کراچی(جنگ نیوز) وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کی بات کرنا وفاقی یونٹس کو توڑنے کے برابر ہے، پی ٹی آئی 2013ء سے آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کررہی ہے، قبل از وقت انتخابات اگر ضرورت ہوں تو اس کیلئے بھی طریقہ کار ہے، یہاں ایشو دراصل مارچ 2018ء کے سینیٹ الیکشن ہیں، کسی کو مردم شماری پر اعتراض ہے تو سی سی آئی کا فورم موجود ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہی تھیں۔
پروگرام میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری،پیپلز پارٹی کے رہنما نبیل احمد گبول،امیر جماعت اسلامی خیبرپختونخواہ مشتاق احمد خان اور ترجمان عوامی نیشنل پارٹی زاہد خان سے بھی گفتگو کی گئی۔فیصل سبزواری نے کہا کہ کراچی میں مردم شماری کے نتائج مشکوک ہیں، کراچی کاکوئی ذی شعور شہری اس مردم شماری کو نہیں مانتا ہے،زاہد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے اپنی حکومت کو تحلیل کردے،نبیل گبول نے کہا کہ سینیٹ انتخابات کیلئے حکمت عملی بنائی ہوئی ہے ن لیگ کی اکثریت نہیں ہوسکے گی۔ مشتاق احمد خان نے کہا کہ خیبرپختونخواہ اسمبلی قبل از وقت تحلیل ہونے کا امکان نہیں ہے، صوبے میں ہنگامی حالات نہیں کہ ایسا کوئی قدم اٹھانا پڑے۔میزبان طلعت حسین نے اہم نکتہ بیان کیا کہ اہم گرفتاریوں پر یکدم بیماریاں کیوں سامنے آجاتی ہیں، آج کل اسحاق ڈار صحت کے مسائل کا شکار ہیں، اگر ہم تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو چند کیسوں کو چھوڑ کر بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جو سیاسی موڑ کے ساتھ جڑ جاتی ہیں وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قبل از وقت انتخابات کی بات کرنا وفاقی یونٹس کو توڑنے کے برابر ہے، پاکستان کے ساتھ ایسے کھلواڑ ماضی میں بھی ہوتے آئے ہیں، پی ٹی آئی 2013ء سے آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کررہی ہے، عمران خان 2014ء میں اسمبلیاں تحلیل کروانے ہی اسلام آباد آئے تھے، فواد چوہدری اس پارٹی کی نمائندگی کررہے ہیں جو پارلیمنٹ پر حملہ کر کے گئی، فواد چوہدری کی بات سے عمران خان کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو پارلیمانی امور کا شعور نہیں ہے، قبل از وقت انتخابات اگر ضرورت ہوں تو اس کیلئے بھی طریقہ کار ہے، قبل از وقت انتخابات کیلئے وجہ بتانی بہت ضروری ہوتی ہے اس کے بعد اسے صوبائی اسمبلی کے پارلیمانی پراسس سے گزرنا ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہو تو یہ آئین کے ساتھ تصادم اور ٹکراؤ کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایشو دراصل مارچ 2018ء کے سینیٹ الیکشن ہیں، سینیٹ الیکشن اور الیکشن 2018ء کے درمیان کچھ نہیں ہوگا، حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد ہی الیکشن ہوں گے، پاکستان میں سیاسی استحکام بہت ضرورت ہے، مردم شماری کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اگر کسی کو مردم شماری پر اعتراض ہے تو سی سی آئی کا فورم موجود ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما فیصل سبزواری نے کہا کہ کراچی میں مردم شماری کے نتائج مشکوک ہیں، مردم شماری کے نتائج پر کراچی والوں کو منظور نہیں ہیں، 2008ء میں ہونے والی خانہ شماری میں جتنے مکانات گنے گئے تھے اس میں حالیہ خانہ شماری اور مردم شماری میں کیسے کمی ہوگئی، مردم شماری کے مطابق باقی شہروں کی آبادی بڑھی ہے لیکن کراچی کی آبادی نہیں بڑھی، ایسا لگتا ہے رحیم یار خان، گھوٹکی اور عمر کوٹ سے لوگ کراچی آنے کے بجائے کراچی کے لوگ وہاں چلے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کو چیلنج کرنے کیلئے عدالت میں جارہے ہیں، کراچی کاکوئی ذی شعور شہری اس مردم شماری کو نہیں مانتا ہے، وفاق اور افواج کی مانیٹرنگ کے باوجود مردم شماری کا نتیجہ آیا اسے کراچی والے مسترد کرتے ہیں۔
فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے نتائج خفیہ دستاویز نہیں ہونی چاہئے ، مردم شماری میں گنے گئے رہائشی بلاکس اور یونین کمیٹی اور وارڈز کی سطح پر گنے گئے لوگوں کی فہرست جاری کی جائے، ووٹر لسٹ کی طرح اس ریکارڈ کو بھی سامنے لایا جائے تاکہ لوگوں کو اپنے خانہ شمار ہونے کا پتا چلے، سندھ کے دیہی علاقوں کی آبادی کئی سو فیصد بڑھی لیکن کراچی کی آبادی میں کمی آگئی جہاں پورے پاکستان سے لوگ روزگار کیلئے آتے ہیں، کراچی کی ا ٓبادی بڑھنے کی دنیا قائل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں نے مردم شماری کے نتائج کو مسترد کیا، ایم کیوا یم کے علاوہ کسی نے اس مسئلہ کو عدالتوں، عوام میں لے جانے کی کوشش نہیں کی، ایم کیو ایم کی ماضی برائیوں کی بنیاد پر وفاق ، ریاست اور حکومتوں کی کراچی کے ساتھ زیادتیوں سے صرفِ نظر نہیں کیا جانا چاہئے، بانی ایم کیوا یم سے رابطوں کے دعوے کو مسترد کرتا ہوں، لوگوں کا چھوڑ کر جانا بھی ایم کیو ایم کے ارتقائی عمل کی دلیل ہے۔
نبیل گبول نے کہا کہ فواد چوہدری کا قبل از وقت انتخابات کا بیان غیرسنجیدہ ہے، پی ٹی آئی قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے تو پہلے خیبرپختونخوا اسمبلی توڑے اس کے بعد سندھ اسمبلی کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے، انتخابات میں تاخیر اور قبل از وقت انتخابات کے بیچ میں کچھ ہونے والا ہے، سینیٹ انتخابات کیلئے حکمت عملی بنائی ہوئی ہے، سینیٹ انتخابات کے بعد بھی ن لیگ کی اکثریت نہیں ہوسکے گی، قبل از وقت انتخابات ن لیگ کے فائدے میں ہوں گے، ن لیگ مظلوم پارٹی کی حیثیت سے عوام کے پاس جائے گی، نواز شریف بھی عدالت کا سامنا مظلوم بن کر کررہے ہیں، انتخابات وقت پر ہوئے تو عوام ن لیگ سے کارکردگی کا حساب مانگیں گے۔مشتاق احمد خان نے کہا کہ خیبرپختونخواہ اسمبلی قبل از وقت تحلیل ہونے کا امکان نہیں ہے، صوبے میں ہنگامی حالات نہیں کہ ایسا کوئی قدم اٹھانا پڑے، اسمبلیوں کوآئین کے مطابق وقت پورا ہونے پر تحلیل کیا جانا چاہئے، ترجمان تحریک انصاف نے اسمبلی تحلیل کرنے کا بیان صوبائی حکومت نہیں پارٹی کی طرف سے دیا ہے، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی سے اتحاد کابینہ اور اسمبلی کی چار دیواری تک ہے، صوبے میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی اپنی اپنی پالیسیاں رکھتی ہیں۔
مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کو مردم شماری پر اعتراضات ہیں، قبائلی علاقوں کے حوالے سے اعداد و شمار ناقابل قبول ہیں، نئی حلقہ بندیاں مردم شماری کے مطابق ہونی چاہئیں، ملک میں جمہوریت کا تسلسل ضرور ہے لیکن استحکام نہیں ہے، جمہوریت کا تسلسل ہی سیاسی استحکام پیدا کرنے کا باعث ہوگا، سیاسی استحکام کی طرف پیشرفت اداروں کی خودمختاری سے ہوگی۔زاہد خان نے کہا کہ تحریک انصاف کی سیاست سمجھ سے باہر ہے، پی ٹی آئی قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے اپنی حکومت کو تحلیل کردے، آئین کے مطابق وزیراعلیٰ چاہے تو گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے کہہ سکتا ہے،پی ٹی آئی ملکی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے ایسے معاملات اٹھاتی ہے، حلقہ بندیوں کیلئے ترمیم ہونے دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں عدم استحکام کی وجہ سے انتخابات کو موخر نہیں کیاجاسکتا،الیکشن ان ملکوں میں بھی ہوتے ہیں جو حالت جنگ میں ہوتے ہیں، پاکستان آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے بغیر نہیں چل سکتا ، قبل از وقت ا نتخابات کیلئے آئین میں ترمیم یا سپریم کورٹ کے پاس جانا پڑے گا۔
میزبان طلعت حسین نے اہم نکتہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اہم نکتہ کا تعلق ان بیماریوں سے ہے جو اہم سیاسی مواقع پر یکدم سامنے آجاتی ہیں، آج کل اسحاق ڈار صحت کے مسائل کا شکار ہیں، اگر ہم تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو چند کیسوں کو چھوڑ کر بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جو سیاسی موڑ کے ساتھ جڑ جاتی ہیں، اسحاق ڈار کیس کے علاوہ ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، مفتی عبدالقوی، آصف زرداری، نہال ہاشمی، ظفر حجازی، پرویز مشرف ، شعیب شیخ اور شہباز شریف سمیت بہت سے کیس اس فہرست میں شامل ہیں، عین ممکن ہے اس میں بہت سے لوگ حقیقتاً بیمار ہوں اس لئے کوئی ایسا طریقہ کار وضع کرنا چاہئے جس سے پتا لگ سکے کہ بیماری کی آمد اسی وقت کیوں ہوتی ہے جب سیاسی ضرورت شدید ترین بنتی نظر آتی ہے، جولائی 2017ء میں ڈاکٹر عاصم کیس میں جسٹس اعجاز افضل نے میڈیکل سرٹیفکیٹس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ سمجھ نہیں آئی کہ ہر بڑے آدمی کو بیماری کا سرٹیفکیٹ کیسے مل جاتا ہے اور ہر میڈیکل بورڈ کہتا ہے کہ بڑے آدمی کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے، جسٹس دوست محمد نے کہا کہ یہ معاملہ 1980ء سے شروع ہوا جب عدالت نے ایک مرگی کی مریض کی ضمانت منظور کی تھی اورا ٓج تک ہر ملزم مرگی کا سرٹیفکیٹ لے کر آجاتا ہے۔