• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان فوری انتخابات کے مطالبے پر ڈٹ گئے ہیں، اسمبلیاں توڑنے کی آخری حد عبور کرنے کو بھی تیار ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ موجودہ جمہوری سیٹ اپ کو فوری لپیٹنے کے در پے کیوں ہیں؟ وہ اس پارلیمانی نظام کا وقت سے پہلے کیوں انجام چاہتے ہیں؟ وہ جلدی میں کیوں ہیں؟ ایسا کرنے پر آخر کیونکر تلے ہوئے ہیں؟ کیا وہ کسی کی ایما پر یہ سب کچھ کررہے ہیں؟ ان سارے سوالوں کے جواب واضح طور پر موجود ہیں، میری رائے میں عمران خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مضبوط ترین حکومت کے سربراہ کو انہوں نے کرپشن کے الزامات میں نااہل قرار دلوایا ہے جو ان کی بہت بڑی کامیابی ہے، اور اگر انہوں نے اس کو ’’بروقت‘‘ کیش نہ کرایا ہے تو2013کی طرح اقتدار میں آنے کا یہ موقع بھی ضائع کر بیٹھیں گے، عمران خان جلدی انتخابات شاید اس لئے بھی چاہتے ہیں کہ نوازشریف کا ٹرائل ابھی چل رہا ہے اور کوئی بھی فیصلہ آنے سے پہلے ان کےخلاف بنی ہوئی فضا کو اپنے حق میں استعمال کرلیں، انہیں خدشہ ہے کہ سزا ہو جانے کی صورت میں بھی نوازشریف ماضی کی طرح عوام میں مظلوم بننے کا کارڈ استعمال کر سکتے ہیں، ایک تیسری بڑی وجہ بیرون ملک سے ملنے والی سپورٹ بھی ہے، بالخصوص برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں تارکین وطن کی اکثریت پاکستان میں کرپٹ سیاسی نظام پر نالاں ہی نہیں اب اس سے نجات کی آرزومند بھی ہے، امریکہ میں 40برسوں سے مقیم میرے عزیز ریاض رانا جنہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت زندگی بھر کی کمائی نوازشریف کے شاہی محل رائونڈ کے قریب غریبوں کے لئے خیراتی اسپتال بنا کر لٹا دی، امید لگائے ہوئے ہیں کہ عمران خان اس ملک کے لئے نجات دہندہ ثابت ہوں گے وہ جو کچھ کر رہا ہے درست کر رہا ہے اس سے ملک کی قسمت بدلنے والی ہے۔ مگر ناقدین کی رائے میں عمران خان کے قبل ازوقت انتخابات کے مطالبے اور 2014 کی طرح صوبائی اسمبلی توڑنے اور قومی اسمبلی سے استعفیٰ کی دھمکی کے پیچھے شاید اب بھی طاقتور ہاتھ ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں مارشل لا، ایمرجنسی یا قومی /ٹیکنوکریٹ حکومت لانا آسان نہیں لہٰذا ن لیگ کو اقتدار سے باہر کرنا سیاسی و پارلیمانی بحران کے ذریعے ہی ممکن ہوسکتاہے؟ تاہم موجودہ حالات میں جتنی بھی سازشی تھیوریز گھڑ لی جائیں واضح نظر آرہا ہے کہ عمران خان سندھ سمیت پنجاب میں بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں اور عوام کی بڑی تعداد ان میں شریک بھی ہورہی ہے حالانکہ خان صاحب کی شفاف جمہوریت کی کوششوں میں شامل بعض وہی اربوں پتی وڈیرے ہیں جو ماضی میں کرپشن اور عوام کے ہاتھوں شکست میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ میرے خیال میں انہوں نے خود کو ان لوگوں سے نہ بچایا توان کا نئے پاکستان کا سپنا کبھی پورا نہیں ہوگا۔ دوسری طرف ن لیگ عمران خان کی نئی سیاسی حکمت عملی کو تیسرے دھرنے کی سازش سمجھتی ہے لیکن جوابی حکمت عملی بنانے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے۔ فی الوقت اس کا سارا زور اپنے نااہل وزیراعظم کو بچانے اور اقتدار میں واپس لانے پر ہے جس میں کامیابی کسی طور پر ممکن نظر نہیں آتی، جبکہ پارٹی میں دراڑیں بھی گہری ہوتی جارہی ہیں جو جلد یا بدیر شریف خاندان کے لئے بھی بڑا دھچکا ثابت ہوں گی۔ گو میاں صاحب اپنی اہلیہ کی بیماری کے جواز کے باوجود احتساب عدالتوں میں وقفے کے ساتھ پیش ہونے پر بہ امر مجبوری آمادہ ہوچکے ہیں لیکن نیب کیسز اور تیز عدالتی کارروائی پر سخت ترین الفاظ میں تنقید اور سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پراحتساب عدالت میں اپنی صاحبزادی کے ہمراہ پیشی بھگتنے کی ایک تصویر دیکھ کر میاں صاحب کے ساتھ جولائی کے پہلے ہفتے میں دورہ ازبکستان کےموقع پر دوران پرواز انکا پراعتماد اور تفاخرانہ انداز بے اختیار یاد آیا، ایک موقع پر میرے انتہائی محترم سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے کالم ’پارٹی از اوور‘ پر میاں صاحب نہ صرف برانگیختہ ہو کر روایتی انداز میں متجسس ومتفکر ہوئے بلکہ برہم بھی۔ جب ہم نے انہیں عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے قبل مستعفی ہونے یا اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کرانے کے محض دو آپشن ہی رہ جانے کا بتایا تو وہ مزید چراغ پا ہوگئے، اسی دوران میاں صاحب کے اردگرد موجود ثناخانوں نےانہیں مکمل یقین دلایا کہ ان کے خلاف ایسا کوئی فیصلہ نہیں آئے گا جس پر میاں صاحب کا زرد و سفید چہرہ ایک دم سرخی میں بدلا اور وہ غلط فہمی کا شکار ہوگئےکہ انہیں کسی صورت نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن ہونی کو کون روک سکتا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ چند ماہ پہلے ان کے منہ بولے بھائی نے آفر کی تھی کہ آئیے مل کر لڑتے ہیں لیکن بقول زرداری صاحب کے میاں صاحب نے ان سے دغا کیا، اب رابطے کرنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں لیکن اب میاں صاحب سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ گو سیاسی پنڈت محو حیرت ہیں کہ مفاہمت کے چیمپئن کا اتنا سخت موقف کیوں؟ شاید وہ جانتے ہیں کہ زرداری صاحب خیبرپختون خوا اور پنجاب میں جلسے کر کے اپنی عوامی مقبولیت کا اندازہ لگا چکے ہیں لہٰذا ایک نظریاتی جماعت کو عوامی حمایت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے زور پر سیاسی دوام بخشنے کی راہ تلاش کر رہے ہیں حالانکہ ایک نئی اطلاع کے مطابق ان کی یہ ’ڈیل‘ بھی اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے اور اب زرداری صاحب خود بھی اس کے شکار جائیں گے؟ زرداری صاحب کی پیپلزپارٹی سمجھتی ہےکہ میاں صاحب لندن سے اسلام آباد ایئرپورٹ یا پنجاب ہائوس سے احتساب عدالتوں میں وی آئی پی پیشی کے موقع پر درجنوں کارکنوں کے ’’وزیراعظم نوازشریف‘‘ کے نعروں کو اقتدار میں واپسی کا سبب اور سہارا سمجھتے ہیں لیکن افسوسناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اپنی نااہلی کا الزام بالواسطہ اسٹیبلشمنٹ پر دھرنے کے باوجود اپنے اور صاحبزادی کے سیاسی مستقبل کو بچانے کی خاطر کھل کر اصل وجوہات بتانے سے گریز کرتے ہیں، بعض کے خیال میں میاں صاحب کو پاناما کی بجائے اقامہ پر نکالے جانے کا رونا اب ختم کر دینا چاہئے کیونکہ بطور وزیراعظم پاکستان کسی دوسرے ملک کا اقامہ کونفلکٹ آف انٹرسٹ کی بدترین مثال اور کسی بھی دوسرے جرم سے بڑا جرم ہے۔ انہیں اب اپنے خاندان سمیت قریبی عزیزوں کے بیرون ملک اربوں ڈالر کے اثاثوں کی اصل حقیقت عوام کے سامنے پیش کردینی چاہئے بلکہ انہیں ازخود وطن واپس لانا چاہئے تاکہ نیب عدالتوں کے فیصلے سے پہلے ہی عوام میں سرخرو ہوجائیں۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے آئندہ انتخابی شیڈول کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت حکومت کی آئینی مدت 5 جون کو مکمل ہوگی اور اسکے بعد نگراں حکومت عام انتخابات کرائے گی جس کے لئے تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں کچھ بھی کہا جائے حکمراں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سمیت تمام چھوٹی بڑی جماعتیں پارلیمنٹ کی آئینی مدت مکمل کرنے کے حق میں ہیں تاکہ آئندہ انتخابات کی تیاری کے لئے بھرپور وقت مل سکے، ملکی اور عالمی حالات کے تناظر میں 2018کے عام انتخابات پاکستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بہت اہم ہیں یہ بھی واضح ہے کہ اصل مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی میں ہی ہوگا لیکن انتخابات سے قبل ملک میں کرپٹ اشرافیہ کے چہرے کے نقاب اترنے اور بڑے خانوادوں کے سیاسی مکافات عمل سے دوچار ہونے سے امید ہو چلی ہے کہ نظام میں بہتری کا بنتا خاکہ ایک شفاف اور دیانت دار پاکستان کا حقیقی روپ ضرور دھارے گا، سیاسی انتخابی اکھاڑے میں جیت نوازشریف کی ہو یا عمران خان کی، فتح ہر صورت پاکستان کی ہونی چاہئے کیونکہ اب یہ ملک مزید دھاندلی کے الزامات اور کرپٹ اشرافیہ کے بنائے گئے ذاتی مفادات کے نظام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس ملک کا مستقبل صاف، شفاف و غیرجانبدارانہ انتخابات اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ اور جمہوری نظام سے ہی وابستہ ہے۔

تازہ ترین