• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اشک ما بر خاک پاک او رساں...نقش خیال…عرفان صدیقی

آل امام عاشقاں، پور بتول
سرو آزادے زبستان رسول
آج عاشقوں کے اس امام و پیشوا حضرت فاطمہ کے فرند عظیم اور رسول کریم کے باغ کے سرو آزاد حضرت امام حسین کا یوم شہادت ہے۔ ایسی شہادت جسے علامہ اقبال نے اسلام کی غریب و سادہ و رنگین داستان کی نہایت قرار دیا ہے۔ جو بھی تاریخ کے اس خونچکاں ورق پہ نگاہ ڈالتا ہے، اس کے سینے سے درد کا ایک غبار سا اٹھتا ہے۔ آنکھیں نم ہونے لگتی ہیں۔ نوحے، گریہ، محفلیں ، مجلس جلوس سلام، تذکرے، یادیں دعائیں ، سبیلیں ہر ہر رنگ سے شہدائے کربلا کو یاد کیا جاتا ہے۔ اور یہ کوئی معمولی یاد نہیں ہوتی۔ یہ ایک نظریئے، انداز اور اسلوب حیات کی یاد ہے جس کا درس ہمیں آغوش نبوت سے ملتا ہے۔ جس کا اظہار ابو بکرصدیق، عمر فاروق، عثمان اور علی المرتضیٰ  جیسی عظیم ہستیوں کے کردار و عمل کے ایک ایک زاویئے سے ہوتا ہے۔ جس کی خوشبو حضورﷺ کے صحابہ کرام کی زندگیوں کے ایک ایک لمحہ درخشاں سے آتی ہے۔ محبت و عقیدت کے قرینے جدا جدا سہی، لیکن حسین سب کا ہے ، کربلا سب کا ہے اور کربلا کی خاک پر نواسئہ رسول کے لہو سے لکھی جانے والی دستان کا درس عظیم سب کے لئے ہے۔
لیکن جانے کیا کم نصیبی ہے کہ جوش و جذبہ کی پوری توانائیوں کے ساتھ یوم شہدائے کربلا منانے اور بہ صد اہتمام اظہار عقیدت کرنے کے باوجود ہمارے لہو میں وہ حرارت پیدا نہیں ہوتی جو درس کربلا کا تقاضائے اولین ہے۔ ہمارے اندر وہ روح انگڑائی نہیں لیتی جو حق گوئی و بے باکی کا جوہر عطا کرتی ہے۔ ہمارے جذبہ و احساس میں قربانی و ایثار کا وہ جنون پیدا نہیں ہوتا جو مسلمان کی معراج ہے۔ اور یہ احوال کچھ شہدائے کربلا تک محدود نہیں، ہماری عبادات بھی بے حضور اور بے سرور سی ہوتی جا رہی ہیں۔ کئی کئی حج کرنے کے بعد بھی ہمارے شب و روز میں مکہ مدینہ کی بوئے دلآویز پیدا نہیں ہوتی۔ سیرت و کردار کے تیور نہیں بدلتے۔ زندگی معمولات کے چنگل سے نکل کر کسی انقلاب سے ہمکنار نہیں ہوتی۔ کتنے ہیں جن کی نمازیں ان کی پیشانی کے داغ سجدہ سے آگے نکل کر ان کی روحوں میں نشیمن بنالیتیں اور ان کی روز مرہ زندگیوں میں بہار کی دائمی رت بن کر سما جاتی ہیں۔ اور پھر ہم نبی کریم سے کس کس طرح اپنی لازوال محبت اور بے کراں عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ کیسی کیسی محفلیں اور کیسے کیسے جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں لیکن آپ کی روشن تعلیمات ہمارے معمولات سے کوسوں دور رہتی ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ مسلمان ہوتے اور مسلمان کہلاتے ہوئے بھی ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ان رفعتوں سے محروم ہیں جو ہمارے آبا کا مقدر بنیں ۔ شاید اسلام کا ظاہر پیکر، اس کی حقیقی روحانی تعلیم و تربیت پر غالب آگیا ہے۔ عشق و عقیدت کا سارا زور ظاہر پر مرکوز رہتا ہے اور باطن کی کلر زدہ کھیتی ہری نہیں ہوتی۔ یہ کوئی چھوٹی محرومی نہیں۔
لیکن آیئے آج علامہ اقبال کے درد و گداز میں شریک ہو کر امام عاشقاں کی یاد مناتے ہیں۔ ”رموز بے خودی“ کی ایک فارسی نظم کے چند اشعار #
آل امام عاشقاں پور بتول
سروآزادے زبستان رسول
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
بہرآں شہزادہ خیر الملل
دوش ختم المرسلیں نعم الجمل
موسیٰ  و فروعون، شبیرو و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است
خاست آں برجلوہ خیر الامم
چوں سحاب قبلہ باراں در قدم
برزمین کربلا با رید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تاقیات قطع استبداد کرد
موج خون اوچمن ایجاد کرد
بہرحق درخاک و خوں غلطیدہ است
پس بنائے لا الہ گردیدہ است
عزم او چوں کوہساراں استوار
پائیدار و تند سیر و کامگار
تیغ بہر عزت دین است وبس
مقصد او حفظ آئین است وبس
ما سواللہ را مسلماں بندہ نیست
پیش فرعونے سرش افگندہ نیست
خون او تفسیر ایں اسرار کرد
ملت خوابیدہ رابیدار کرد
نقش الااللہ بر صحرا نوشت
سطر عنوان نجات ما نوشت
شوکت شام و فر بغداد رفت
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفت
تارما از زخمہ اش لرزاں ہنوز
تازہ از تکبیر او ایماں ہنوز
اے صبا اے پیک دور افتادگاں
اشک ما بر خاک پاک او رساں
]”وہ کہ عاشوں کے امام و پیشوا، حضرت فاطمةالزہرا کے فرزند ارجمند اور نبی کے باغ کا سرو آزاد تھے۔ اللہ اللہ! کیا شان تھی کہ آپ کے والد بزرگوار (حضرت علی) بسم اللہ کی ”ب“ کا درجہ رکھتے تھے اور بیٹا ذبح عظیم کے معنی و تفسیر بن کر آیا۔ امت مسلمہ کے اس حسین شہزادے کے لئے رسول کریم کے مبارک کندھے سواری تھے۔ زندگی کے بطن سے متضاد قوتوں نے جنم لیا۔ جیسے موسیٰ  اور فرعون، جیسے شبیر (امام حسین) اور یزید ۔حق بہرحال قوت شبیری کے زور پر ہی زندہ رہتا ہے اور آخر کار داغ حسرت لے کر فنا ہو جانا، باطل کا مقدر ہے۔ وہ بہترین امت کا بہترین جلوہ تھا جو یوں اٹھا جیسے بارش سے بھرا ہوا بادل قبلہ کی سمت سے اٹھتا ہے یہ بادل کربلا کی زمین پر برسا اور کھل گیا۔ دشت میں گل ہائے لالہ کی فصل کاشت کی اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے قیامت تک کے لئے جبر و استبداد کی جڑیں کاٹ دیں۔ اس کے لہو کی موجوں سے ایک نیا چمن لہلہا اٹھا۔ وہ حق و صداقت کیلئے خاک و خون میں مل گیا لیکن اس اصول کی بنیاد رکھ گیا کہ اللہ کے سوا کسی کے سامنے نہیں جھکنا۔ اس کا عزم جواں پہاڑوں کی طرح مضبوط و سر بلند تھا، مستحکم، پائیدار اور آمادہ عمل۔ اس نے بتایا کہ تلوار فقط دین کی عزت و آبرو اور آئین اسلام کی حفاظت کے لئے ہے مسلمان اللہ کے سوا کسی کی غلامی قبول نہیں کرتا اور اس کا سر کسی فرعون کے سامنے نہیں جھکتا۔ اس کے لہو نے یہ راز آشکارا کردیا اور سوئی ہوئی ملت کو بیدار کردیا۔ اس نے صحرا کی ریت پر الا اللہ کا نقش لکھا اور دراصل ہماری نجات کے عنوان کی سطر تحریر کردی۔ آج شام کی شان و شوکت جاتی رہی۔ بغداد کا کرو فر بھی تمام ہوگیا۔ غرناطہ کی شان بھی مٹ گئی لیکن ہماری زندگی کا ساز حسین کے مضراب سے زندہ ہے اس کے نعرہ تکبیر سے ہمارا ایمان تازہ ہے۔ اے باد صبا! اے بہت دور بسنے والوں کی قاصد! جا اور حسین کی قبر کی خاک پاک تک ہمارے آنسوؤں کا نذرانہ پہنچا دے۔“
تازہ ترین