• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اس دین کے پیروکار ہیں جس میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی بار بار تلقین کی گئی ہے اور قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو لوگ شکر بجا لائیں گے، ہم اُن کی نعمتوں میں اضافہ کرتے رہیں گے، لیکن دکھ کی بات یہ کہ ہمارے اہلِ وطن جن کو خالقِ حقیقی نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، ان کی زبان سے حرفِ شکایت اکثر سننے میں آتا ہے کہ پاکستان نے ہمیں غربت، افلاس، جہالت اور بے کسی کے سوا اَور دیا کیا ہے اور یہاں کے حکمران مفاد پرست اور خودغرض ہیں، اساتذہ اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت برتتے ہیں اور یہاں کے سرکاری عمال لوگوں کا خون چوستے ہیں۔ وہ اکثر کہتے ہیں کہ یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے، کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا اور بہت کم لوگوں کو وقت کی قدر و قیمت کا شعور ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ کہ جو شخص جس قدر آسودہ اور خوشحال ہے، وہ اسی قدر پاکستان میں کیڑے نکالتا اور صلواتیں بھیجتا ہے اور یہ تاثر دیتا ہے کہ وہ اس ملک میں رہ کر اس پر بہت بڑا اِحسان کر رہا ہے۔
آپ اخبارات کا مطالعہ کیجیے تو ایسے مضامین پڑھنے کو ملیں گے جو یہ تاثر پھیلاتے ہیں کہ پاکستان کی نیا ڈوبنے والی ہے، معیشت کا دیوالیہ نکلنے والا ہے اور بڑی طاقتیں ہم پر چڑھ دوڑنے والی ہیں۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے، اسپتال قتل گاہیں بن گئے ہیں، دفتروں، ضلع کچہریوں میں کرپشن کا بازار گرم ہے، ترقیاتی منصوبوں میں اربوں کھائے جا رہے ہیں اور معاشرہ اخلاقی زوال کی انتہا کو پہنچنے والا ہے۔ تعلیم ایک مقدس پیشے کے بجائے کاروبار کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور ڈاکٹری کا مقدس پیشہ بھی مختلف قسم کی آلودگیوں سے داغدار دکھائی دیتا ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ کے بچے سرکاری اسکولوں میں تعلیم پاتے نہ سرکاری عمال عام ہسپتالوں میں علاج کراتے ہیں۔ دولت مند لوگ اپنے ہوائی جہازوں میں اُڑتے پھرتے ہیں جبکہ عام آدمی کو پیدل چلنے کے لیے فٹ پاتھ بھی دستیاب نہیں۔
غالبؔ نے کہا تھا کہ شکایت بے جا کا گلہ کیا۔ میں جب اپنے ہم وطنوں کی اس طرح کی باتیں سنتا ہوں، تو مجھے ناشکری کے عذاب سے خوف آنے لگتا ہے۔ ہمیں ناشکری کا رومانس لاحق ہو گیا ہے اور اپنے وطن کو بے حیثیت ثابت کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔ بلاشبہ ہمارے معاشرے میں ہولناک سماجی اور معاشی ناہمواریاں ہیں، مگر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم کس پستی سے چلے تھے اور کس بلندی تک پہنچ گئے ہیں۔ میں نے انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی کا زمانہ دیکھا ہے جس میں مسلمان نچلے درجے کے شودر اور اچھوت سمجھے جاتے تھے اور اُن پر باعزت روزگار اور اعلیٰ تعلیم کے دروازے بڑی حد تک بند تھے۔ ہم ایک برتن میں ہندوؤں کے ساتھ کھانا کھا سکتے نہ ایک گلاس میں پانی پی سکتے تھے۔ ہمارا ہاتھ اُن سے چھو جاتا، تو وہ اپنے آپ کو نجس سمجھ لیتے اور ہمیں اپنے پاس بٹھانے سے گریز کرتے۔ دفتروں میں صرف چپڑاسیوں، خاکروبوں اور زیادہ سے زیادہ چھوٹے بابوؤں کی ملازمت مسلمانوں کو مل سکتی تھی۔ پورے لاہور میں صرف دو مسلمانوں کے پاس ٹوٹی پھوٹی کاریں تھیں۔ یو پی کے سوا تقریباً سبھی علاقوں کے مسلمان شدید افلاس کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ 1937ء کے انتخابات میں جب ہندوستان کے آٹھ صوبوں میں کانگریس کی حکومت بنی یا یوں کہہ لیجیے کہ رام راج قائم ہوا، تو اسلامی عقائد اور شعار کا گلا گھونٹا جانے لگا۔ اسکولوں میں مسلمان بچوں کو بھجن گانے پر مجبور کیا جاتا اور گائے کی قربانی پر شہروں اور قصبوں میں فسادات پھوٹ پڑتے۔ سرسید احمد خاں کی شبانہ روز کوششوں سے مسلمانوں کے اندر جدید تعلیم حاصل کرنے کا احساس پیدا ہوا اَور علی گڑھ یونیورسٹی نے مسلمانوں کو علمی اور سیاسی قیادت فراہم کی۔ قائداعظم کی بے مثال قیادت میں پاکستان وجود میں آیا اور ہم غلاموں کے بجائے ایک آزاد وطن کے باعزت شہری بنے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے حقدار ٹھہرے۔
پاکستان نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا؟ تحت الثریٰ سے اُٹھا کر عرشِ معلی پر لا بٹھایا۔ ہماری شناخت قائم ہوئی، عالمی برادری میں ایک بلند مقام حاصل ہوا، اس کی مسلح افواج کی دھاک بیٹھ گئی اور اس نے ایٹمی طاقت حاصل کر لی۔ غریبوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے لگے۔ بیرونی ملکوں میں پاکستانی سائنس دانوں، انجینئروں اور غیر معمولی صلاحیتوں سے لیس ماہرین نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ اللہ کا فضل ہے کہ بائیس کروڑ کے اس دیس میں کوئی بھوکا نہیں سوتا اور کوئی ننگا نہیں رہتا، جبکہ بھارت میں کروڑوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر سوتے اور پاؤں سے ننگے رہتے ہیں۔ بلاشبہ دولت کی منصفانہ تقسیم کا ایک قابلِ اعتماد نظام نہایت مضبوط بنیادوں پر قائم ہونا چاہیے جس کیلئے بنیادی اصلاحات کے عمل سے گزرنا اور نفس پر قابو پانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ناشکری کے رومانس سے باہر آنا اور قدم قدم پر سجدۂ شکر بجالانا ہو گا۔ ہمارے اندر اور ہمارے اردگرد جو طوفان اُمڈے چلے آ رہے ہیں، اُن کا سرچشمہ کفرانِ نعمت ہے۔ ہمارے طبقوں اور ہمارے اداروں کے درمیان جو آویزش بڑھتی جا رہی ہے اور ہماری سیاست پر جو اسموگ چھایا ہوا ہے، اس کا بڑا سبب ناشکری اور بے صبری ہے۔ پاکستان جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا تھا، اس لیے اس نظام کو مستحکم اور ناقابلِ تسخیر بنانا تمام سیاست دانوں اور جملہ اداروں کی ذمہ داری تھی۔ بدقسمتی سے 1954ء میں عدلیہ اور سول ملٹری بیورو کریسی کی ملی بھگت سے اس پر شب خون مارا گیا اور رہی سہی کسر میجر جنرل اسکندر مرزا کے پہلے مارشل لا نے پوری کر دی۔ اس کے بعد سے مریض انٹینسیو کیئر (Intensive Care)میں چلا آ رہا ہے۔
2013ء کے عام انتخابات میں جناب نوازشریف کو حکومت سازی کا موقع ملا اور اُنہوں نے پاکستان کو انٹینسیو کیئر سے باہر لانے کی سرتوڑ کوشش کی جس میں عسکری قیادت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ کراچی کا امن بحال ہوا، فاٹا میں حکومتی رِٹ قائم ہوئی اور معیشت میں قابلِ ذکر اُبھار آیا۔ سی پیک منصوبے سے سرمایہ کاری کے دروازے کھلتے جا رہے ہیں اور پاکستان کو علاقائی تنظیموں میں شمولیت کے مواقع ملے، مگر وزیراعظم نوازشریف نے اللہ تعالیٰ کا پورے انکسار کے ساتھ شکر بجا لانے کے بجائے تساہل سے کام لیا، اپنی سیاسی جماعت کے کروڑوں کارکن جو اُن کی اصل طاقت ہیں، اُن سے صرفِ نظر کرنا شروع کر دیا اور حکومتی اختیارات کو اپنی سیاسی طاقت کا محور بنا لیا۔ تب غیر سیاسی ادارے ریاست سے حاصل شدہ طاقت پر مطمئن رہنے کے بجائے پَر پھیلاتے چلے گئے جس کے نتیجے میں دل کا سکون چھن گیا۔ اس سے کہیں زیادہ دلخراش کھیل برادر اسلامی ملک میں کھیلا جا رہا ہے جس کی سلامتی کے لیے ہم سب دست بہ دعا ہیں۔ مملکت کے ولی عہد جس روش پر چل نکلے ہیں وہ ناشکری کے عذاب پر منتج ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین