی نوجوان طبقہ میری ایک پکارودرخواست پر کمر بستہ ہو کر اپنے پیارے پاکستان کو بچانے میں سرتن کی بازی لگا دیں گے اورمجرموں کو غلط کام نہیں کرنے دیں گے ،اسی طرح فوج کو ضروری نہیں کہ اسلام آباد کے محل میں بیٹھ کر ملک سدھارنے کی کوشش کرے ،کیونکہ وہ اپنے پیشہ سے دورہو کر اس کو بھی بگاڑ دیتی ہے اور حکومت بھی نہیں کرسکتی، جس طرح ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں کہ وہ خوشامدیوں اورخود غر ض مشیروں کے پھندے میں آجاتی ہے ۔جب آپ ان کے افسران کو صحیح منزل دکھائیں، اعتماد میں لیں اور ذمہ داری دیں تو وہ آپ کو نا امید نہیں کریں گے۔ان کو تجربہ کار ، اہل لوگوں کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ جناب وزیراعظم صاحب !سوچئے غور سے اس چیلنج کے بارے میں اور آزما کر دیکھئے ، پاکستان کی خاطر میں تیار ہوں۔
تازہ ترین